’’دیکھ۔۔۔ بھائی نہیں ہے۔۔۔‘‘

ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بنگلا اور اردو کے 50 فی صد لفظ مشترک ہیں


Rizwan Tahir Mubeen July 18, 2021
ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بنگلا اور اردو کے 50 فی صد لفظ مشترک ہیں

جوں ہی مس شہلا کی 'فوجی نظم وضبط' برقرار رکھی ہوئی کلاس ختم ہوئی، ویسے ہی 50، 55 بچوں کی کلاس نے گویا ایک انگڑائی سی لی اور آدھے پونے گھنٹے سے بندھے بیٹھے ہوئے بچے ایک دم سے کُھلنے لگے۔۔۔ اکثر ایسا ہوتا کہ پوری کلاس میں ساکت منہ سِیے بیٹھے ہوئے بچوں میں سے پہلے کوئی ایک بچہ ذرا سی آواز نکالتا اور پھر ایک لمحہ لگتا کہ سب بہ آوازِ بلند باتیں اور کچھ ہنسی مذاق کرنے لگتے، اگلی کلاس کے ٹیچر کو آنے میں ذرا تاخیر ہو جاتی، تو کلاس میں دھما چوکڑی مچنے لگتی۔۔۔

عام طور پر یہ کام کلاس کے چند ''نامی گرامی'' طلبہ ہی کرتے تھے، ویسے ہماری کلاس میں ایک سے بڑھ کر ایک شرارتی بچہ موجود رہا ہے، جن کا اسکول بھر کے اساتذہ کی ناک میں دَم کرنے کا ایسا ریکارڈ تھا کہ ہم سے بڑی کلاسوں کے لڑکے بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے۔۔۔ لیکن کبھی ٹیچر کے کلاس سے نکلتے ہی انھی کے لیکچر یا نصیحت میں سے کوئی فقرہ اُچک کر اسے مزاحیہ انداز میں دُہرانے والا طالب علم سہیل صادقین ہوتا۔۔۔ یوں لگتا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنے مَن میں یہ جملہ دبائے، ٹیچر کے کلاس سے نکلنے کا منتظر تھا، پھر وہ سب کے ساتھ خود بھی زور زور سے ہنستا۔۔۔ کبھی وہ بے ساختہ کچھ گنگناتے ہوئے اپنے فن کے جوہر دکھاتا، اوسط درجے کا طالب علم رہنے والا سہیل بہ یک وقت مَن موجی بھی تھا اور بہت سنجیدہ بھی۔۔۔

نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں چھے ڈیسکوں کی قطار میں اکثر ہماری ڈیسک اگلی سے دوسری یا کسی کلاس میں تیسری رہتی تھی اور سہیل عام طور پر آخری بینچ سے اگلی ڈیسک پر بیٹھتا تھا، کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی اور ہماری ڈیسک دو الگ الگ قطاروں میں لگ بھگ برابر برابر ہوتی تھیں، ہم سب کلاس میں اپنی ایک ڈیسک مقرر کر لیا کرتے تھے۔۔۔ دوپہر کی شفٹ میں لگنے والے نجم اسکول کے چھے برسوں میں ہمارے ڈیسک کے ساتھی عاطف الرحمن رہے، جب کہ سہیل کے بازو میں ہمیشہ رحمن الٰہی بیٹھتے تھے۔۔۔

اسکول میں ہمارا یہ خوش گفتار ساتھی سہیل صادقین 10 جولائی 2021ء کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہم سے بہت دور چلا گیا۔۔۔! ہم سمجھتے تھے کہ جب ہمارے بالوں کی سیاہی قصۂ پارینہ بن چکی ہو گی۔۔۔۔، چہرہ جُھریوں زدہ، کمر خَم زدہ ہو جائے گی اور سارے دانت جھڑ جائیں گے، تب یہ ساتھ پڑھے ہوئے، ساتھ کھیلے ہوئے اور ساتھ زندگی جینے والے ہم رکاب اور ہم رخصت ہوں گے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے، مجموعی طور پر سہیل ہمارے ساتھ پڑھا ہوا اب تک کا چھٹا لڑکا ہے، جو یہ دنیا چھوڑ گیا ہے۔۔۔!

ہماری کبھی سہیل سے ایسی کوئی دوستی تو نہیں رہی، لیکن ایک کلاس کی رفاقت تو بہرحال تھی، اس کے بعد سیکینڈری کے کم از کم تین برس بھی ہم نے ایک ہی کلاس میں بِتائے۔۔۔ پھر اسکول کے بعد جب بھی گلی، محلے میں ملتے تو وہ بہت تپاک سے ملتا۔۔۔

سہیل کا چھوٹا بھائی دانش صادقین 'بی' سیکشن میں ہوتا تھا، ہر بریک میں وہ ہماری کلاس میں آجاتا اور کبھی دونوں بھائیوں میں ہلکی پھلکی سی جھڑپ بھی ہو جاتی تھی۔۔۔ لیکن بڑا بھائی بہرحال بڑا تھا، کچھ دیر بعد یا اگلے دن ہی دونوں پھر شیر وشکر پائے جاتے۔۔۔ اور جب ہمارے اسکول میں کچھ کہنے سننے کو والدین کو بلایا جاتا تھا، تو کسی کی امّی آرہی ہیں، تو کسی کے ابو۔۔۔ لیکن سہیل اور دانش اپنی دادی کے پاس رہے، تو ہمیشہ وہی یہ ذمہ داری بھی نبھاتی تھیں۔

سر پر برقع، آنکھوں پر نظر کی عینک جمائی، متانت بھرے چہرے کی یہ ہر لمحہ سنجیدہ سی خاتون، ہماری ٹیچر کے ہر بلاوے پر دوڑی دوڑی اسکول آتی تھیں۔۔۔ اور یہ دونوں بھائی کلاس میں چاہے کچھ کرتے پھریں، دادی کے سامنے دونوں الف کی موافق سیدھے مؤدب کھڑے ہوئے ہوتے تھے اور ہم جیسے، جنھوں نے اپنی دادی کو صرف تصویروں میں دیکھا، وہ اس اعتبار سے ان پر رشک کرتے کہ دیکھو ماشااللہ سہیل اور دانش کی تو دادی بھی ہیں، جو کبھی 'لنچ باکس' لا رہی ہیں، تو کبھی ٹیچر سے ان کی کوئی شکایت سن رہی ہیں۔۔۔

سہیل نے کم سنی سے ہی زندگی کے بہت سے نشیب وفراز دیکھے، پھر میٹرک کے بعد رشتے کے چچا نے سہیل کو اپنے ساتھ کام میں لگایا اور سہیل نے خوب محنت کی اور جلد ترقی کر گیا، پھر اس کی شادی بھی جلدی ہی ہوگئی، بچوں کے ساتھ اس کا کنبہ بھی پورا ہوگیا، سر پر والدین کا سایہ، بہترین کام کاج اور گھر بار، لیکن وہ زندگی جینے کے لیے خود موجود نہیں رہا۔۔۔!

ہر لمحہ کِھلکھلانے والا ہمارا ہم جماعت سہیل صادقین ایک خواب ہو گیا۔۔۔ ہماری کلاس کی پچھلی نشستوں سے جس کے فقرے اور شرارتیں کلاس کو زعفران زار کیے رکھتی تھیں، اس کی خاموشی نے کُہرام برپا کر دیا۔۔۔ قبرستان میں سہیل کے آٹھ، نو سال کے بیٹے کی سسکیاں ہمارے کلیجے کو چیرے جائے تھیں، ضبط کرنے والوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے تھے۔۔۔ ہم نے اس کے بیٹے کو دیکھا، وہ بے چارہ اپنی آنکھیں مِیچ کر آنسوؤں کو گریہ کرنے اور ہونٹ بھینچ کر سسکیوں کو بَین کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔۔ مگر اس قیامت سی گھڑی پر معصوم کی بساط بھلا اتنی کہاں تھی۔۔۔

اب اُسے زندگی اور دنیا کی بے ثباتی کا کیا معاملہ سمجھایا جائے، سامنا تو ہمارے لیے سہیل کی امی کا کرنا بھی بہت دشوار ہوا۔۔۔ ہم نے تو سہیل کے ساتھ بچپن کے چار دن ہی گزارے ہیں، وہ تو سہیل کی ماں ہیں، اور بچھڑ جانے والوں کا ازالہ لفظوں سے ممکن ہی نہیں، اس لیے ہم صرف ان کے سامنے اپنا سر جھکا دیے اور وہ شاید ہمارے وجود میں اپنے سہیل کو دیکھ کر دستِ شفقت پھیرتی رہیں۔۔۔

نجم اسکول میں ہماری کلاس میں پڑھنے والے چار بچوں کے نام ایسے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ ہماری کلاس میں ''عامر سہیل'' اور ''وقار یونس'' پڑھتے ہیں۔۔۔ یہ دراصل کلاس کے چار الگ الگ بچوں کے نام تھے، جن میں سے سہیل اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا ہے، اللہ سہیل کی کامل مغفرت فرمائے، اور والدین اور تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔

ہماری نگاہوں سے اسکول میں ساجھے داری کا وہ منظر محو نہیں ہوتا، جب وہ بہت پیار سے کسی ہم جماعت سے کوئی کاپی گھر لے جانے کے لیے اصرار کر رہا ہے اور اُسے یقین دلا رہا ہے کہ وہ کل قطعی چھٹی نہیں کرے گا اور ہر صورت کاپی بھی لے کر آئے گا، اگر وہ پھر بھی نہ مانے، تو وہ کہتا کہ اچھا رات کو ہی کام مکمل کر کے کاپی اُس کے گھر پر پہنچا دے گا، پھر ضد کرتے ہوئے کہتا ''دیکھ۔۔۔ بھائی نہیں ہے۔۔۔!''

سہیل کا فطری میلان کچھ شرارتی سا ضرور تھا، لیکن وہ کبھی بدتمیز نہیں رہا اور نہ ہی اِس نے کبھی اپنی ذات سے جان بوجھ کر کسی بچے کو تکلیف پہنچائی۔۔۔ گذشتہ اتوار کو جب نماز جنازہ کے وقت ہم نے آخری دیدار کرنے کو اس کا چہرہ کھولا، تو یوں محسوس ہوا، کہ وہ ابھی 'بھائی رضوان' کہہ کر اٹھ کھڑا ہوگا۔۔۔ مگر وہ تو اس دنیا سے کنارہ کرکے اب ایک پرسکون اور دائمی نیند سو رہا تھا۔۔۔

پرائمری کلاسوں میں ہماری صرف عاطف سے ہی زیادہ دوستی رہی، ہم اپنی بھری ہوئی کلاس میں کاپیوں کے لین دین کے معاملے میں عموماً صرف اسی پر 'اعتبار' کر پاتے تھے، اس لیے ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کبھی سہیل کو کاپی گھر لے جانے کے لیے دی ہو، ہر چند کہ بہت سے شریر ایسے بھی تھے کہ چُپکے سے بستے میں سے ہماری کاپی پار کر کے بھی لے گئے، وہ تو بچپنا تھا، مگر آج جی چاہتا ہے کہ وقت پیچھے پلٹ جائے اور ہم کہہ سکیں 'بتاؤ یار سہیل، تمھیں ہماری کون سی کاپی چاہیے، تم بھلے ہمیشہ کے لیے لے جاؤ، مگر تم تو نہ جاؤ۔۔۔!

''دیکھ۔۔۔ بھائی نہیں ہے۔۔۔!!''

آج کے ''مشرقی پاکستان'' میں اردو کا چلن اور 'پاکستانیت' سے رغبت
ممتحنہ خاتون
(راج شاہی، بنگلادیش)

ایک ماں کے دو بچے، بچپن سے ہی بہت سی مماثلتیں، جیسے جڑواں بھائی ہوں، کھانا پینا، عید تہوار، رسم ورواج اور سب سے بڑھ کر مذہب۔ دونوں بھائی الگ تو ہوگئے، لیکن دل کے نہاں خانوں میں محبت کی جوت تو اب بھی جلی ہوئی ہے، وہ اردو زبان، جس کو نفرت کی بنیاد سمجھا یا بنایا گیا، اسے تو تقسیم کے طوفان کے بعد بالکل مٹ جانا چاہیے تھا، لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوا۔اب ہم بنگلا دیشی ہیں، مادری اور ریاستی دنوں زبانیں بنگالی ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو بنگالی کے ساتھ ساتھ اردو بھی ہماری زبان تھی۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے، لیکن بنگلا دیش میں اب بھی اردو کا چراغ کہیں کہیں فروزاں ہے۔ اردو ادب بالخصوص اردو غزل، حمد و نعت، علامہ اقبال کا شعری فلسفہ بنگلا دیشی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بنگلا دیش کے مختلف حصوں میں اب بھی اردو ادب سے دل چسپی اور شغف موجود ہے۔

شاید یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہو کہ بنگلا دیش میں کچھ لوگ اب بھی اردو مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں۔ پہلے کی طرح بنگلا دیش کے مدارس میں، بچوں کو اب بھی عربی کے ساتھ ساتھ اردو پڑھائی جاتی ہے۔ کوئی اردو سیکھنا چاہے، تو وہ مدرسے میں جاتا ہے یا پھر نجی ٹیوشن لیتا ہے، البتہ بنگلا دیش کی ہر بڑی یونیورسٹی جیسے ڈھاکا، راج شاہی، چٹاگانگ، کَھلنا یونیورسٹی اور تمام بڑے کالجوں میں اردو کے شعبے ہیں۔ اردو زبان کے ساتھ ساتھ اردو ادب، تاریخ، ثقافت اور دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر سال ان یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تقریباً 500 طلبا اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ بنگلا دیش کے طول وعرض میں اردو کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ ان طلبا کی کوششوں سے پاکستان کے بارے میں عام لوگوں میں موجود غلط فہمیاں بھی دور ہوتی ہیں۔

بنگلا دیش میں مذہبی اجتماعات اور تقریبات میں آج بھی اردو حمد و نعت پڑھی جاتی ہے، اردو کے بغیر یہ سارے اجتماعات نامکمل ہیں۔ ان مذہبی اجتماعات نے بھی اردو اور بنگلا دیش کو جوڑے رکھا ہوا ہے۔ مدرسوں کے طلبا کے لیے ہندوستان اور پاکستان سے کتابیں اور رسالے بھی آتے ہیں، پاکستانی مذہبی اسکالر کی تقریریں اور بیان بھی بنگلا دیش میں سنے اور دیکھے جاتے ہیں، بلکہ ان کے ترجمے بھی ہوتے ہیں، تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں بھی اردو کا استعمال ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب بھی اردو زبان کی معاون ہے، اس لیے اسے برقرار رکھا ہے۔

ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بنگلا اور اردو کے 50 فی صد لفظ مشترک ہیں، ڈھاکا میں پاکستانی پالی نام کی جگہ ہے، جہاں اردو اور بنگلا کی ملی جلی زبان بولی جاتی ہے، کولکتا سے آنے والے بنگالیوں میں بھی ابھی تک کچھ نہ کچھ اردو موجود ہے۔

بات اگر زبان سے ہٹ کر کی جائے، تو پاکستانی زنانہ ملبوسات اور پاکستانی پنکھے بھی بنگلا دیش میں بہت پسند کیے جاتے ہیں، دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے اب تو لوگوں کو یہ چیزیں بہت کم میسر آتی ہیں، لیکن ہمارے بڑے اب بھی ان چیزوں کو یاد کرتے ہیں، کچھ لوگ جو مغربی پاکستان میں وقت گزار چکے ہیں، فلم اور ٹی وی میں کام کر چکے ہیں، اب بھی اس خطے کو یاد کرتے ہیں، یہاں اب بھی وہ بڑے بوڑھے مل جاتے ہیں، جو مسلم لیگ کے کارکن تھے، جناح ان کے راہ نما تھے۔

بنگلا دیش میں پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی بہت مقبول ہے، کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ پہلے یہ ایک ہی ٹیم تھی، بنگلا دیش میں کچھ ریڈیو اسٹیشن اب بھی رات کی نشریات میں اردو غزلیں اور گانے بھی پیش کرتے ہیں، بنگلا دیش میں کچھ شاعر اردو کلام بھی کہتے ہیں، اس کے علاوہ اردو شاعر اور افسانوں کے بنگلا ترجمے بھی ہوتے ہیں۔ البتہ اردو لکھنے والے بنگلا دیشی لکھاریوں کی تحریریں بنگلا دیش میں تو نہیں چھپتیں، وہ اپنی نگارشات چھپنے کے لیے پاکستان یا ہندوستان بھیج دیتے ہیں، بنگلا دیش میں اردو کتابیں شایع ہوتی نظر نہیں آتیں۔

پاکستانی گلوکاروں میں عاطف اسلم بنگلا دیش میں بہت مشہور ہیں۔ وہاں سیٹلائٹ ٹی وی چینل میں ایک مذہبی چینل اور پی ٹی وی اسپورٹس دکھائے جاتے ہیں، پاکستانی ڈرامے دیکھنے کے لیے لوگ یوٹیوب وغیرہ کا رخ کرتے ہیں، پاکستانی ڈرامے خصوصاً بنگلا دیشی لڑکیوں میں بہت مقبول ہیں۔ لڑکیاں پاکستانی ڈراموں کے کلپ ایک دوسرے کو دکھاتی اور سناتی بھی ہیں اور پھر ان پربات بھی ہوتی ہے۔

جیمس اسٹریٹ
یہ انگریزوں کے زمانے کی حوالات ہے!
مکرم نیاز (حیدرآباد دکن)

جنوبی ہند کے حیدرآباد اور سکندرآباد کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ آصف جاہی دورِ حکمرانی میں 1798ء کے فوجی معاہدے کے تحت انگریزوں کی اتحادی فوج نے اپنے تقریباً آٹھ ہزار فوجیوں کے ساتھ اس مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا، تاکہ حکومت اور حکمران کی حفاظت کا فریضہ ادا کیا جا سکے۔ چوں کہ اس وقت تیسرے نظام سکندر جاہ حکمراں تھے، لہٰذا انگریزوں نے تجویز دی کہ وہ اس علاقے کا نام ''سکندرآباد'' رکھیں گے، یوں 1806ء میں حیدرآباد کے جڑواں شہر ''سکندرآباد'' قائم ہوا۔ ہرچند کہ بنیادی طور پر یہ فوجی چھاؤنی رہا، مگر فوج کے تعاون کے لیے عوامی شہری آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

لیفٹننٹ کرنل جیمس کرک پیٹرک کی پیدائش 1764ء میں مدراس (چنائی) میں ہوئی تھی اور وہ برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے 1798ء میں حیدرآباد دکن میں وارد ہوئے اور 1805ء میں اپنے انتقال تک حیدرآباد کے 'ریزیڈنٹ' کے عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے ہی 'برٹش ریزیڈنسی' (حیدرآباد ریزیڈنسی یا کوٹھی ریزیڈنسی) کی عمارت 1798ء میں تعمیر کروائی۔ آج یہی عمارت یونیورسٹی کالج برائے خواتین (عثمانیہ یونیورسٹی کالج فار ویمن، کوٹھی) کہلاتی ہے۔ برٹش/حیدرآباد ریزیڈنسی سے ویمن کالج میں تبدیلی 1949ء میں عمل میں آئی۔

تو انہی صاحبِ بہادر کرنل جیمس کے نام سکندرآباد کی مرکزی سڑک موسوم کی گئی، یعنی 'جیمس اسٹریٹ'۔ اور آزادیٔ ہند کے بعد جس کا نام بدل کر 'مہاتما گاندھی روڈ' کر دیا گیا ہے۔ اس مرکزی شاہ راہ پر سینکڑوں معروف و مقبول کاروباری ادارے قائم ہیں۔

جیمس اسٹریٹ کے اسی علاقے میں نظام اسٹیٹ ریلوے نے سکندرآباد اسٹیشن کے بعد حیدرآباد واڈی ریلوے لائن پر دوسرا بڑا اسٹیشن 'جیمس اسٹریٹ' کے نام سے 1874ء میں تعمیر کیا، جو آج بھی اسی نام سے قائم ہے۔ اسی طرح جیمس اسٹریٹ کا تھانہ 'جیمس اسٹریٹ پولیس اسٹیشن' کے نام سے موسوم ہوا۔ 1900ء میں دیوان بہادر سیٹھ رام گوپال نے اس اسٹیشن کی تعمیر کے وقت اپنی طرف سے اسٹیشن کے اوپر کلاک ٹاور نصب کرایا تھا، جو آج بھی فعال ہے۔ آزادیٔ ہند کے بعد حسب روایت اس تھانے کے نام کی تبدیلی عمل میں آئی اور آج یہ 'رام گول پیٹ پولیس اسٹیشن' کہلاتا ہے۔

مارچ 1998ء میں اس وقت کی آندھرا پردیش کی حکومت نے اس عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ 2016ء تک متعلقہ پولیس عملہ یہاں کارگزار رہا، مگر عمارت کی مخدوش حالت کے سبب بلدیہ حیدرآباد نے اسے ستمبر 2016ء میں خالی کروا دیا۔ 120 سالہ تہذیبی و ثقافتی ورثے کو بعض قوتیں بوجہ انسانی سلامتی منہدم کرنے پر مُصر ہیں، جب کہ بعض سماجی تنظیمیں اسے برقرار رکھنے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں