جرأتِ فیصلہ
قیامت کے دن ہر مسلمان مرد اور عورت اپنے طرز عمل کے لیے خود ذمے دار ہوگا۔
ہم میں سے اکثر روزے دار شاذ و نادر ہی قرآن کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں، جو رمضان کو غور و فکر کا مہینہ ٹھہراتی ہے۔
خدا ایمان والوں کو نصیحت کرتا ہے کہ روزہ رکھتے ہوئے قرآنی احکام کے معنی پر منطق اور استدلال کا استعمال کرتے ہوئے غور کریں۔ قیامت کے دن ہر مسلمان مرد اور عورت اپنے طرز عمل کے لیے خود ذمے دار ہوگا، اسی لیے ہمیں اسلام کے اصولوں، جو اللہ نے متعین کیے ہیں، کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور زیادہ اہم یہ کہ ان کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
ایسا ہی ایک اصول جو ہمارے غور و فکر کا متقاضی ہے، وہ مصیبت میں ثابت قدمی ہے، یا جدید اصطلاح میں جرأتِ فیصلہ۔ یہ اخلاقی اصول اشارہ کرتا ہے کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ اس کی ایک حتمی رائے ہو، یعنی ایک اخلاقی ڈھانچہ یا ایک آفاقی زاویہ نگاہ۔ اور دوم یہ کہ وہ اس کے لیے جرأت کے ساتھ کھڑا رہے۔
جہاں تک اس کے پہلے حصے کی بات ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو مذہب کے اخلاقی اصولوں کے مطابق اپنے لیے اس کا تعین کرنا ہے کہ کسی خاص صورت حال اور وقت میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط، یہ کہ میں کون ہوں اور معاشرے میں میرا کیا مقام اور ذمے داری ہے۔
ایک شہری اور ایک مسلمان کے لیے ضابطوں اور قانون کی فرماں برداری ایک مرکزی معاملہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم پانچ وقت اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں صراط مستقیم دکھا اور ہمیں اس سے بھٹکنے مت دے۔ اسلام نے جو قوانین بیان کیے، بہ طور مسلمان ہم انھیں قبول کرتے ہیں، لیکن یہ بھی 'رٹے' کے طور پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عقل کا استعمال کرتے ہوئے، جس سے اللہ نے ہمیں لیس کیا ہے۔ مختصر یہ کہ ایمان رسوم کی ادائیگی سے کہیں زیادہ اہم چیز ہے۔
امام غزالی نے پندرہ برس اس تشکیک اور غور و فکر میں گزارے کہ وہ اسلام کے مطالبات پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں۔ چالیس سال کی پختہ عمر میں ایک روحانی بحران سے دوچار ہو کر انھوں نے اپنا سب تج کر مکے کی زیارت کے قصد کے ساتھ بغداد کو خیرباد کہہ دیا۔
گھر والوں کے بندوبست کے لیے انھوں نے اپنی دولت سے چھٹکارا حاصل کیا اور ایک درویشانہ طرز زندگی اپنالی۔ تدریس کے کام سے گریز کا مقصد روحانی تجربے کا سامنا کرنا اور زیادہ عمومی یہ کہ 'دنیا اور روایات' کا فہم حاصل کرنا تھا۔ دمشق اور یروشلم میں کچھ وقت گزارنے کے بعد، 1096 میں مکہ و مدینہ کی زیارت کے ساتھ، وہ طوس واپس آئے جہاں انھوں نے اگلے کئی برس عزلت میں گزارے۔
احمد سنجر کے وزیر اعظم فخر الملک نے الغزالی کے نظامیہ نیشاپور لوٹنے پر اصرار کیا۔ آخرکار الغزالی نے تذبذب کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے، انھیں یہ واضح خدشہ تھا کہ ان کی نئی حاصل کردہ تعلیمات کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں مزاحمت کی جائے گی اور تنازع کھڑا ہوگا۔ لیکن وہ اپنے 'جرأتِ فیصلہ' کی وجہ سے واپس گئے، اور ہر قسم کی تنقید کا سامنا ہونے کے امکان کے باوجود نئی تشریح کی تعلیم دینی شروع کر دی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئی تفہیم کا حصول اور فیصلے تک رسائی ایک طویل مدتی عمل ہے، اور کوئی آسان کام نہیں۔ ایک ایسا عمل جو ثابت قدمی اور نظم و ضبط کا تقاضا کرتا ہے۔ اپنے فیصلے پر علی الاعلان ڈٹے رہنے کے لیے ہمت اور قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ جن میں فیصلہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے، جب ان کے منصب یا رتبے میں ترقی ہوتی ہے اور وہ اعلیٰ حلقوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو وہ سمجھوتے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، مبادا کہیں وہ ترقی کے سفر میں حاصل کردہ مراعات کھو نہ دیں۔
ایک جدید ریاست کے شہریوں کو ملکی قوانین کی تعمیل کرنی ہوتی ہے۔ بہ طور ملازمین ہم ملازمت کے قوانین کی تعمیل کرتے ہیں، بہ طور فوجی ہمیں چین آف کمانڈ میں اپنے افسران کے حکم کی تعمیل کرنی ہوتی ہے۔ یہ تب آسان ہوگا جب ہم یہ غور و خوض کے بغیر، غلامانہ طابع داری کے ساتھ کریں، ایسی طابع داری جس کا مطالبہ ایک جاگیردار اپنے خادمین سے کرتا ہے۔ کہا گیا کوئی کام بغیر غور و فکر کے کرنا ایسا ہے جیسے اس کام کی ذمے داری اس شخص پر چھوڑی جائے جس نے حکم دیا تھا۔ لیکن بحیثیت مسلمان قرآن میں ہمیں اس بات پر سراہا گیا ہے کہ غور کریں اور اپنے آپ کے لیے ذمے دار بنیں۔
جب کسی بڑی غلطی یا غلط فیصلے کو چیلنج کیا جاتا ہے، تو اگر اس اعتراض پر سنجیدگی سے غور جائے تو زیادہ نقصان سے بچا جا سکتا ہو۔ تاہم ہر حکومت، کمپنی یا ادارے کے جی حضور افراد ہمیشہ افسر اعلیٰ کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں، اگرچہ وہ اسے غلط ہی سمجھتے ہوں۔ وہ، جو اپنے کیریئر کی ترقی کے لیے خاموش رہیں، ایسے افراد ادارے کے لیے بے کار ہیں، اور ایک لحاظ سے یہ بدعنوانی اور بے ایمانی کے مترادف ہے۔ البتہ کھل کر بات کرنے اور اپنے شکوک کے اظہار کے لیے ہمت اور افسر بالا یا ساتھیوں کی طرف سے منفی رد عمل کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری طرف، اس میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ اس 'جرأتِ فیصلے' کو غلطیوں سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمیں غلط پالیسیوں اور بدانتظامیوں سے بچاتا ہے، جو کہ دولت ضایع کرتی ہیں اور ریاست یا اداروں کی ترقی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم سب انسان ہیں اور بعض اوقات غلطیاں کر جاتے ہیں۔
کسی کو ایسی صورت حال میں ایک ایسے افسر اعلیٰ کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی اہلیت، کردار اور قابلیت کی وجہ سے اپنی نشست پر ہے، نہ کہ 'سفارش' کی وجہ سے۔ یہ شاید ہمارے جیسے جاگیردار معاشرے میں ممکن نہیں ہے جو غلامانہ اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔
سفارش آپ کو کمزور بنا دیتی ہے اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے فیصلے کی حکمت پر سوال اٹھانے والے لوگ آپ کی حیثیت پر حملہ آور ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں میرٹ کو نااہل قرار دے دیا جاتا ہے، اور اس کے بجائے افسر اعلیٰ یا ملازمت دلانے والے کی تابعداری ہی ترجیحی قابلیت سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں واضح طور پر یہی مسائل ہیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بدعنوانی اور بدانتظامی کا راج ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف جرات مند افراد کی تربیت اور ان کی پرورش کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی بھی ضرورت ہے، جو نوجوانوں میں اس طرح کے اخلاقی طرز عمل اور ایسے فیصلوں کی تشکیل میں مدد فراہم کرتا ہے، جو انھیں کسی دی گئی حقیقت پر سوال اٹھانے اور شک کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اور جو ان میں اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے کی ہمت پیدا کرتا ہے، اس پختہ علم کے ساتھ کہ یہ صرف خدا ہی کی ذات ہے جس کے آگے ہم خود کو غیر مشروط طور پر پیش کرتے ہیں، اس کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)