طالبان اور افغان افواج آمنے سامنے

امریکا اورنیٹو کے پروردہ حکمران طبقے کی محافظ فوج طالبان کی یلغار روک سکے گی یا کاغذی شیر ثابت ہو گی؟


سید عاصم محمود August 07, 2021
امریکا اورنیٹو کے پروردہ حکمران طبقے کی محافظ فوج طالبان کی یلغار روک سکے گی یا کاغذی شیر ثابت ہو گی؟ ۔ فوٹو : فائل

پچھلے سال ماہ ستمبر تک افغان دارالحکومت کابل میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ امریکی ونیٹو فوجی عنقریب واپس چلے جائیں گے۔اس خبرنے افغان حکومت میں ہلچل مچا دی۔

افغان حکمران طبقے نے بیس سال کے دوران امریکی و نیٹو افواج کی پشت پناہی سے افغانستان کے اکثر اضلاع پر اپنا اقتدار بحال رکھا تھا۔یہ غیر ملکی افواج رخصت ہو جاتیں تو بیشتر افغان دانشوروں کو یقین تھا کہ طالبان مذید اضلاع فتح کر لیں گے۔

اس وقت اسد اللہ خالد وزیردفاع تھا۔ وہ کئی مرتبہ قاتلانہ حملوںمیں بال بال بچاخ طالبان اسے ملک دشمن اور اخلاقی گمراہی میں مبتلا شخص قرار دیتے ہیں۔ بہرحال اسد اللہ اور بعض دیگر وزرا نے افغان صدر،اشرف غنی کو یہ تجویز پیش کی کہ جو فوجی اور پولیس کے سپاہی دور دراز کے اضلاع میں تعینات ہیں،انھیںاسلحے سمیت کابل، قندھار، ہرات، مزار شریف، قندوز، بدخشاں اور دیگر بڑے شہروں میں بلا لیا جائے۔مقصد یہ تھا کہ وہ شہروں کا دفاع کر سکیں۔

اشرف غنی اور اس کے مشیر قومی سلامتی،حمد اللہ محب نے اپنے وزرا کا مشورہ مسترد کر دیا۔ان کا استدلال تھا کہ افغان سیکورٹی فورسسز اتنی طاقتور ہیں کہ ہر جگہ اہم سڑکوں ،تجارتی راستوں اور سرحدی مقامات کا دفاع کر سکیں۔انھیں یقین تھا کہ طالبان عسکری طور پہ اتنے مضبوط نہیں کہ اہم مقامات پہ مستقل قبضہ کر لیں۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں حمد اللہ نے دعوی کیا:''ہم طالبان کو ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔''اللہ تعالی کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا۔

مقروض امریکی حکومت

صرف چھ ماہ بعد نئے امریکی صدر،جو بائیڈن نے اپریل 2021کو اعلان کیا کہ 11ستمبر سے قبل امریکی نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہو جائیں گی۔(محض ساڑھے چھ سو فوجی قیام کریں گے تاکہ امریکی تنصیبات کی حفاظت کر سکیں)یہ اعلان ہوتے ہی افغانستان میں مقیم امریکی ونیٹو فوجیوں نے واپسی کی تیاریاں زور شور سے شروع کر دیں۔لگتا تھا کہ غیرملکی افواج جلد از جلد رخصت ہونا چاہتی ہیں۔وہ بس اس انتظار میں تھیں کہ امریکی صدر جانے کا اعلان کریں اور وہ کمر کس لیں۔

اس اعلان پر مگر افغان حکمران طبقہ خاصا جزبز ہوا۔اس نے پس پردہ بہت زور لگایا کہ امریکی حکومت اپنا فیصلہ تبدیل کر دے لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔دراصل امریکی ویورپی حکمران پچھلے بیس سال سے ہزارہا ارب ڈالر افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے پر صرف کر چکے تھے ۔اب بھی ہر سال چار پانچ ارب ڈالر وہاں خرچ ہو رہے تھے۔نئی امریکی حکومت یہ خرچہ بچانا چاہتی تھی تاکہ دیگر ضروری اخراجات کے لیے رقم مل سکے۔افغان و عراق جنگوں نے امریکی حکومت کو خاصا مقروض کر دیا تھا۔اب وہ مذید سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہ تھی۔لہذا اعلی ترین درجے پہ فیصلہ ہوا کہ افغانستان اور افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

امریکی میڈیا کے مطابق پچھلے بیس برس میں امریکا و نیٹو ممالک نے کم از کم دو تا ڈھائی ٹرلین (دو تا ڈھائی ہزار) ڈالرافغانستان پہ خرچ کر دئیے۔ان میں سے تقریباً ایک سو ارب ڈالر افغان افواج اور پولیس بنانے پر لگے۔افغان افواج بری اور فضائیہ پہ مشتمل ہے۔بری فوج کی تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار ہے۔جبکہ فضائیہ سات ہزار نفری رکھتی ہے۔پولیس کی تعداد ڈیرھ لاکھ ہے۔گویا افغان سیکورٹی فورسسز کاغذات میں تقریباً تین لاکھ تعداد رکھتی ہے۔یہ فورسسز ہلکے لڑاکا طیاروں،جنگی ہیلی کاپٹروں،ٹینکوں،توپوں اور بکتر بند گاڑیوں سے لیس ہے۔بیشتر اسلحہ روسی و امریکی ہے۔ان فورسسز کا مقابلہ اسّی نوے ہزار طالبان سے ہے جو زیادہ تر چھوٹے دیسی ہتھیار رکھتے ہیں۔

امریکی و نیٹو افواج کے بہترین انسٹرکٹر پچھلے پندرہ برس سے افغان فوجیوں اور سپاہیوں کو تربیت دے رہے ہیں۔درحقیقت امریکی و نیٹوافواج نے افغانستان میں طویل عرصہ اس لیے بھی قیام کیا کہ افغان سیکورٹی فورسسز کو مطلوبہ جنگی تربیت دے کر اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ افغان حکومت کا موثر دفاع کر سکیں اور طالبان کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کر لیں۔صدر اشرف غنی اور ان کے اکثر ساتھیوں کو یقین تھا کہ افغان سیکورٹی فورسسز عددی و اسلحے کے لحاظ سے اتنی طاقتور ہیں کہ طالبان کو مذید اضلاع پہ قبضہ نہ کرنے دیں۔ان کی تمنا مگر سراب ثابت ہوئی۔

طالبان کی پیش قدمی

یکم مئی2021 ء سے طالبان یکایک پیش قدمی کر کے نئے اضلاع پہ قابض ہونے لگے۔ افغانستان کے چونتیس صوبے''421''اضلاع رکھتے ہیں۔مئی سے قبل طالبان نے 74اضلاع پہ تسلط جما رکھا تھا۔جب انھوں نے پیش قدمی کا آغاز کیا تو یہ سطور قلمبند ہونے تک وہ 210اضلاع اپنے اختیار میں لا چکے ۔گویا انھوں نے صرف ایک ماہ میں اپنی عمل داری مزید 136اضلاع تک پھیلا لی۔طالبان کی برق رفتار کامیابیوں نے افغان حکمران طبقے ہی نہیں امریکی و یورپی حکومتوں کو بھی حیران پریشان کر دیا۔ان کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ افغان سیکورٹی فورسسز اتنی نااہل اوربزدل ثابت ہوں گی۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق افغان حکومت نے یہ دعوی کر کے خفت مٹانے کی کوشش کی کہ سیکورٹی فورسسز کو دانستہ واپس بلایا گیا تاکہ وہ شہروں کا دفاع کر سکیں۔افغان حکومت یہ پروپیگنڈا بھی کرنے لگی کہ پاکستانی جہادی تنظیمیں طالبان کو نفری و اسلحہ فراہم کر رہی ہیں، اس لیے انھیں کامیابی ملی۔ حکومت پاکستان نے یہ الزام مسترد کر دیا۔

پچھلے سال امریکا اور طالبان کے مابین معاہدہ ہوا تو اس کی ایک اہم شق یہ تھی کہ افغان حکومت تمام قیدی طالبان رہا کر دے گی۔اس نے پانچ ہزار قیدی تو رہا کر دئیے لیکن پھر مزید رہا کرنے سے مُکر گئی۔یوں افغان حکومت نے بدعہدی کر کے معاہدہ توڑ دیا۔اس کے بعد ہی طالبان نے افغان حکومت کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیںاور اضلاع پہ قابض ہونے لگے۔ترک صدر طیب اردغان کا یہ بیان حقیقت پر مبنی نہیں کہ طالبان نے اضلاع پہ قبضہ کرنے سے خلافِ اسلام سرگرمی دکھائی۔

سچ یہ ہے کہ افغان حکومت نے اپنے مفادات خطرے میں دیکھ کر امن معاہدہ توڑ ڈالاجس کی بنا پہ طالبان کو حرکت میں آنا پڑا۔اگر وہ کوئی اقدام نہ کرتے تو اسے ان کی کمزوری و بزدلی تصّور کیا جاتا۔ترک صدر کو یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے تھا کہ امریکا نے زور زبردستی سے افغان حکومت طالبان سے چھینی تھی۔لہذا اخلاقی و قانونی طور پہ اب حکومت طالبان ہی کو ملنی چاہیے۔ موجودہ افغان حکمران تو''فراڈ الیکشن ''سے اقتدار میں آئے جس کا اقرار امریکی میڈیا بھی کرتا ہے۔

مسئلے کا سیاسی حل

سیکڑوں اضلاع بہ سرعت فتح کرنے سے صورت حال بدل گئی۔پہلے افغان حکومت اور طالبان متوازی قوتوں کی حیثیت سے بات چیت کر رہے تھے۔جب طالبان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تو قدرتاً ان کا پلّہ بھاری ہو گیا۔وہ پھر افغانستان پر ملکیت کا دعوی کرنے لگے تو جعلی افغان حکمران طبقے کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا۔اس نے اپنی حکومت بچانے کی خاطر حکمت عملی تبدیل کر لی۔

روس،چین اور وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک طالبان کے حامی بن چکے۔وجوہ عیاں ہیں۔افغان حکومت امریکا اور نیٹو کی پٹھو اور پروردہ ہے۔اس پہ روس و چین اعتبار نہیں کرتے۔چونکہ افغانستان قیمتی معدنیات کے ذخائر رکھتا ہے لہذا دونوں عالمی طاقتیں اس میں دلچسی لے رہی ہیں۔مذید براں یہ ملک چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا بھی حصّہ بن سکتا ہے۔تاہم روس اور چین نہیں چاہتے کہ طالبان بزور قوت حکومت بنانے کی کوشش کریں۔یوں مملکت خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گی۔اسی لیے وہ مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔

بھارتی اسلحہ اور نئی ہائبرڈ جنگ

امریکا خاصی حد تک افغان حکومت کی مالی وعسکری پشت پناہی سے دستبردار ہو چکا۔اسی لیے افغان حکومت نے بھارت سے روابط بڑھا لئے۔پچھلے بیس برس کے دوران بدقسمتی سے افغانستان کی سرزمین بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔افغانستان سے بھارت نے پاکستان پہ مختلف خفیہ وعیاں چالوں سے یلغار کیے رکھی۔ مثلاً ریاست کی دشمن تنظیموں کو سرمایہ واسلحہ فراہم کیا۔جبکہ بھارت افغان حکومت کو مستحکم کرنے کی خاطر بھاری رقم بھی خرچ کرتا رہا۔اس باعث دونوں کے مابین گہرے روابط ہیں۔

افغان حکومت کی درخواست پر بھارتی اسلحہ افغانستان پہنچنے لگا۔یہ طالبان کے خلاف جنگ میں کام آئے گا۔افغان حکمران طبقہ پاکستان کو طالبان کا مربی و سرپرست سمجھتا ہے۔اسی لیے پاکستان سے تعلقات کشیدہ کرنے کے لیے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا ڈراما رچایا گیا۔اس ڈرامے کے بعد افغان حکومت نے پاکستان سے سفیر واپس بلا لیا۔گلگت بلتستان کے بس حادثے میں بھی بھارتی وافغان ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔گویا انھوں نے پاکستان کے خلاف نئی ہائبرڈ جنگ کا آغاز کر دیا ۔

ایک چشم کشا رپورٹ

افغان حکمران طبقہ بقا کے لیے اپنی سیکورٹی فورسسز پہ تکیہ کیے بیٹھا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ فورسسز کیا اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کا دفاع کر پائیں گی جنھیں عوام میں کوئی مقبولیت حاصل نہیں؟اس سلسلے میں ممتازامریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ''کی ایک خصوصی رپورٹ ''Unguarded nation ''اہم انکشافات سامنے لاتی ہے۔یہ دسمبر 2019ء میں طبع ہوئی تھی۔اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ افغان سیکورٹی فورسسز انتہائی نا اہل،جوش وجذبے سے عاری،کرپٹ اور مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔حتی کہ ان کی تربیت بھی مناسب انداز میں نہیں ہوئی۔

رپورٹ سے مزید افشا ہوا کہ افغان حکومت کے کاغذات کی رو سے افغان سیکورٹی فورسسز کی تعداد ''تین لاکھ باون ہزار'' ہے۔مگر جب جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ افغان افواج اور پولیس میں صرف ''دو لاکھ چون ہزار''افراد اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔گویا حکمران طبقے نے دھوکہ دہی اور فراڈ سے کاغذات میں تقریباً ایک لاکھ نفری بڑھا دی جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

مقصد یہی تھا کہ اس نفری کی تنخواہ جرنیلوں،سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے مابین تقسیم ہو سکے۔امریکی اخبار نے یہ سچائی بھی افشا کی کہ افغان حکمران طبقہ جو رقم ہڑپ کر رہا تھا،وہ امریکی ٹیکس دہندگان ادا کرتے ہیں۔

اسی رپورٹ سے افغان سیکورٹی فورسسز کے متعلق مذید انکشافات سامنے آئے۔مثلاً یہ کہ ان میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔بیشتر فوجی اور سپاہی نشئی ہیں۔حتی کہ جب وہ گشت پہ نکلتے تو کھلے عام افیون،چرس، ہیروئن وغیرہ کا استعمال کرتے۔اہم انکشاف یہ سامنے آیا کہ اکثر اضلاع میں کمانڈروں نے ''نجی چیک پوسٹیں''قائم کر رکھی ہیں۔

ان پوسٹوں سے گذرنے والوں سے بھتا لیا جاتا جو افغان سیکورٹی فورسسز کے کمانڈروں کی جیبوں میں جا پہنچتا۔یہ امر بھی نمایاں ہوا کہ افغان فوجیوں میں دشمنی عام ہے۔وہ ایک دوسرے پہ گولی چلاتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے۔نیز عوام کو بھی مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔غرض کرپشن اور لالچ و ہوس نے افغان سیکورٹی فورسسز کو اخلاقی طور پہ کھوکھلا کر دیا۔یہ فورسسز کیا طالبان سے مقابلہ کر سکیں گی جو اخلاقی طور پہ ان سے زیادہ مضبوط ہیں؟سچ یہ ہے کہ افغان حکمران طبقے کی بے دریغ کرپشن کے باعث ہی سیکورٹی فورسسز بھی کرپٹ ہو گئیں۔

کرپٹ افغان حکمران طبقہ

اکتوبر 2001ء میں جب امریکا نے عسکری قوت کے بل بوتے پر طالبان کو تتّربتّر کیا تو افغان عوام پہ کٹھ پتلی حکمران بٹھا دئیے۔امریکی حکمران طبقے نے افغان عوام و دنیا والوں سے وعدہ کیا کہ افغانستان مغربی طرزِحکومت ،جمہوریت کا بول بالا ہونے سے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن جائے گا۔ممکن ہے کہ امریکی حکمران طبقے کا یہی عزم ہو،گو وہ عالم اسلام میں سازشیں کرنے میں سرگرم رہتا ہے۔تاہم افغان پٹھو حکومت نے اس کے خواب ملیامیٹ کر دیے۔نئی افغان حکومت سر تا پا کرپشن سے لتھڑی ثابت ہوئی۔

امریکا و دیگر ممالک نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے بیس برسوں میں افغان حکومت کو بلامبالغہ اربوں ڈالر دئیے مگر اس کا معمولی حصّہ ہی عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر لگ سکا۔بیشتر رقم حکمران طبقہ چٹ کر گیا۔اس طبقے کا طریق واردات سادہ تھا:مثال کے طور پر ایک اسکول یا اسپتال بنانے کی خاطر اسے دو کروڑ ڈالر موصول ہوئے۔

اس رقم میں سے ایک کروڑ ڈالر تو بالائی سطح کے وزیروں مشیروں میں تقسیم ہو گئے۔پھر حکمران طبقے کے نچلے حصے کی باری آتی۔وہ بھی پچاس لاکھ ڈالر اپنی جیبوں میں ڈال لیتا۔یوں بچے کھچے صرف پچاس لاکھ ڈالر ہی سے اسکول یا ہسپتال کا ڈھانچا کھڑا ہو پاتااور عمارت عموماً نامکمل رہتی۔اکثر ایسا ہوتا کہ اسکول یا ہسپتال سرکاری کاغذات میں تو موجود ہے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔

کرپشن اور لالچ و ہوس نے افغان حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسسز کو بھی کھوکھلا اور جوش وجذبے سے عاری کر ڈالا۔جبکہ طالبان برملا کہتے ہیں کہ وہ زمین پہ اللہ تعالی کا نظام قائم کرنے کی خاطر اقتدار چاہتے ہیں،اس تمنا سے ان کے ذاتی مفادات وابستہ نہیں۔طالبان کی تاریخ دیکھی جائے تو ان کا دعوی برحق محسوس ہوتا ہے۔

گڈ گورنس کا ظہور

1989ء میں سویت فوج کی رخصتی کے بعد مختلف افغان جہادی گروہ آپس میں لڑ پڑے تھے۔ہر کوئی حکومت کرنے کا متمنی تھا۔اس نئی خانہ جنگی نے مملکت میں لاقانونیت پیدا کر دی اور جرائم پیشہ لوگ کھلے عام گھناؤنے جرم کرنے لگے۔ملا عمر ایک معمولی استاد تھے۔انھوں نے ساتھیوں سے مل کر اپنے علاقے سے جرائم پیشہ افراد کاخاتمہ کر دیا۔مذید کئی ساتھی آن ملے تو طالبان تنظیم وجود میں آئی جس نے افغانستان میں امن قائم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔1994ء کے اواخر تک ملک کا نوے فیصد علاقہ ان کے زیرتسلط آ گیا۔

سرزمین افغاناں میں طالبان اپنی رٹ اس لیے قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ جو ضلع فتح کرتے وہاں موثرنظام حکومت یعنی گڈ گورنس متعارف کرا دیتے۔ تمام فسادیوں کا قلع قمع ہو جاتا۔شرعی عدالتیں وجود میں آتیں جہاں سے غریب ترین شہری کو بھی فوری انصاف میّسر آتا۔طالبان کی بیوروکریسی بھی رشوت خور نہ تھی اور شہریوں کے تمام کام قانونی طریقے سے انجام پاتے۔کسی جگہ امیر یا بارسوخ شہری کی پذیرائی نہ کی جاتی، حکومت کی نگاہ میں سب شہری برابر تھے۔اچھے نظام حکومت سے ضلع میں امن جنم لیتا اور معاشی ومعاشرتی سرگرمیاں فروغ پانے لگتیں۔

افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے عوام پر کچھ ایسی پابندیاں لگا دیں جو متنازع ثابت ہوئیں۔مثلاً لڑکیوں کی تعلیم پہ پابندی لگنا۔مزید براں شرعی سزائیں نافذ کرنے پر مغربی ممالک اور ان کی امداد پر پلنے والی افغان این جی اوز نے ناگواری کا اظہار کیا۔یہ فروعی معاملہ تھا مگر مغربی میڈیا افغانستان میں اسلامی حکومت تشکیل دینے پر طالبان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لگا۔انھیں ایسے ظالم و جابر حکمران کے طور پہ پیش کیا گیا جو عوام کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتے ہیں۔طالبان کے حامیوں کا مگر یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی مملکت میں اسلامی و مشرقی اقدار وروایات کااحیا چاہتے تھے جنھیں مادہ پرستی کی ترویج کرنے والی مغربی تہذیب نے ماند کر ڈالا تھا۔

عوام کی حمایت پا لی

طالبان کو تاہم زیادہ عرصے حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا کہ چند سال بعد امریکا نے افغانستان پہ قبضہ کر لیا۔اکتوبر2001ء کے بعد دو ڈھائی سال تک ملک میں امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت کا ہی راج رہا۔مگر اس دوران کرپشن اور بدانتظامی عروج پہ رہی۔عام آدمی رشوت دیتا، تبھی اس کا کام ہو پاتا۔اسے آسانی سے انصاف بھی میّسر نہ آتا۔عوامی بھلائی کے منصوبے نہیں بنے اور حکمران طبقہ سرکاری خزانہ کی لوٹ مار کرتا رہا۔صورت حال نے افغان عوام کو نئی حکومت سے متنفر کر دیا۔انھیں تب طالبان حکومت یاد آنے لگی جو ان کی تکالیف کا مداوا کرتی تھی۔

چناں چہ عوام اپنے مسائل لے کر مقامی طالبان رہنماؤں کے پاس جانے لگے جو ان کی ہر ممکن مدد کرتے۔عوام کی مدد کرنے سے ہی کئی اضلاع میں طالبان کو لوگوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔رفتہ رفتہ ایسا وقت آیا کہ عوام کی پشت پناہی سے مقامی طالبان لیڈروں نے ضلع یا تحصیل میں اپنی حکومت قائم کر لی۔

طالبان پہ ایک بڑا الزام یہ لگتا ہے کہ انھوں نے رقم پانے کی خاطر اپنے کنٹرول میں آنے والے اضلاع میں پوست کاشت کرنے کی اجازت دے دی۔طالبان مگر یہ الزام تسلیم نہیں کرتے۔ان کا دعوی ہے کہ افغان حکومت کے زیرکنٹرول اضلاع میں نوے فیصد پوست کاشت ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ وہ شہریوں پہ واجبی ٹیکس لگا کر سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔یہ رقم پھر اسلحہ خریدنے،تیار کرنے اور تنخواہیں دینے میں کام آتی ہے۔بہرحال عوام کی حمایت و مالی مدد ہی سے طالبان دنیا کی اکلوتی سپرپاور کا مقابلہ کامیابی سے کرنے کے قابل ہو گئے۔

مختلف سوچ رکھنے والے رہنما

یہ واضح رہے کہ ہر تنظیم کی طرح طالبان کی صفوں میں بھی قدامت پسند،اعتدال پسند، جدت پسند، انتہا پسند غرض مختلف سوچ و نظریات رکھنے والے رہنما پائے جاتے ہیں۔ لہذا جن علاقوں میں اعتدال پسند رہنما کنٹرول حاصل کر لیں،وہاں زیادہ سخت پابندیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ان علاقوں میں لڑکیاں اسکول بھی جا سکتی ہیں۔حتی کی ملازمت بھی کرتی ہیں مگر حجاب پہن کر۔مگر جو اضلاع انتہا پسند لیڈروں کے کنٹرول میں ہیں،وہاں کافی سخت پابندیاں عائد ہیں۔ چونکہ طالبان کی مرکزی قیادت ابھی یک سو حالت میں نہیں،اس لیے بھی اضلاع میں متفرق نظام ہائے حکومت دیکھنے کو ملے۔جب بھی کابل میں طالبان حکومت قائم ہوئی، تب بنیادی پالیسیوں کی تشکیل سے ہر ضلع کے نظام حکومت میں ہم آہنگی آ جائے گی۔

''تاریخی شکست''

پچھلے بیس برس سے امریکا ونیٹو نے طالبان کو شکست دینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا!حتی کہ افغانستان میں انھوں نے ایک خفیہ فوج بنا ڈالی جو سی آئی اے کے ایجنٹوں اور کرائے کے فوجیوں پر مشتمل تھی۔مغربی ممالک نے اپنے تمام مالی و عسکری وسائل جنگ میں جھونک دئیے مگر وہ طالبان کو ہرا نہ سکیں۔طالبان کی گوریلا جنگ نے الٹا امریکا و نیٹو کو پسپا ہونے پہ مجبور کر دیا۔اسی لیے دنیائے مغرب کے نامی گرامی دانشورں نے افغانستان سے امریکا و نیٹو کی افواج کے انخلا کو ''تاریخی شکست''سے تعبیر کیا۔

نتیجہ کیا نکلا؟

ایک بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ امریکا ونیٹو کی طویل ترین افغانستان جنگ سے نتیجہ کیا برآمد ہوا؟یہ افغان عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ آج بھی ان کی اکثریت غربت،بیروگاری ،جہالت اور بیماری کی بیڑیوں میں جکڑی ہے اور عام آدمی کی حالت بدل نہیں سکی۔بیس سالہ دور میں صرف حکمران طبقے سے وابستہ مردوزن ہی نے بذریعہ کرپشن اپنی تجوریاں بھر لیں اور امیر کبیر بن گئے۔اس طبقے کے افراد کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ ہو گی۔

اسی طرح خوشحال تاجر،کاروباری اور زمین دار بھی پانچ چھ لاکھ کی تعداد رکھتے ہیں۔گویا چار کروڑ افغانوں میں سے تین کروڑ اسّی لاکھ افغان اب بھی آرام وآسائش کی زندگی سے محروم ہیں۔ان میں سے اکثر کو تو بنیادی سہولتیں مثلاً اچھّی غذا،صاف پانی،بجلی،سیوریج وغیرہ بھی میّسر نہیں۔چناں چہ امریکا و نیٹو کے حملے کا کیا فائدہ ہوا؟بس یہی کہ اس نے افغانستان میں نودولتیوں کا نیا طبقہ پیدا کر ڈالا اور وہاں مغربی تہذیب وتمدن کو متعارف کرا دیا۔

قران حکیم کا بے مثال سبق

طالبان کی کامیابیاں دیکھ کر راقم کو مغرب پسند پاکستانی دانشور یاد آ گئے۔جب بیس سال پہلے امریکی اسلحے نے طالبان کومنتشر کیا تو انھوں نے دعوی کر دیا تھا کہ وہ اب قصّہ ِپارنیہ بن چکے۔ان کا باب ختم ہو گیا۔دانشوروں نے اپنے مضامین میں یہ بھی لکھا کہ دور جدید کی جنگوں میں ایمانی جوش وجذبہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور ایسی باتیں فرسودہ اور دقیانوسی ہو چکیں۔مگر طالبان کے احیا نے ان دانشوروں کی سبھی پیش گوئیاں اور دعوی غلط کر دکھائے۔

افغانستان میں دنیا کی عظیم ترین عسکری طاقتوں کی پسپائی سے یہ اہم نکتہ نمایاں ہوا کہ آج بھی کسی حریف کی شکست یا فتح میں جوش وجذبہ اور نیت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔عددی برتری اور خوفناک ہتھیاروں کی اہمیت اپنی جگہ مگر امریکا و نیٹو افواج کی ہار نے سبھی پہ یہ سچائی افشا کر دی کہ یہ دونوں عوامل جیت کی ضمانت نہیں سمجھے جا سکتے۔

اللہ تعالی نے قران پاک میں اس نکتے کو کئی آیات میں نمایاں کیا ہے کہ مسلم لشکر اگر تعداد میں کم ہے، اسلحہ تھوڑا رکھتا ہے تب بھی وہ اپنے رب پہ ایمان کی قوت اور نیک نیتی کی طاقت سے پر غالب آ سکتا ہے۔اور طالبان بار بار کہتے ہیں کہ ان کی جنگ ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ زمین پہ رب تعالی کا نظام قائم کرنے کے لیے ہے۔

افغان حکمران طبقے کا طرز زندگی بھی طالبان لیڈروں سے بالکل مختلف ہے۔اکثر طالبان رہنما مختلف کام کرتے ہیں تاکہ اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پال سکیں مثلاً کاشت کاری،دکان داری، تجارت وغیرہ۔وہ بہت سادہ ہیں اور عوام کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔افغان حکمران طبقہ اول تو اپنے محلات سے نہیں نکلتا۔اگر نکلے تو گارڈوں کے حصار میں ہوتا ہے۔جبکہ طالبان لیڈر خود میدان جنگ جا کر حریف سے نبردآزما ہوتے ہیں۔2017ء میں امیر طالبان، ملا ہیبت اللہ کے تیئس سالہ فرزند ،حافظ عبدالرحمن دشمن کا مقابلہ کرتے شہید ہو گئے تھے۔طرززندگی کے تقاوت نے بھی طالبان کو خصوصاً پشتون عوام میں مقبول کر دیا۔

دو حکمت عملیاں

یکم مئی سے افغان سیکورٹی فورسسز پہ حملے کا آغاز کرتے ہوئے طالبان نے دو حکمت عملیاں اپنا لیں۔اس عمل سے ظاہر ہے کہ طویل چھاپہ مار جنگ نے طالبان لیڈروں کو تجربہ کار ا ور ماہر بنا دیا ہے۔اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ محض طاقت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ تدبیر ودانش کو بھی اپناتے ہیں۔انھیں علم تھا کہ سیکورٹی فورسسز کے بیشتر فوجی کم عمر،ناتجربے کار اور جنگ سے بیزار ہیں۔انھوں نے صرف پیسے کے لالچ میں سیکورٹی فورس میں شمولیت اختیار کی ۔لہذا جب دوران جنگ موت کو سر پہ منڈلاتے دیکھا تو راہ فرار اپنانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔اور ایسا ہی ہوا۔

اضلاع پہ دھاوا بولنے سے قبل مگر طالبان نے افغان سیکورٹی فورسسز کے مقامی کمانڈروں کو براہ راست پیغام بھجوایا کہ اگر وہ اپنی سپاہ سمیت ہتھیار ڈال دیں تو نہ صرف ان کی جانیں محفوظ رہیں گی بلکہ انھیں لباس اور رقم بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے گھروںکو لوٹ سکیں۔

دوسری حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ طالبان نے ہر ضلع میں مقامی معززین کی کمیٹی بنا دی۔اس کمیٹی نے پھر سیکورٹی فورسسز کے کمانڈروں سے رابطہ کرکے ان پہ زور ڈالا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور طالبان سے نہ لڑنے کا عہد کریں۔طالبان کی دونوں حکمت عملیوں کو بیشتر اضلاع میں کامیابی ملی۔وہاں انھوں نے معمولی لڑائی کے بعد اپنا تسلط جما لیا۔دیگر اضلاع میں وہ ناکام رہیں۔وہاں طالبان کو سیکورٹی فورسسز سے لڑنا پڑا۔لڑائیوں میں طرفین کا خاصا جانی نقصان ہوا۔

صورت حال طالبان کے حق میں

مغربی میڈیا کا دعوی ہے کہ طالبان عسکری طور پہ اتنے مضبوط نہیں کہ کسی صوبائی صدرمقام پہ قبضہ کر سکیں۔طالبان کا مگر کہنا ہے کہ انھوں نے شہروں پر اس لیے حملہ نہیں کیا کہ وہ کشت وخون نہیں چاہتے۔ان کی پہلی حکمت عملی یہ ہے کہ سیکورٹی فورسسز لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں۔امریکی میڈیا کی رو سے طالبان نے لڑائیوں میں سیکورٹی فورسسز سے بڑی تعداد میں جدید اسلحہ چھین لیا جن میں توپیں،مشین گنیں،بکتر بند گاڑیاں اور پک اپ ٹرک شامل ہیں۔بعد ازاں امریکی ڈرونوں نے چھیناگیا کچھ اسلحہ میزائیل مار کر ناکارہ بنا دیا۔

حقائق سے ظاہر ہے کہ طالبان افغان سیکورٹی فورسسز پر عددی و اسلحے کے لحاظ سے برتری نہیں رکھتے مگر نفسیاتی طور پہ ان کا پلّہ ضرور بھاری ہے۔اس کی اہم وجہ طالبان کا عوام میں مقبول، تجربے کار اور اپنے مشن سے مخلص ہونا ہے۔جبکہ افغان فوجی وسپاہی جس حکمران طبقے کی حفاظت کر رہے ہیں ،وہ خود غرض،لالچی اور مطلبی ہے۔اسے ملک وقوم کے مستقبل نہیں اپنے مفادات کی زیادہ فکر ہے۔یہی وجہ ہے، امریکا کا جوائنٹ چیفس آف سٹاف،جنرل مارک ملی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا:''فی الوقت صورت حال طالبان کے حق میں ہے۔ممکن ہے، آنے والے دنوں میں وہ افغانستان پہ قبضہ کر لیں۔مگر ملک خانہ جنگی اور لاقانونیت کا نشانہ بھی بن سکتا ہے۔ابھی وہاں کھیل شروع ہوا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔