جنگلی حیات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

کمزور قانون اور ناقص عملدرآمد۔


آصف محمود August 07, 2021
قدرت کے حسین نظاروں کا لطف لیتے پہاڑوں میں ہرن نظرآئے۔

یہ پچھلے برس کی بات ہے لاہور سے بذریعہ موٹروے اسلام آباد جاتے ہوئے فوٹوگرافی کے لئے سالٹ رینج میں چند منٹ قیام کرنا پڑا، قدرت کے حسین نظاروں کا لطف لیتے پہاڑوں میں ہرن نظرآئے۔

پہلے توآنکھوں کویقین نہیں ہو رہا تھا کہ بھلا یہاں ہرن کیسے آ سکتے ہیں؟ لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھی، ایک نہیں، وہاں کئی ہرن تھے، جو مختلف فاصلوں پر خوراک کی تلاش میں گھوم پھر رہے تھے جبکہ کئی اونچے پہاڑوں کے پتھروں کے بیچ بیٹھے آرام کر رہے تھے۔

بچوں نے پہلی بارچڑیا گھرکے علاوہ یہاں کھلے ماحول میں ہرن دیکھے تو بڑے خوش ہوئے، یہ پنجاب اڑیال اور چنکارہ ہرن تھے، جو سالٹ رینج میں بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن اب یہاں صورت حال بدل چکی ہے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں سالٹ رینج میں ہرنوں کا وہ قتل عام ہوا، جس کی شاید کوئی مثال نہ ہو۔

آپ ضلع چکوال کے مختلف دیہات خاص کر وہ علاقے جوسالٹ رینج کے اندر ہیں وہاں کا دورہ کریں تو شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جہاں سیزن کے دوران ہرن کا گوشت نہیں پکایا جاتا، یہ لوگ بڑے منظم طریقے سے شکارکرتے اور پھر ناصرف خود کھاتے بلکہ اس کا گوشت فروخت بھی کرتے ہیں۔ پنجاب وائلڈلائف کی ٹیمیں ایسے کئی پیشہ ور شکاریوں کو پکڑ چکی ہیں، جو یہ دھندا کرتے تھے مگر ملزمان چند ہزار روپے جرمانہ اداکرکے بری ہو جاتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدارمتعدد بار اس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ملک میں جنگلات اور جنگلی حیات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے اور یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے جبکہ عملی طور پرکوئی ایسا بڑا اقدام نظر نہیں آتا، جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ حکومت واقعی جنگلی حیات کے فروغ کے لئے سنجیدہ ہے۔

اگرہم دوسرے ممالک کا موازنہ کریں تو موجودہ دہائیوں میں جنگلی حیات کے فروغ اور اسے روزگارکا ذریعہ بنانے میں نارتھ امریکا اورساؤتھ افریقہ نے بہت زیادہ کام کیا ہے، جہاں ناصرف جنگلی حیات کی بقا اور تحفظ کے لئے کام کیا گیا ہے بلکہ وہاں لوگ عام مویشیوں کے بجائے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بریڈکرتے اور انہیں فروخت کرکے اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں۔ دنیا کے جن ممالک میں جنگلی حیات میں بہتری آئی ہے، وہاں ایک تو حکومت کی طرف سے سخت قوانین اور ان کا مکمل نفاذ ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ مقامی کمیونٹی کو جنگلی حیات کے تحفظ اورفروغ کے لئے متحرک کرنا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلی حیات کو اہمیت نہیں دی جاتی، لوگ جنگلی حیات کا غیرقانونی شکارکرنا فخر سمجھتے ہیں جبکہ یہاں قوانین بھی بڑے کمزورہیں، آپ دس ہرن شکارکر لیں، چند ہزار روپے جرمانہ دیں اور باعزت بری ہوجائیں۔ بے گناہ جانوروں اور پرندوں کے غیرقانونی شکار پر جیل جانا تو دورکی بات ہے آپ کو تھانے جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے مطابق چند ہزار روپے جرمانہ دے کرآپ موقع پر ہی فارغ ہو جاتے ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکارکو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے، جب تک غیرقانونی شکار کرنے والا چند روز یا ہفتوں کے لئے جیل نہیں جائے گا، وہ اس گھناونے جرم سے باز نہیں آئے گا۔ اسی طرح جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لئے مقامی کمیونٹیزکو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں کمیونٹی بیسیڈ آرگنائزیشن ( سی بی اوز) کا ماڈل پہلے ہی موجود ہے، پنجاب میں بھی مختلف سی بی اوزکام کر رہی ہیں لیکن ان کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ سالٹ رینج کے جس علاقے میں ہم نے پنجاب اڑیال اورچنکارہ ہرن کھلے عام گھومتے دیکھے تھے وہ پوٹھوہار سی بی اوکا علاقہ تھا لیکن اب یہاں نیشنل پارک کے قیام کااعلان کرکے یہ سی بی او ختم کردی گئی ہے حالانکہ پنجاب وائلڈلائف کے اپنے تجزیوں اور رپورٹس کے مطابق پنجاب میں سب سے فعال یہی سی بی او تھی، جس کے سربراہ پنجاب وائلڈلائف بورڈکے ممبربدر منیر ہیں۔ بدرمنیرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ اور فروغ کے لئے کام کرنے والے چند افراد میں سے ایک یہ ہیں۔

پنجاب میں تو شاید ان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے، بحیثیت رپورٹر پنجاب وائلڈ لائف کی بیٹ میں کام کرتے ہوئے مجھے یہ بھی جاننے اور دیکھنے کا موقع ملا کہ اتنا کام شاید پنجاب وائلڈلائف نے بطور محکمہ خود نہیں کیا ہو گا جتنا اس ایک اکیلے بندے نے اپنے وسائل سے کیا ہے، انہیں پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن کا عہدہ دیا گیا تھا تاہم محکمے کے ایک بندے کی ذاتی رنجش کی بناء پر پنجاب وائلڈلائف ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ عہدہ ہی ختم کر دیاگیا، اطلاعات ہیں کہ وزیراعلی پنجاب نے پھرسے اعزازی گیم وارڈنزکا عہدہ بحال کرنے کی نوید سنائی ہے۔

پنجاب میں جنگلی حیات کے فروغ کے لئے بریڈنگ سنٹرزکی تعداد بڑھانے اور بریڈنگ سنٹرز بنانے والوں کی ٹریننگ کی ضرورت ہے تاکہ یہاں ایسے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بریڈنگ کی جائے جو ہمارے قدرتی ماحول میں ختم ہو چکے ہیں یا ان کی نسل کو معدومی کے خطرلات لاحق ہیں۔ ایسے جانوروں اور پرندوں کو بریڈنگ سنٹرسے قدرتی ماحول میں ریلیزکیا جائے، اس سے قبل انہیں جس علاقے میں چھوڑا جائے وہاں کے ماحول سے آشنا کرنے کے لئے پہلے انہیں کچھ عرصہ وہاں رکھا جائے پھر آزاد ماحول میں ریلیز کیا جائے۔ اسی طرح سی بی اوز، گیم ریزور،پروٹیکٹیڈایریازکی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

سرپلس اور طبی عمر پوری کرنے والے جانور جیسا کہ پنجاب اڑیال ہے اسی طرح دیگرجانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کو بھی فروغ دیا جائے۔ یہ کام سی بی اوزکے ذریعے کیا جائے تو اس سے ناصرف مختلف علاقوں میں ان جنگلی جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ غیرملکی شکاری ٹرافی ہنٹنگ کے لئے پاکستان آئیں گے، جس سے کروڑوں روپے زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ کنٹرولڈ ہنٹنگ کے ذریعے ناصرف جنگلی حیات کی افزائش میں اضافہ ممکن ہے بلکہ اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ ایکوٹوورازم کو پوری دنیا میں پسند کیا جا رہا ہے اور پاکستان اس کے لئے بہترین خطہ ہے، پاکستان میں جنگلی حیات کے ذریعے ایکوٹوورازم کوفروغ دے کرکروڑوں روپے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں موجود جنگلی حیات کو دنیا کے سامنے متعارف کروانے کے لئے سرکاری سطح پرکوششیں کی جانی چاہیں، ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں پائی جانے والی جنگلی حیات سے متعلق دستاویزی فلمیں بنائی جائیں، ان کے متعلق معلومات شیئرکی جائیں تاکہ غیرملکی سیاح یہاں کا رخ کر سکیں۔ پاکستان میں ویسے توکئی افراد ذاتی طور پر یہ کام کر رہے ہیں لیکن پنجاب وائلڈلائف بورڈکے ممبر بدرمنیر جوکہ خودایک نامورشکاری بھی ہیں، انہوں نے جنگلی حیات کے بارے میں اب تک 6 ڈاکومنٹریاں بنائی ہیں، جن میں دو تو ریلیز ہو چکی ہیں اور لاکھوں لوگ دیکھ چکے جبکہ مزید چار ڈاکومنٹریز آئندہ چند دنوں میں جاری ہوں گی۔ یہ ڈاکومنٹریزماربل بطخ،ریورآف لائف دریائے سندھ،پرنسزآ ف واٹر(فیزنٹ) اور عقاب کے بارے بنائی گئی ہیں۔

پنجاب حکومت کے عملی اقدامات کی بات کی جائے تو پنجاب وائلڈلائف نے نئے مالی سال کے دوران نیچرل ہسٹری میوزیم اور اوکاڑہ وائلڈلائف پارک کے قیام سمیت مختلف وائلڈلائف پارکس اور بریڈنگ سنٹرمیں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے 675 ملین سے زائد کے منصوبے شامل کیے ہیں،محکمہ جنگلات نے بھی پنجاب میں پانچ نئے نیشنل پارک بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ وائلڈلائف بریڈنگ سنٹر باراٹھی تحصیل چونسہ میں باونڈری وال کی تعمیر، جانوروں اور پرندوں کے انکلوژراور پنجرے، زیرزمین پانی کی سٹوریج سمیت دیگرکاموں کے لئے 72.824 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وائلڈلائف پارک ہیڈسلیمانیکی اوکاڑہ میں تعمیراتی کام مکمل کرنے کے لئے 22 ملین روپے مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے، اسی طرح رائیونڈسفاری زو کی چاردیواری کے لئے 62 ملین روپے مانگے گئے ہیں۔ وائلڈلائف پارک لوئی بھیر راولپنڈی کے 15.815 ملین روپے تجویزکئے گئے ہیں۔ اوکاڑہ میں چڑیاگھرکے قیام کے لئے سب سے زیادہ 142.982 ملین روپے تجویزکئے گئے ہیں جبکہ تونسہ بیراج آب گاہ میں جاری ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے مزید 17 ملین روپے تجویزکئے گئے ہیں۔ لاہور میں نیچرل ہسٹری میوزیم کے پی سی ٹو کے لئے 17 ملین روپے مانگے گئے ہیں، جس میں نیچرل ہسٹری میوزیم کی فزیبیلٹی رپورٹ، ماسٹرپلان اور نقشہ تیارکیا جائے گا۔

ان منصوبوں کے لئے رقم ملنے سے جنگلی حیات کے تحفظ اور فروغ میں مدد ملے گی۔ محکمہ جنگلات پنجاب نے نئے مالی سال کے دوران صوبے میں پانچ نئے نیشنل پارک بنانے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کے گرین پاکستان پروگرام کے تحت ان پانچ نئے نیشنل پارکوں کے قیام کا تخمینہ 978.78 ملین روپے لگایا گیا ہے۔

محکمہ جنگلات نے پبی نیشنل پارک، خیری مورت نیشنل پارک، لال سوہنرا نیشنل پارک بہاولپور، سالٹ رینج نیشنل پارک، چنجی نیشنل پارک کے قیام کی تجاویز بھی بجٹ میں شامل کی تھیں۔ محکمہ جنگلات پنجاب کے حکام کے مطابق یہ پانچ نئے نیشنل پارک نئے مالی سال کے دوران بننا شروع ہوں گے اور2024ء میں مکمل ہوں گے۔

محکمہ جنگلات نئے مالی سال کے دوران 10 بلین ٹری منصوبے پرخصوصی توجہ دے گا اور وفاقی حکومت کی معاونت سے اس منصوبے پرکام جاری رہے گا۔ نئے مالی سال کے دوران لاہوررنگ روڈ، لاہورسیالکوٹ موٹروے سمیت اہم شاہراہوں کے اطراف میں بھی پھل اور سایہ دار پودے لگائے جائیں گے جبکہ میاواکی جنگلات کا دائرہ کار دوسرے شہروں تک بڑھایاجائے گا۔ اس مقصد کے لیے محکمہ جنگلات، پی ایچ اے ،محکمہ شاہرات پنجاب، پنجاب وائلڈلائف سمیت دیگر محکموں کی خدمات بھی حاصل کرے گا تاکہ صوبے کو سرسبزوشاداب بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

واضع رہے کہ نیشنل پارک سے مراد ایسا علاقہ ہے جو مختلف اقسام کی جنگلی حیات کا قدرتی مسکن ہو، یہاں مزید درخت لگانے کے ساتھ پنجاب وائلڈلائف کی معاونت سے جنگلی حیات کی افزائش میں اضافے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ صوبائی وزیر جنگلات پنجاب سبطین خان نے بتایا کہ وہ خود ان منصوبوں کی نگرانی کریں گے تاکہ صوبے میں مزید پانچ نئے نیشنل پارک بنائے جا سکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔