طالبان چین دوستی اور خطے کی تقدیر
اگر ایک بار چین اور طالبان کی ورکنگ ریلیشنز بن گئی تو پھر چین افغانستان دوستی شاید ہمالیہ سے واقعی بلند ہوگی۔
افغانستان کی سرزمین پر چالیس سال سے آگ اور خون کا گھناؤنا کھیل جاری و ساری ہے، دنیا کی ایک سپر طاقت روس کے بعد دوسری عالمی طاقت امریکا بھی عبرتناک شکست سے دوچار ہوچکی ہے، گوکہ وقت بڑی تیزی سے افغان سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سائے سے نجات دلانے کی جانب بڑھ رہا ہے تاہم ابھی بھی خدشات موجود ہیں۔
امریکا نے بیس سال قبل طالبان سے اقتدار چھینا تھا آج افغانستان کا اقتدار ایک بار پھر طالبان کی جھولی میں آتا نظر آرہا ہے اور کیوں نہ ہو؟ افغان سرزمین پر اگر کسی نے امن بھر کر دکھایا تو وہ طالبان کا اقتدار تھا، جنھوں نے اپنے لیڈر ملا محمد عمر کی قیادت میں افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا، بد امنی کو اپنے ملک کی تہوں سے کھرچ ڈالا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے پیشگی حملے کی خودساختہ ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا۔
تمام بین الاقوامی قوانین کو پاؤںتلے روندتے ہوئے ''کروسیڈ'' کے نام پر ایک آزاد مسلم ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، دنیا کی واحد سپرطاقت نے اپنے چالیس سے زائد نیٹو اور نان نیٹو اتحادیوں کے ساتھ صرف تورا بورا ہی نہیں بلکہ پورے افغانستان کو آگ اور خون میں نہلادیا۔ کروسیڈ کے نام پر لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا۔
افغانستان میں لگائی جانے والی اس آگ سے پورا خطہ دو دہائیوں تک جھلستا رہا۔ اس آگ نے پاکستان کو بھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف کا فیصلہ "آبیل مجھے مار" کے مصداق ٹھہرا اور پرائی جنگ ہمارے شہروں، گلی کوچوں تک آئی۔ نام نہاد دہشت گردی کی اس لڑائی میں صرف پاکستان کی سرزمین پر ستر ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، سیکڑوں ارب ڈالرز کی املاک کو نقصان پہنچا۔ پاکستان نے اس لڑائی میں فرنٹ مین اتحادی کا کردار تو ادا کیا لیکن نقصان بھی سب سے زیادہ اٹھانا پڑا۔
اس جنگ میں ٹی ٹی پی جیسی انتہاپسند تحریک کی آبیاری را اور سی آئی اے نے مل کر کی جنھوں نے پاکستان کی بنیادوں کو خود کش دھماکوں کے ایک نہ ختم ہونے سلسلے سے ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان کی فورسز کو ایک طویل اور صبر آزما جنگ میں جھونک دیا اور دوسری طرف وہ طالبان جن کی خاطر پاکستان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا تھا کے ساتھ ایک مضبوط اور قابل رشک تعلق کو بھی برباد کر دیا گیا۔
مشرف حکومت اور اس کے بعد کے ادوار میں جس طرح ہماری سالمیت کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، آئے روز خود کش دھماکے اور"دوست" ڈرون حملے۔ جس وقت امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اسی دن مجید نظامی مرحوم نے بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اخبار کے صفحات پر یہ شعر شائع کیا۔
''افغان باقی، کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ''
اور آج تک یہ شعر ان کے اخبار میں شائع ہورہا ہے۔ ان بیس برسوں میں امریکا نے اربوں ڈالر کا گولہ بارود افغانستان پر پھینکا، اس کے ڈپو خالی ہوگئے، اس کے وسائل جواب دے گئے، نیٹو فورسز کے حوصلے دم توڑ گئے، امریکا کا غرور خاک آلود ہوگیا اور کروسیڈی الوالعزمی شکست سے دوچار ہوگئی لیکن اللہ کے حکم سے آج افغان بھی باقی ہیں، اس کے کہسار بھی سلامت ہیں اور افغانستان کے وارث طالبان بھی طاقت میں ہیں۔
بیس سال کی امریکی جارحیت کے بعد ایک تباہ حال افغانستان کو ناصرف تعمیر نو بلکہ قیام امن کے لیے ایک بار پھر دیندار، مخلص اور بہادر طالبان قیادت کی ضرورت ہے اس ضرورت کو ہر ذی شعور افغانی بڑی شدت سے محسوس کررہا ہے کیونکہ عام افغانی اب ایگزاسٹ ہوچکا ہے۔
وہ مزید خونریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اسی لیے کہ تین دہائیوں سے جنگ و جدل کا مارا افغانی اب امن اور صرف امن کا متلاشی ہے اور امن کی کنجی طالبان کے علاوہ کسی دوسرے گروپ کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے امریکا انخلاء کی جانب بڑھ رہا ہے ویسے ویسے افغانستان کے مختلف اضلاع میں طالبان کنٹرول سنبھال رہے ہیں، عام لوگ ہی نہیں، کابل انتظامیہ کے ماتحت سیکیورٹی اہلکار بھی اسلحہ سمیت رضاکارانہ طور پر طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
جوبائیڈن انتظامیہ نے ستمبر کے بجائے اگست میں ہی مکمل انخلاء کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر بڑی تیزی سے عمل بھی شروع ہوا، بگرام ائیربیس رات کی تاریکی میں خالی کرکے بھاگنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن شاید امریکا کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جس تیز رفتاری سے وہ انخلاء کی جانب بڑھے گا اس سے کہیں زیادہ رفتار سے طالبان کی پیش قدمی ہوگی، طالبان کی مسلسل فتوحات نے کابل سے لے کر نئی دہلی اور نئی دہلی سے لے کر واشنگٹن کے محلات میں لرزہ برپا کرکے رکھ دیا ہے۔ پھر طالبان کی روس اور چین کے ساتھ بہتر ہوتی ریلیشن شپ نے بھارت اور امریکا کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ اسی لیے انخلاء کا وہ عمل جو اگست میں مکمل ہونا تھا اب سست روی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت امریکا کے پیش نظر دو اہم ترین ٹاسک ہیں ایک چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا اور دوسرا پاکستان کا ایٹمی پروگرام۔ جس کے لیے اس کی کوشش ہے کہ خطے کو کسی صورت استحکام کی جانب بڑھنے سے روکا جائے، اس کام کے لیے اس کی پہلی کوشش ہے کہ یہاں اس کی موجودگی برقرار رہے۔
امریکا کی خواہش ہے کہ اسے پاکستان یا تاجکستان اڈے فراہم کرے جہاں سے وہ چین اور خطے کے دیگر ممالک پر نظر رکھ سکے، پاکستان کی سول و ملٹری قیادت اس حوالے سے یکسو اور ایک پیج پر ہے اسی لیے پاکستان نے واضح طور پر انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ماضی کی طرح اپنی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس انکار کے بعد امریکا کی نظریں ازبکستان پر جمی ہوئی تھیں لیکن وہاں سے بھی لال جھنڈی دکھائی گئی۔
آج کے طالبان کل کے طالبان نہیں والا زہریلہ چورن خوش رنگ لفافے میں جو لوگ بیچنے کی کوشش کررہے ہیں انکے لیے صرف اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ آج کے طالبان بالکل کل کے ہی طالبان ہیں مگر ساڑھے سات سالہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کے تجربے، حکومت کے دوران اپنوں اور غیروں کے رویوں، اپنی غلطیوں اور امریکی اور نیٹو افواج کی بربریت، افغانستان میں موجود امریکی در پر سجدہ ریز افغانوں کی غداری اورحالات کے جبر سے طالبان نے دین کے فہم کے ساتھ دنیاداری اور ریاستی امور میں معاملہ فہمی کے میدان میں بہت کچھ سیکھا ہے۔جو وہ میدان جنگ سے لے کر مذاکرات کی ٹیبل تک منوا چکے ہیں اور زمینی حقائق کو اب جو بھی جھٹلائے گا اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
امریکی گیم پلان کو طالبان اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے پوری طرح سمجھ لیا ہے اور بہت احتیاط کے ساتھ اس کا سدباب کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے ہیں، مگر اس میں مرکزی اور حیران کن کردار طالبان کا ہے وہ کھلے ذہن و پوری دانشمندی کے ساتھ چین، روس، ایران، پاکستان اور سینٹرل ایشیاء کے مسلمان ممالک کے ساتھ مستحکم اور دیرپا تعلقات کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مذاکرات کررہے ہیں جو پوری دنیا کے لیے غیر متوقع ہے مگر امریکا اور انڈیا کے لیے اذیت ناک بھی ہے کیونکہ گیم ان کے ہاتھ سے مکمل نکل رہی ہے۔
امریکا کے نکلنے کے بعد ان کے لیے ایک آسرا ہندوستان کا تھا مگر طالبان نے جس ایمانی قوت سے بھارت کو نکال باہر کیا یہ امریکا کے درد میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور خدشہ ہے کہ ایک بار پھر وہ بدمست ہاتھی کی طرح اپنی پرانی روش پر واپس آئے گا جس کی ابتدا انھوں نے طالبان کے خلاف فضائی بمباری سے کردی ہے۔
تاہم اگر یہ سلسلہ آگے بڑھا تو امریکا کے لیے ایسا ڈراؤناخواب ہوگا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا اور اس بار اگر دوسرے ممالک نہیں تو کم از کم چین بالکل خاموش نہیں رہے گا اور اگر طالبان کو جنگ میں چین کی سپورٹ ہوگی تو اسکے بعد کا نقشہ ایک اوسط درجے کا انسانی ذہن لگا سکتا ہے اور میرے خیال میں اس کا ادراک امریکا کو بھی ہوگا۔ موجودہ حالات میں اس خطے کے مستقبل کا دارومدار طالبان کی حکومت کے استحکام پر ہے اور اس کے لیے چین، روس، پاکستان، ایران اور سینٹرل ایشیاء کے مسلمان ممالک کو پوری یکسوئی کے ساتھ طالبان کا ساتھ حکمت اور دانشمندی سے دینا ہوگا تاکہ اس خطے کو امریکی شر سے محفوظ رکھا جاسکے۔
چینی حکومت تو پوری یکسوئی کے ساتھ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے کیونکہ اس خطے میں امریکا انکا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن حد تک جائے گا تو چین کیوں طالبان کی قوت کو اپنے ساتھ نہیں ملائے گا۔
اگر ایک بار چین اور طالبان کی ورکنگ ریلیشنز بن گئی تو پھر چین افغانستان دوستی شاید ہمالیہ سے واقعی بلند ہوگی کیونکہ چین دوستی نبھانے میں اچھا ریکارڈ رکھتا ہے اور افغان بحیثیت قوم اور خصوصاً طالبان دوستی نبھانے میں پوری دنیا میں اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ اگر اسامہ کی خاطر طالبان اپنا سب کچھ داؤ پر لگا سکتے ہیں اور اگر چین نے دوستی کا ہاتھ اخلاص کے ساتھ بڑھایا تو یہ دوستی پورے خطے کی تقدیر کو بدل کے رکھ دے گی۔
طالبان چین دوستی پاکستان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی کیونکہ یہ واحد ذریعہ ہوگی پاکستان کے پیروں سے امریکی دوستی کی زنجیروںکو نکالنے کی، اور یہ بات اگر حکومت کی سمجھ نہ آئے تو کوئی بات نہیں مگر پاکستان کے لیے تو اس سے بڑی بدقسمتی نہیں ہوگی۔