غزل
شجر سے کچا ثمر توڑ کر بہت رویا
میں جلد باز چمن چھوڑ کر بہت رویا
کھلونے خواب کے بیزار کرنے لگ گئے تھے
پھر اس کے بعد انہیں توڑ کر بہت رویا
جو قدردان نہ تھے ان کے سامنے اپنے
دکھوں کے آبلے میں پھوڑ کر بہت رویا
کہیں بھی جاتا میں لے کر یہ راستہ لیکن
دوبارہ اس کی طرف موڑ کر بہت رویا
شکستِ دل پہ نہیں آنکھ نم ہوئی جاذبؔ
مگر یہ کرچیاں میں جوڑ کر بہت رویا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
عشق والوں کا دین تنہائی
وحشتوں کی امین تنہائی
روز اک زخم پیدا کرتی ہے
دل کی وحشت نشین تنہائی
بھر گیا چپ سے آسماں کا خلا
کھا گئی سب زمین تنہائی
چاہ کر بھی کسے ملے ہیں کبھی
خواب، زن، زر، زمین، تنہائی
اب فقط میرے ساتھ میں ہی ہوں
کر لے میرا یقین تنہائی
ایک مجمع ہے دل لگانے کو
اور میرے قرین تنہائی
غم کی لو سے نمود پاتے ہیں
ذات، وحشت،جبین، تنہائی
پہلے ہم تم تھے اور خوشیاں تھیں
اب ہے گھر میں مکین تنہائی
اس کے ہنسنے سے رنگ بنتے ہیں
اس کا ہنسنا نہ چھین تنہائی
رقص کرتے ہیں سانپ بن کر دکھ
جب بجاتی ہے بین تنہائی
آ گیا اک خیال کا جھونکا
بن گئی بہترین تنہائی
ذوق ِ تخلیق کو ضروری ہے
اے! حنا عنبرین تنہائی
(حنا عنبرین، لیہ )
۔۔۔
غزل
جنہیں یہ لوگ جگنو کہہ رہے ہیں
فلک سے ٹوٹ کر تارے گرے ہیں
تری آنکھوں سے خود کو دیکھنا ہے
مرے دل میں بھی کچھ منظر پڑے ہیں
کوئی منظر نہیں درکار اِن کو
غذا آنکھوں کی بس یہ رتجگے ہیں
تری باتیں مضامیں ہیں غزل کے
ترے عارض غزل کے قافیے ہیں
مری تاریک دنیا میں ابھی تک
ترے روشن دیے کے تذکرے ہیں
نکل کر آنکھ کے پنجروں سے اکثر
فصیلِ شب پہ منظر ناچتے ہیں
ابھی سے جانے کی تیاریاں ہیں
گھڑی پر تو ابھی بارہ بجے ہیں
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
مرا شوق ِقفس زندہ ہوا تھا
سو میں دنیا کا باشندہ ہوا تھا
اسے بھی دکھ تھا گزری ساعتوں کا
مجھے بھی رنجِ آئندہ ہوا تھا
اسے بھی معجزہ سمجھو، دمِ مرگ
میں ماں کو دیکھ کے زندہ ہوا تھا
کسی کے پیار کی دھُن بج رہی تھی
مرا دل تھا کہ سازندہ ہوا تھا
تمھارے حوصلے سے اور بھی کچھ
ہمارا زخم پائندہ ہوا تھا
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
جنہیں جو لگتا ہوں سرکار سمجھ لیتے ہیں
کچھ عدو مجھ کو، کئی یار سمجھ لیتے ہیں
گو غلط ہی سہی اس واسطے دیتا ہوں جواب
خامشی کو یہاں اقرار سمجھ لیتے ہیں
شہر کا شہر مری بات سے خائف نکلا
میں سمجھتا تھا کہ دو چار سمجھ لیتے ہیں
اس طرح تو کبھی شیریں نہیں ملنے والی
آپ دیوار کو دیوار سمجھ لیتے ہیں
وقعتِ خُلق، نہ کردار کی قیمت عزمیؔ
لوگ زر کو یہاں معیار سمجھ لیتے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
تمام عمر کا وعدہ نہیں کروں گا میں
وفا کروں گا تماشہ نہیں کروں گا میں
تُو ایک بار مرا اعتبار کر تو سہی
یقین جان کہ دھوکہ نہیں کروں گا میں
میں تیری فوج میں شامل تو ہو رہا ہوں مگر
کسی صغیر پہ حملہ نہیں کروں گا میں
میں اپنے یار کو پاؤں گا اپنی قسمت سے
سو دم درود وظیفہ نہیں کروں گا میں
یقین والوں نے میرا یقین توڑ دیا
سو اب کسی پہ بھروسہ نہیں کروں گا میں
نئی زمینوں میں اپنے خیال باندھوں گا
کسی زمین پہ قبضہ نہیں کروں گا میں
غمِ حسین میں رونا اگر گناہ بھی ہو
تو اس گناہ سے توبہ نہیں کروں گا میں
(صابر علی اسجد۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
جدا ہوئے تھے ہم تو لگ رہا تھا جانِ جاں گیا
زمیں گئی، مکاں گیا کہ سر سے آسماں گیا
کبھی ادھر ،کبھی ادھر ،حیات ہوگئی بسر
مگر سفر تمام کا تمام رائیگاں گیا
تمہارے بعد میں ہوا ہوں دربدر کچھ اس قدر
وہاں بھی منزلیں نہ تھیں جہاں تلک نشاں گیا
اور اب تو دھڑکنوں کی بازگشت بھی خموش ہے
تمہارا ہجر مجھ پہ یار اس قدر گراں گیا
محبتوں کے درمیان سرحدوں کی باڑ تھی
مگر ستم تو یہ ہوا کہ اس طرف جہاں گیا
ہمارا نجمؔ کیا ہے ہم گزار لیں گی زندگی
اسی طرف کو چل پڑیں گے جس طرف دھواں گیا
(نجم الحسن کاظمی ۔حویلیاں)
۔۔۔
غزل
ایسا ماحول بناؤ کہ مری آنکھ لگے
اپنی تصویردکھاؤ کہ مری آنکھ لگے
کوزہ گر! گریہ رُکے، اشک مگر بہتے رہیں
تم اِسے ایسے بناؤ کہ مری آنکھ لگے
'زندگی شمع کی صورت ہے خدایا میری'
آج یہ شمع بجھاؤ کہ مری آنکھ لگے
اس کو اک بار بتاؤ کہ مجھے چین نہیں
اس کو اک بار بلاؤ کہ مری آنکھ لگے
خواب کے تخت پہ کرنی ہے حکومت مجھ کو
باقی لوگوںکو جگاؤکہ مری آنکھ لگے
ورنہ میں صبح تلک جاگتا رہ جاؤں گا
مہدیؔ چہرے کوچھپاؤ کہ مری آنکھ لگے
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
چڑھتے ہوئے سورج کا پرستار ہوا ہے
مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے
مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ
کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے
جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر
دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے
جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا
جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے
کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا
ہر بندہ ہی پھولوں کا طرف دار ہوا ہے
حق دار رعایت کا کسی طور نہیں وہ
جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے
کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام
وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے
سینچا ہے اسے خونِ جگر سے میں نے راحِلؔ
یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے
علی راحل۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
ممکن ہو تو ناچے پہن کے پایل ریت
اتنے بادل دیکھ کے ہو گئی پاگل ریت
بن میں پہلے وحشت زندہ رہتی تھی
مانگ رہا ہے صحرا سے اب جنگل ریت
سارا پانی پی جاتی ہے بے بس ہے
بس میں ہوتا تو بن جاتی چھاگل ریت
اثمد سے محروم ہیں آنکھیں ماں کے بعد
بن جاتی ہے آنکھ کے واسطے کاجل ریت
پہلے بھی تو ریت کے پاس سے آئے ہیں
ڈھونڈ رہے ہیں آخر پھر کیوں بادل ریت
ریگستان میں ریت اکیلی رہتی ہے
ہائے خدایا!وحشت ماری گھایل ریت
(احسن خلیل احسن۔ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
نام تیرا میں جب جب پکارا کروں
درد دل کا میں دل سے اتارا کروں
ہے ترے بعد تنہائی ساتھی مری
چاہتے ہو اسے بھی تمہارا کروں؟
چاک سے اینٹ پر نام لکھ دوں ترا
دیکھ کر وقت اس کو گزارا کروں
میں سمندر کنارے یونہی بیٹھ کر
سوچتا ہوں جہاں سے کنارہ کروں
پڑھتے پڑھتے کبھی کھڑکی سے جھانک لو
تاکہ ملنے کا میں پھر اشارہ کروں
اپنی تصویر بھیجو بس اک بار تم
تاکہ تخلیقِ رب کا نظارہ کروں
(محمد ادریس رُوباص۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
جب سوالات، جوابات سے طے پاتے ہیں
تب نتائج بھی تو خدشات سے طے پاتے ہیں
جب دعا خوف کے عالم میں زباں سے نکلے
تب عقائد بھی تو صدمات سے طے پاتے ہیں
عشق، ہیجان، کشش، ذوق، جنوں، ضبط، ادا
یہ ضوابط جو جمالات سے طے پاتے ہیں
ان میں مفعول بدلتا ہے ذرا وقت کے ساتھ
وہ عوامل جو مکافات سے طے پاتے ہیں
ایک اس رات کی وسعت میں ہے صدیوں کا سفر
کتنے اوقات ، ملاقات سے طے پاتے ہیں
(علی اعجاز سحر۔کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی