کچھ مشابہ اور متشابہ الفاظ کے بارے میں

کسی مثال کے استعمال کے بغیر سمجھے اور سمجھائے نہیں جاسکتے۔


کسی مثال کے استعمال کے بغیر سمجھے اور سمجھائے نہیں جاسکتے۔

زباں فہمی 109

اردوزبان کی وسعت کی بات کی جائے تو بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ، اس کے لاکھوں الفاظ پر مشتمل ذخیرے میں شامل، ایسے لاتعداد الفاظ کا مسئلہ بھی زیرِبحث آتا ہے جن کی شکل لکھنے میں ایک ہے، یعنی املا ایک ہے، مگر وہ معانی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، پھر بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا املا ایک ہے، مگر اعراب اور معانی مختلف ہیں اور اس ذیل میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو کسی اہل زبان کی مدد کے بغیر، کسی مثال کے استعمال کے بغیر سمجھے اور سمجھائے نہیں جاسکتے۔

یہاں ایک اور قسم کی بات بھی ضروری ہے: ہم آواز (ہم صوت) الفاظ۔ یہ مشکل محض غیر اہل زبان یا ناواقف طلبہ یا بچوں ہی کو درپیش نہیں، اہل قلم بھی جابجا اس ضمن میں دِقَّت محسوس کرتے ہیں۔ محض مشابہ کہنے سے وہ مماثل الفاظ ذہن میں آتے ہیں جن کا صوتی تلفظ ایک ہو یا املا بعینہٖ یکساں ہو۔

مشابہ الفاظ کی فہرست میں شامل، ایسے الفاظ جن کی ظاہری شکل ملتی جلتی ہو، مگر وہ اِملا، اعراب اور معانی میں مختلف ہوں، متشابہ کہلاتے ہیں۔ ان کی درجہ بندی یا تقسیم ان تینوں بنیادوں پر کی جاسکتی ہے۔ آئیے اردو لغت بورڈ کی شایع کردہ، بائیس جلدوں پر مشتمل (اور اَب آن لائن دستیاب) وقیع لغت،''اردو کی پہلی مکمل (آن لائن) لُغت ]تاریخی ا ُصول پر['' سے مدد لیتے ہیں کہ مشابہ سے کیا مراد ہے اور متشابہ سے کیا مطلب اخذ کیا جاتا ہے:

مشابہ: ملتا جلتا، مانند، مثل، مطابق، ہم شکل، یکساں۔

مُشابِہ الصّوت: قریب المخرج یا ہم آواز حروف یا الفاظ۔ (خاکسار نے ماقبل یہ اصطلاح یا مرکب کہیں دیکھا نہ سنا۔س ا ص)

مُشابِہ ہونا: ایک دوسرے کی شبیہ ہونا، مثل ہونا، ایک جیسا ہونا؛ نظیر ہونا، جواب ہونا۔

مُتَشابِہ

۱۔ مشابہ، ہم شکل، ہم صورت، ملتا جلتا۔

۲۔(ا) جس کے معنی میں کچھ شبہ ہو، مشکوک، مشتبہ۔

(ب) (وہ آیاتِ قرآنی) جن کے معنی مخفی اور پوشیدہ ہیں۔

(ج) جو شک میں پڑ جائے۔

[ہاں مرتب یا کاتب کا سہو ہے۔ درست: جو شک میں ڈالے۔ س ا ص{]

مُتَشابِہ لَگنا

۱۔ پڑھنے میں بھول چوک ہونا، کچھ کا کچھ پڑھنے لگنا، خصوصاً قرآن پاک بغیر دیکھے پڑھتے وقت ایک مقام کی آیت کی جگہ دوسری آیت پڑھنے لگنا۔

۲۔ مشابہت کی وجہ سے لفظوں میں دھوکا ہونا، بھول چوک ہونا۔

مُتَشابہات

جن کے معنی مخفی ہوں؛ (اصطلاحا ً) وہ قرآنی آیتیں جن کے حقیقی معنی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔

اب ہم ایک قدیم لغت نوراللغات از مولوی نور الحسن نیر ؔ سے بھی تائید کے لیے رجوع کرتے ہیں:

مشابہ (عربی، صفت): مانند، مثل، مطابق۔ مُشابہت (ع) مؤنث : موافقت، مطابقت، شکل، شبیہ، تشبیہ، جیسے دونوں میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔

مُتَشابِہ: عربی، بہ ضم اوّل و فتح دوم وکسر پنج۔ صفت (یعنی پہلے حرف میم پر پیش، دوسرے یعنی تے پر زبر اور پانچویں یعنی بے کے نیچے زیر: س ا ص)

ا)۔ ہم شکل، ایک صورت کے ب)۔ مُشتَبِہ، مشکوک، جس کے معنی میں کچھ شُبہ ہو ج)۔ مذکر: بھول چوک، شُبہ، وہ شُبہ جو قرآن شریف کے حافظ کو ہوتا ہے یعنی وہ ایک مقام کی آیت کی جگہ دوسری آیت پڑھنے لگتا ہے (لگنا کے ساتھ) د)۔ وہ حرف جو ایک شکل کے ہیں، متشابہات (عربی، مؤنث): آیتیں جن کے معنے سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا، متشابہ لگنا: شبہ پڑنا، کہیں سے کہیں پڑھنے لگنا، قرآن شریف پڑھتے وقت، حُفّاظ بعض آیات کے مختلف موقعوں پر آجانے سے کہیں سے کہیں پڑھ جاتے ہیں (ایسا عموماً رمضان شریف میں تراویح اور شبینے کی محافل میں ہوتا ہے۔

س ا ص) {یہاں ایک بظاہر غیرمتعلق لطیفہ پیش کرتا ہوں جو حقیقی واقعہ ہے۔ نوجوانی کی بات ہے۔ ہماری مسجد میں شبینے کی محافل کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ ایک دن، رات گئے کئی حُفّاظِ کرام کے بعد، ہمارے مؤذن (حافظ غلام سَروَر) صاحب کی باری آئی۔ وہ ناک سے بولتے، اذان دیتے اور تلاوت کرتے تھے یعنی الفاظ عموماً ناک سے نکلنے والی آواز سے، بہ اعتبارِ سماعت، مشکوک ہوجاتے تھے۔ حُفّاظِ کرام کا وقفہ تھا، سو کوئی دودھ، کوئی شربت تو کوئی چائے سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

ایسے میں مؤذن صاحب کے پیچھے تین مقتدی نیت باندھے کھڑے ہوگئے: دائیں سے، یہ خاکسار، درمیان میں حفظ کا نوعمر (ہم سے کچھ سال چھوٹا) طالب علم، ارشد اور آخر میں، میرا تقریباً ہم عمر، عارف (مرحوم)۔ مؤذن صاحب کو، عین شباب میں، نیند بھی خوب آتی تھی اور رات کے پچھلے پہر اُن کی آواز گویا خوابیدہ معلوم ہورہی تھی۔

ایسے میں انھوں نے کوئی آیت تلاوت کی تو اُن کے شاگرد، ارشد کو محسوس ہوا کہ یہ فُلاں دوسری آیت سے ملارہے ہیں، اُس نے فوراً لقمہ دیا یعنی ٹوکا، آیت سناتے ہوئے، مؤذن صاحب، ذرا ٹھٹکے اور پھر وہی آیت دُہراکر آگے بڑھے، ارشد نے پھر لقمہ دیا ، مؤذن صاحب نے پروا نہ کی۔ ارشد نے تیسری مرتبہ زور سے کہا:''نہیں، نہیں، استاد جی! یہ نہیں ، یہ آیت ہے''۔ میں نے تو بڑی مشکل سے دانتوں سے ہونٹ دباتے ہوئے ہنسی ضبط کی، مگر عارف مرحوم کی بے ساختہ ہنسی چھُوٹ گئی۔

علمائے کرام میں چند ایک اٹھے اور ارشد کو ہٹا کر اُس کی جگہ کوئی حافظ صاحب کھڑے ہوگئے۔ مؤذن صاحب نے بھی وہ دو رکعات نسبتاً جلدی ختم کیں۔ خدا جانے اَب ارشد کہاں ہے اور کس حال میں، مگر عارف سے طویل مدت بعد دوبارہ، چند ایک بار ملاقات ہوئی اور پھر وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑگیا۔ اللہ اُس خوش گفتار کو جنت الفردوس میں شاد آباد رکھے۔ یہ ہوتا ہے متشابہات کا معاملہ!}۔

دیکھا جائے تو اردو زبان، اس اعتبار سے کسی حد تک، عربی کی ہم پلّہ ہے، جس میں معمولی فرق سے معانی کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں، ہاں یہ الگ بحث ہے کہ قدیم یا کلاسیکی عربی (قرآن شریف کی زبان) کا دامن بہت وسیع ہے، مگر جدید عربی کا معاملہ مختلف ہے جو غیرملکی ذخیرہ الفاظ کو بَروقت، بلاجھجک معمولی تغیر سے اپنانے میں مشغول ہے۔ یوں جدید عربی کا تقابل ہماری پیاری زبان سے کرنا بھی ہرگز درست نہیں۔ اب ہم ایک ایک کرکے ان الفاظ کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ ایسے تمام الفاظ مشابہ یا مماثل کہلائیں گے جو لکھنے میں ایک ہی ہوں ، معانی کے فرق سے۔ مثالیں:

بظاہر یکساں، (ایک ہی املا۔ یا۔ اعراب کے فرق سے ، تقریباً ایک املا)، مگر معانی مختلف

٭ اَب (یعنی زمانہ حال): اس وقت، اس گھڑی ، اس لمحے، ان دنوں، فی الحال ، فی زمانہ (فی زماننا کا غلط مُحرّف)۔ جیسے اَب ایسا کرو، اَب کیا ہوگا، اب کیا کرنا ہے؟، اَب کیا حال ہے؟ [فرہنگ آصفیہ میں اس ایک لفظ کی تفصیل ہی اس قدر معلوماتی ہے کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی ہے{]

اَب ّ(عربی) یعنی باپ : اَبّ وجَدّ (جمع آباؤ اجداد۔ یہ واؤ محض صوتی تلفظ ظاہر کرنے کے لیے ہے)

٭ مَن (ہندی): دل، مَن (ہندی): وزن کا پیمانہ

مَن (فارسی) یعنی مَیں جیسے من کہ مسمّیٰ (میں جس کا نام ہے...)، مَن آنم کہ مَن دانم (مجھے معلوم ہے کہ مَیں کیا ہوں یعنی یہ کہ میری حقیقت مجھ پر عیاں ہے)

مَنّ: (عربی) یعنی دھنیے سے مماثل ایک بیج جو بنی اسرائیل کی آسمانی غذا مَنّ و سَلویٰ میں شامل تھا (سلویٰ، بٹیر سے مماثل ایک چھوٹا پرندہ)

جبکہ مِن (عربی) کا مطلب ہے 'میں' یعنی شامل جیسے مِن وَعَن (مفہوم: جُوں کا تُوں)

٭ اَن (ہندی) کلمہ نفی جیسے اَن پڑھ، اَن بَن

اَنّ (ہندی): روٹی، کھانا جیسے اَنّ داتا (کھانے کو دینے والا ، سرپرست ومربّی)

٭ بَن (ہندی): جنگل جیسے ؎ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بَنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے/میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا (علامہ اقبال)

بَن (اردو): بنو، مصدر بننا سے حاصل جیسے انسان بَن!، بندہ بَن!

ہم آواز ( ہم صَوت) الفاظ

٭اَرض (عربی): زمین، جیسے کُرہ ٔ ارض، ارض وسماء

عَرض (عربی): وسعت، چوڑائی، جیسے طول وعرض

عَرض (عربی، اردو): عرض کرنا یعنی کوئی بات کہنا ، درخواست پیش کرنا، جیسے میں نے عرض کی کہ فُلاں کام یوں ہوگا۔

٭اِمارَت (عربی): امیری، جیسے نواب صاحب کی اِمارت کے چرچے ہر جگہ ہیں۔ (نیز بمعنی ریاست، جیسے مُتّحِدّہ عرب اِمارات میں شامل ریاستوں کو اِمارت کہتے ہیں)، اور عِمارَت

٭اَمبَر(ہندی) یعنی آسمان اور عَنبَر (عربی)]عم+بر[یعنی ایک بیش قیمت خوشبو

٭ عامِر (اسم مذکر) اور آمِر (حکم دینے والا ، عرف عام میں انگریزی لفظ Dictatorکا مترادف) : دونوں ہی عربی الاصل ہیں۔

٭ عاصِم (اسم مذکر) یعنی گناہ سے بچانے والا اور آـثِم (اسم مذکر) یعنی گناہ کرنے والا جیسے راقم ِ آثم : دونوں ہی عربی الاصل ہیں۔

٭آسیا (اسم مذکر) یعنی برّاعظم ایشیا (جدید عربی)، آسیہ (اسم مؤنث) یعنی فرعون کی صاحبِ ایمان زوجہ جن کا رتبہ اسلام لانے والی خواتین میں بہت بلند بیان کیا گیا اور عاصیہ (اسم مؤنث) یعنی گناہ کرنے والی۔

بظاہر (املا میں) یکساں، مگر اعراب کے فرق اور مختلف معانی کے حامل الفاظ

٭ اَلِف(ا) دنیا کی کئی زبانوں کا اولین حرف ِتہجی، کسی چیز کے شمار میں پہلا عدد اور اَلف (لام اور فے ساکن) یعنی ہزار۔ دونوں ہی عربی الاصل ہیں (الف کی قدامت بہرحال لسانی تحقیق کے لحاظ سے زیادہ ہے)۔

٭ اُدھار یعنی قرض، کسی میعاد /مدت کے وعدے پر مستعار لی گئی کوئی رقم یا کوئی شئے اور اَدھار (اسم مذکر) یعنی خوراک، توشہ ، غذا جس کا اصل ہے آدھار (ہندی) یعنی سہارا، آسرا، وسیلہ جیسے ان دنوں ہندوستانی ٹی وی چینلز پر سننے میں آتا ہے کہ فُلاں نے فُلاں کے آدھار پر ایسا کردیا۔

٭ بَل (جیسے کَس بَل، زلف کا بل، بل کھاتی ہوئی زلف، بل کھاتی ہوئی گھٹا) اور بِل (چوہے، سانپ اور اسی قسم کے رینگنے والے جانوروں کا بِل یعنی رہنے کی جگہ، شگاف)

٭ سَحَر (صبح کا وقت، جیسے ع سحر کا وقت تھا، معصوم کلیاں مسکراتی تھیں) اور سِحر(جادو، جیسے کسی کی باتوں نے گویا سحر طاری کردیا)

٭ صِرف یعنی فقط، محض، اتنا ہی اور صَرف یعنی استعمال، خرچ

٭ عالَم (دنیا، جہان، کیفیت) اور عالِم (علم والا، صاحبِ علم، جاننے والا)

٭ کَرَم (مہربانی ، عنایت، نوازش) اور کِرم (کیڑا)

قدرے مماثل، مگر درحقیقت مختلف الفاظ

٭ گُنا (تعداد یا مقدار کی کمی بیشی بتانے کے لیے مستعمل) اور گُناہ یعنی وہ کام جس سے شریعت نے منع کیا ہو اور اِس کے ارتکاب کی صورت میں عتاب وعذاب کی وَعید بھی سنائی گئی ہو۔

ایک ہی املا، مگر مختلف معانی کے حامل الفاظ

٭ فاضِل یعنی فضل /فضیلت کا حامل شخص، علمی لیاقت میں دیگر سے بڑھ جانے والا، سبقت لے جانے والا اور فاضِل یعنی فُضول۔]لطف کی بات یہ ہے کہ اسم مذکر فضل کی جمع بھی فُضول ہے[، جبکہ ان دونوں عربی الاصل الفاظ ( فاضِل) میں حدِّفاصل ہونے کے باوجود، اہل علم ان کا برملا استعمال ایسے کرتے ہیں کہ ناواقف سامع چکراجائے۔

{بات بہت پرانی ہے، مگر اہل علم کے لیے قندمکرر کے طور پر پیش کررہا ہوں۔ راقم سطور (نا کہ راقم السطور) فارسی کی تحصیل کے لیے، دارالعلوم نعیمیہ جایا کرتا تھا۔ ایک دن بندہ، استاد گرامی، مفتی محمد اطہرنعیمی صاحب کی خدمت میں حاضر تھا، سامنے مدرسے کے چند طلبہ اپنی باری کے منتظر تھے۔ ایسے میں، موقع پر موجود، شگفتہ مزاج کے حامل، مفتی جمیل احمد نعیمی صاحب (مرحوم) اور قبلہ مفتی صاحب، چند ثانیے کے فرق سے، ایک ہی کتاب لینے کے لیے، ذخیرہ کتب کی طرف بڑھے۔

استاد ِگرامی کی بزرگی وتقدیم کے پیش نظر، جمیل صاحب نے کہا، آپ لیجئے، آپ 'فاضل' ہیں۔ استادِ گرامی بھی ایسے موقع پر اپنی بذلہ سنجی ولسانی طلاقت کا مظاہرہ برملا کرتے ہیں، فرمانے لگے ، ''ارے صاحب! ہم کہاں، آپ ہی 'فاضل' ہیں''۔ دونوں بزرگ ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی اپنی جگہ واپس تشریف لائے، خاکسار نے بھی بصد مشکل اپنی ہنسی ضبط کی اور مدرسے کے طلبہ حیران پریشان ''ٹُک ٹُک دِیدَم، دَم نہ کشیِدَم '' کی عملی تصویر بن گئے}۔

اردو میں محض عربی الاصل یا مختلف الاصل ایسے الفاظ بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جن کے کثیر معانی، ناواقف اور غیراہل زبان کو ششدر کردیتے ہیں اور اکثر اُنھیں استعمال میں دِقّت محسوس ہوتی ہے۔

آب (فارسی): یہ کثیر معانی لفظ ہے اس لیے اس کا استعمال موقع محل کے بغیر کبھی واضح نہیں ہوتا، جیسے آب (اسم مذکر) بمعنی پانی، بارش، پسینہ، عرق، شِیرہ، نچوڑ;آب وہوا، آب سے بننے والے دیگر الفاظ آبجُو (آب +جُو) یعنی چشمہ، آب خورہ (پانی کا پیالہ)، آبدست (آب+دست یعنی استنجا، طہارت)، آب (اسم مؤنث) بمعنی صفائی، چمک (جیسے آب تاب)]آب وتاب غلط ہے[ ; تلوار کی آب، دانتوں کی آب، جواہر کی آب تاب، آب بمعنی آبرو;دَمَک، رونق، روشنی، رُوپ، تازگی، طراوت۔ آب کا باب بہت مفصل ہے اور اسے پھر کبھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ اردو کو ذخیرہ الفاظ کی تنگی یا کمی کا طعنہ دیتے ہیں، کبھی مستند لغات دیکھ لیں، ان شاء اللہ! طبیعت صاف ہوجائے گی۔

یہ بات ماقبل بھی بیان کرچکا ہوں کہ آکسفرڈ کی عظیم انگریزی لغت اور ہماری بائیس جلدوں پر مشتمل عظیم وضخیم لغت میں شامل (نیز بوجوہ غیرمشمولہ) الفاظ کی گنتی کریں تو دونوں زبانیں، ذخیرہ الفاظ کی وسعت کے لحاظ سے تقریباً برابر ہیں۔ اس انکشاف مکرر کو جتنا ہوسکے عام کیجئے تاکہ یہ جہل دور ہو کہ اردو کسی قابل نہیں اور انگریزی کا تسلط کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔

کتابی و آن لائن مواد کی جستجو اور تحقیق میں ہمیں یہ بھولا ہوا سبق بھی یاد آیا کہ شاعری کے قواعد یعنی علم عَروض میں بھی اس بابت کچھ دل چسپ مواد موجود ہے۔ الفاظ کے حسن استعمال سے کوئی صنعت بنانا، اساتذہ قدیم سے اَب تک رائج چلا آتا ہے۔ صنعت کی جمع صنائع ہے۔ صنائع لفظی میں ایک صنعت کا نام ''صنعت تجنیسِ تام'' ہے جس سے مراد یہ ہے کہ کسی شعر میں دو ایسے لفظ ساتھ لائے جائیں جن کا تلفظ ایک ہو لیکن معنی مختلف ہو جیسے یہ مثال دیکھیں:

؎ سب کہیں گے اگر لاکھ برائی ہوگی

پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی

(خاکسار، تلاش بسیار کے باوجود، تنگی وقت کی وجہ سے اس شعر کی درست صورت، معلوم نہیں کرسکا)

پھر ایک دوسری صنعت ''صنعت تجنیس ِ مُحرّف'' ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شعر میں ایسے الفاظ، بیک وقت استعمال ہوں، جن کے حروف بھی یکساں ہوں لیکن حرکات و سکنات میں فرق ہو۔ مثال کے طور پر:

؎ ؎ یہ بھی نہ پوچھا کبھی صیاد نے

کون رَہا کون رِہا ہوگیا

(ناسخؔ)

یہ سارا مواد دیکھتے ہوئے یاد رکھیں کہ یہ محض مثالیں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان کے علاوہ الفاظ موجود نہیں۔ آپ خود بھی کچھ وقت صَرف کرکے لغات کا مطالعہ کریں اور اہل علم کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی زبان کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور اپنی نئی نسل کو منتقل کریں۔ یہ ہم سب پر واجب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں