جگت سیٹھ جنھوں نے انگریزوں کو ہندوستان کا حاکم بنایا

لالچ وہوس کی عبرت ناک داستان جس نے ہندوستان کے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔


سید عاصم محمود August 08, 2021
لالچ وہوس کی عبرت ناک داستان جس نے ہندوستان کے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ فوٹو : فائل

WASHINGTON/SAN FRANCISCO: ماہ اگست آتے ہی وہ زخم ہرے ہو جاتے ہیں جو غداروں اور غیروں نے مسلم ہندوستان پر لگائے اور جن کے نتیجے میں ہندوستانی قوم تقریباً دو سو برس تک انگریز کا غلام بننے پہ مجبور ہو گئی۔

آج سے ٹھیک چار سو تیرہ برس قبل...24 اگست 1608ء کی بات ہے جب سر ولیم ہاکنز کی زیرقیادت انگریز پہلی بار ہندوستان پہنچے۔انھوں نے سورت (صوبہ گجرات)میں پڑاؤ ڈالا جو تب اہم ساحلی تجارتی شہر تھا۔

ولیم ہاکنز لندن کے ایک نوزائیدہ تجارتی ادارے،ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ تھا۔تب کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ تاجروں کے روپ میں آئے یہ انگریز محض ڈیرھ سو سال بعد نہ صرف دنیا کی نمایاں سپرپاور،ہندوستان کے حکمران بن جائیں گے بلکہ اس دیس پہ تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے بھی دیرپا اثرات مرتب کریں گے۔

زبردست معاشی نظام

جب انگریز ہندوستان پہنچے تو مغل حکمران عمدہ حکومتی انتظام کے بل بوتے پر اپنی مملکت کو معاشی وعسکری طور پہ دنیا کی عظیم طاقت بنا چکے تھے۔مغل بادشاہ جہانگیر کی سپاہ چار لاکھ فوجیوں پہ مشتمل تھی۔یہی وجہ ہے،جدید اسلحہ ہونے کے باوجود انگریزوں کو ہندوستان پہ حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔

انھوں نے یہ مناسب جانا کہ مغل حکومت سے ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت طلب کی جائے۔اس زمانے کی دیگر یورپی طاقتوںاسپین، ہالینڈ، پرتگال، فرانس نے بھی مغلوں سے معاملات طے کرتے ہوئے برٹش کے نقش قدم پر چلنے کو ترجیح دی۔دور جدید میں مقامی اور مغربی مورخین نے مغلیہ دور کے معاشی نظام پہ عمیق تحقیق کی ہے۔یہ مورخین اپنی کتب ومضامین میں لکھتے ہیں کہ شیر شاہ سوری کے زمانے(1540 ء تا 1545ء )سے ہندوستان میں معاشی نظام مستحکم ہونا شروع ہوا۔عظیم ہندوستانی حکمران نے اپنی سلطنت میں نئی سڑکیں اور شاہراہیں وسیع پیمانے پر تعمیر کرائیں۔

نیز شاہراؤں پر مسافروں کی حفاظت کا جامع بندوبست بھی کیا۔شاہراہیں بننے سے ملک بھر میں تجارتی سرگرمیوں نے فروغ پایا۔ملک میں نئے سکے متارف کرائے گئے اور صنعت،تجارت اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے اصلاحات نافذ کیں۔انقلابی حکمران،شیر شاہ سوری کے اقدامات کو مغل بادشاہ اکبر نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ انھیں مزید بہتر بنایا۔یہی وجہ ہے،وقتاً فوقتاً ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باوجود ہندوستان میں معیشت پھلتی پھولتی رہی۔خاص طور پہ صوبہ بنگال تجارتی و زرعی سرگرمیوں کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔

عوام دوست حکمرانوں اور قابل انتظامیہ کی وجہ سے1600ء تک ہندوستان کی خام قومی پیداوار(جی ڈی پی)دنیا کی معیشت کا ''22فیصد'' ہو گئی۔تب یہ چین کے بعد دوسری بڑی عالمی معاشی طاقت تھی۔اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں معاشی سرگرمیاں زور شور سے جاری رہیں۔چناں چہ 1700ء تک عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ ''24فیصد''تک جا پہنچا۔تب یہ حصہ چین اور مغربی یورپ کے مجموعی حصے سے بھی زیادہ تھا۔ہندوستان اس وقت ٹیکسٹائل ،جہاز سازی، اناج، اسٹیل، دھاتوں اور معدنیات کی پیداوار کا بڑا مرکز بن چکا تھا۔ہندوستان میں بنی بہترین صنعتی وزرعی اشیا کی دنیا بھر میں مانگ تھی۔صنعت وتجارت و زراعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی وافر دستیاب تھا۔ہندوستانی اشیا اور خام مال کی تلاش ہی میں یورپی ہندوستان پہنچے اور ہندوستانی تاریخ کے نئے باب کا آغاز ہو گیا۔

امیر ترین بینکار

مغل بادشاہ جہانگیر نے آخرکار یورپیوں کو ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت دے دی۔ اگرچہ پرتگالی جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقوں پہ قبضہ کر کے وہاں اپنی'' کوٹھیاں''یعنی گودام تعمیر کر چکے تھے۔تاہم وہ علاقے مغلیہ سلطنت کی عمل داری سے باہر تھے۔جب مغل حکومت میں یورپیوں کو تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے کا اذن ملا تو وہ مقامی تاجروں کی مدد سے تجارت کرنے لگے۔تجارت کی اسی نئی قسم نے صوبہ بنگال میں سودی کاروبار کرنے والے جگت سیٹھوں کو جنم دیا جو اپنے زمانے میں دنیا کے انتہائی دولت مند افراد میں شامل تھے۔

انھیں اٹھارہویں صدی کا امیر ترین بینکار بھی کہا جاتا ہے۔جین مت کے پیروکار ان سیٹھوں کو نمایاں کرنے میں نوابان ِبنگال کا بنیادی کردار ہے۔انھوں نے سودی کاروبار کرنے والے بنیوں کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچا دیا۔صد افسوس کہ اس احسان کا بدلہ جگت سیٹھوں نے یوں دیا کہ انگریز کے ساتھ مل کر نوابوں کی حکومت ختم کر دی۔مسلم حکومت کے خاتمے سے انگریز کے حوصلے بلند ہو گئے اورآخر اس نے ہندوستان کو اپنا غلام بنا کر ہی دم لیا۔جگت سیٹھوں کی داستان عبرتناک اور سبق آموز ہے۔

ناگور سے پٹنہ

جگت سیٹھوں کے خاندان کا بانی ،ہیرا نند ساہو راجھستان کے شہر،ناگور کا باسی اور جینی تھا۔زیورات اور قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنا جدی پشتی پیشہ تھا۔مگر اسے یہ دھندا نہ بھایا۔وہ کسی اور کاروبار میں اپنی قسمت چمکانا چاہتا تھا۔چناںچہ 1650ء میں اس نے جمع پونجی سمیٹی اور اور پٹنہ چلا گیا جو تب صوبہ بنگال،بہار واڑیسہ کا اہم تجارتی شہر بن چکا تھا۔

ہیرانند سود پہ تاجروں اور شہریوں کو سرمایہ دینے لگا۔اس نے قلمی شورے کے کاروبار میں بھی پیسہ لگایا۔اس زمانے میں یورپی تاجر قلمی شورہ منہ مانگے داموں خریدتے تھے کہ وہ بارود بنانے میں کام آتا۔چند ہی برس میں ہوشیاری سے کاروبار کرنے کی بدولت ہیرانند اچھا خاصا دولت مند ہو گیا۔اس نے پھر زمانے کے رواج پہ عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے مختلف شہروں میں بھیج دئیے تاکہ وہ وہاں سودی کاروبار کی شاخیں کھول سکیں۔بڑے بیٹے، مانک چند نے ڈھاکہ کا رخ کیا جو تب صوبہ بنگال کا صدر مقام تھا۔یہ 1695ء کا واقعہ ہے۔

مانک چند باپ سے بھی زیادہ ذہین وچالاک بنیا تھا۔اس نے جلد ڈھاکہ میں اپنا کاروبار پھیلا لیا۔حتی کہ وہ صوبے کے دیوان(وزیر خزانہ)،مرشد قلی خان کا شناسا بن گیا۔دیوان درباری اخراجات پورے کرنے کی خاطر بنیوں سے عارضی قرضے لیتے رہتے تھے۔

انھیں وضع دار اور مہذب نوجوان مانک چند پسند آیا۔چناں چہ وہ اسی سے لین دین کرنے لگے۔جب بھی مرشد قلی خان مالی مسئلے میں گرفتار ہوتے تو مانک چند انھیں رقم فراہم کر دیتا۔رفتہ رفتہ ان کا کاروباری تعلق دوستی میں بدل گیا۔اس شراکت نے مانک چند جیسے عام بنیے کو صوبے میں بارسوخ اور طاقتور بنا دیا۔مغل بادشاہ ،اورنگ زیب عالمگیر نے خاص طور پہ 1700ء میں مرشد قلی کو صوبہ بنگال کا دیوان بنایا تھا۔دراصل یہ مغلیہ سلطنت کا امیر ترین صوبہ تھا مگر وہاں سے بادشاہ کو مالیہ(زرعی و تجارتی ٹیکسوں کی رقم)کم وصول ہو رہی تھی۔لہذا انھوں نے مرشد قلی کو بنگال بھیج دیا تاکہ وہ مالیہ کم ہونے کی وجوہ جان سکیں۔چھان بین سے افشا ہوا کہ بادشاہ کا پوتا اور والی صوبہ ،عظیم الشان مالیے کی رقم ہڑپ کر رہا تھا۔

مرشد آباد میں آمد

جب مرشد قلی خان نے شہزادے کی کرپشن پکڑ لی تو وہ ان کا دشمن بن گیا۔اس نے دیوان پر حملہ بھی کرایا مگر وہ بچ گئے۔اس حملے کے بعد بادشاہ کی اجازت سے مرشد قلی اپنا دفتر مقصود آباد لے گئے جو صوبے کے وسط میں دریائے گنگا کے کنارے واقع تھا۔جب انھوں نے اگلا مالیہ اورنگ زیب کو بھجوایا تو وہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔شاہ نے خوش ہو کر دیوان کو نہ صرف انعام دیا بلکہ اجازت دی کہ وہ مقصودآباد کا نام اپنے نام پہ رکھ لیں۔یوں وہ مرشد آباد کہلانے لگا۔ڈھاکہ سے مانک چند بھی مرشد آباد چلا آیا۔

1703ء میں اورنگ زیب نے دوسرے پوتے،فرخ سیر کو بنگال کا صوبے دار بنا دیا۔وہ مرشد قلی کا شناسا تھا۔لہذا ہم آہنگی کی خاطر وہ بھی مرشد آباد آ گیا۔اس طرح یہ شہر صوبے میں تمام معاشی وسیاسی سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔1707ء میں اورنگ زیب چل بسے۔جلد ان کے بیٹوں اور پوتوں کے مابین اقتدار کا ہما اپنے سر بٹھانے کی خاطر جنگیں شروع ہو گئیں۔خانہ جنگی کے دوران مرشد قلی بنگال کے حقیقی حکمران بن گئے۔انھوں نے صوبے میں زرعی وتجارتی اصلاحات نافذ کیں جن سے بنگال کی معیشت کو فائدہ پہنچا۔

نگر سیٹھ کا خطاب

1712ء میں فرخ سیر ہندوستان کا نیا بادشاہ بن گیا۔مگر جنگوں کی وجہ سے سلطنت کا خزانہ تقریباً خالی تھا۔اس نے مرشد قلی کو بھاری رقم دینے کا پیغام بھجوایا۔ مرشد نے اپنے دیرینہ دوست،مانک چند سے رجوع کیا۔مانک چند نے کثیر سرمایہ بادشاہ کو بھجوا دیا۔اس بات سے خوش ہو کر نئے بادشاہ نے مانک چند کو ''نگر سیٹھ''کا خطاب دے ڈالا۔یوں مرشد آباد کا مارواڑی خاندان ہندوستان کا امیر ترین بینکار بننے کی راہ پہ گامزن ہو گیا۔1717ء میں مرشد قلی خان بنگال کے خودمختار حاکم بن گئے۔

تاہم وہ ہر سال مالیے کی معقول رقم دہلی بھجواتے رہے تاکہ ان کی حکومت کسی قسم کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔وہ 1727ء میں چل بسے تو ان کا داماد،شجاع الدین نواب بنگال بن گیا۔اس کی وفات1739ء میں ہوئی۔پھر ان کا بیٹا ،سرفراز خان تخت نشین ہوا۔اس کے دور میں درباری سازشوں نے جنم لیا۔نواب سازشیوں سے چھٹارا نہ پا سکا۔چناں چہ سازش کا نشانہ بنے صوبے کے بااثر جرنیل،علی قلی خان نے 1740ء میں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔وہ 1756ء تک نواب کی حیثیت سے بنگال پہ حکومت کرتے رہے۔

اس پورے عرصے کے دوران جین مارواڑی خاندان نوابان بنگال کے ''اسٹیٹ بینک''کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔دربار کے سبھی اخراجات مانک چند کی دی گئی رقم سے پورے ہوتے ۔مغل بادشاہ کو جو مالیہ دہلی بھجوایا جاتا ،اس کی بیشتر رقم بھی مانک چندفراہم کرتا۔یہی وجہ ہے،نوابان بنگال نے کسانوں اور تاجروں سے ٹیکس وصولی کا کام مانک چند کے حوالے کر دیا۔مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے قرضوں اور سود کی رقم منہا کر کے بقیہ رقم حکومت کے حوالے کر دے۔رفتہ رفتہ طلائی اور نقرئی اور تانبے کے سکے ڈھالنی والی ٹکسالیں بھی مانک چند کے حوالے کر دی گئیں۔

''جگت سیٹھ''

1714ء میں مانک چند چل بسا۔تب تک وہ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنے سودی کاروبار کی شاخیں قائم کر چکا تھا۔اب وہ مغل بادشاہ،نواب بنگال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے علاوہ فرانسیسی، ولندیزی اور پرتگالی تاجروں سے بھی لین دین کر رہا تھا۔اس امر نے ماواڑی بنیا خاندان کی دولت،طاقت اور اثرورسوخ میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ مانک چند بے اولاد تھا۔چناں چہ لے پالک بیٹا،فتح چند سودی کاروبار کا مالک بن گیا۔وہ ذہانت اور چالاکی میں پچھلوں سے بڑھ کر تھا۔اس نے مالیاتی کاروبار کو بڑھاوا دیا اور اسے عروج پہ پہنچا دیا۔

چناں چہ 1722ء میں نئے مغل بادشاہ ،محمد شاہ نے اسے ''جگت سیٹھ''کا خطاب دیا یعنی دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند انسان۔فتح چند نے مرشد آباد سے لے کر دہلی اور صوبہ گجرات تک اپنے ذیلی دفاتر کا جال بچھا دیا۔وہ بادشاہوں اور نوابوں سے لے کر زمین داروں ،تاجروں اور غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کو سود پہ بھاری سرمایہ فراہم کرنے لگا۔

بنگال میں زرعی وتجارتی ٹیکس جمع کرنا بھی اس کی ذمے داری تھی۔ چونکہ فتح چند صوبہ بنگال میں سرمائے کا گردش کا مالک بن گیا،اس لیے نواب کے بعد وہی طاقت کا سرچشمہ کہلانے لگا۔انگریزوں اور فرانسیسیوں سے لے کر ہندو زمین داروں تک،سبھی اسے خوش کرنے کے جتن کرتے۔انیسویں صدی کے یورپ میں یہودی خاندان،روتھشیلڈ نے سودی کاروبار میں ممتاز ترین درجہ پا لیا تھا۔اٹھارہویں صدی کی دنیا میں یہ مقام مرشد آباد کے جگت سیٹھ خاندان کو حاصل تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے مورخ،رابرٹ اورم نے اپنی کتاب''A History of the Military Transactions of the British Nation in Indostan from the year 1745''میں جگت سیٹھ کو ''دنیا کا امیر ترین بینکار'' لکھا ہے۔اسی طرح کمپنی کا ملازم، کیپٹن ولیم فینویک اپنی کتاب''Affairs of Bengal in 1747-48''میں لکھتا ہے:''جگت سیٹھ نواب بنگال کا مقبول ترین درباری ہے۔اس کی دولت لندن میں لومبارڈ سٹریٹ کے تمام بینکاروں کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہے۔''ان شہادتوں سے عیاں کہ خصوصاً صوبہ بنگال میں جگت سیٹھ کو یہ قوت حاصل تھی کہ وہ کسی کو بھی آسمان پر پہنچا دے یا پھر خاک میں ملا ڈالے۔وہ چاہتا تو نواب کے لیے بھی اتنی زیادہ مشکلات کھڑی کر سکتا تھا کہ حکومت کرنا دشوار ہو جائے۔

فرخ سیر کا تباہ کن فرمان

کمپنی کے ہوشیار وچالاک انگریز تاجر بہت پہلے جان گئے تھے کہ بنگال میں انھیں مارواڑی خاندان سے گہری قربت رکھنا ہو گی تاکہ صوبے میں پھل پھول سکیں۔ انھیں اگرچہ قدم جمانے کا سب سے پہلا موقع مغل بادشاہ،فرخ سیر نے 1717ء میں فراہم کیا تھا۔قصّہ یہ ہے کہ انگریز تاجروں کو ہندوستان میں شاہراہوں اور سمندری راستوں میں جگہ جگہ ٹیکس دینا پڑتے تھے۔یوں ان کی آمدن کم ہو جاتی۔

وہ چاہتے تھے کہ کمپنی کے تاجروں کی سالانہ فیس مقرر کر دی جائے تاکہ انھیں جگہ جگہ ٹیکس نہ دینے پڑیں۔اس غرض سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1715ء میں ایک سفارت فرخ سیر کے دربار میں بھجوائی مگر وہ اپنے مقاصد پانے میں ناکام رہی۔اس سفارت میں ولیم ہملٹن نامی ڈاکٹر بھی شامل تھا۔

اتفاق سے بادشاہ انہی دنوں جانگھ کے درد میں مبتلا تھا۔کچھ عرصے بعد مرض معدہ کا بھی شکار ہو گیا۔جب حکما اسے تندرست نہ کر سکے تو اس نے ڈاکٹر ہملٹن سے بھی علاج کرایا۔شومی ِقسمت سے فرخ سیر ٹھیک ہو گیا۔ یوں مغل بادشاہ کے دل میں انگریزوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو ا۔چناں چہ اپریل 1717ء میں آخر اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حسب منشا شاہی فرمان جاری کر دیا۔ اب انگریز تاجروں کو سالانہ صرف3ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا تھا۔یہی نہیں،کمپنی کو ''دستک''نامی اجازت نامہ جاری کرنے کا اختیار بھی مل گیا۔جس تاجر کے پاس ''دستک''ہوتا،اس سے ہندوستان میں سفر کرنے کے دوران کہیں کوئی ٹیکس نہ لیا جاتا۔

کمپنی کا غیر قانونی دھندا

مغل بادشاہ کے شاہی فرمان نے ہندوستان کی تقدیر بدل دی۔اس فرمان نے مغلیہ حکومت کے زوال میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ اپنی ہی رعایا کے مفادات کے خلاف تھا۔انگریز تاجر تو صرف تین ہزار روپے کا سالانہ ٹیکس دے کا خوب منافع کمانے لگے جب کہ ہندوستانی تاجروں کو ہر جگہ ٹیکس دینا پڑتا۔یوں وہ گھاٹے میں رہتے۔زیادہ منافع کمانے کی وجہ سے انگریز تاجر رفتہ رفتہ بنگال کی تجارت پہ چھا گئے۔ ان کا اثرورسوخ بڑھانے میں جگت سیٹھوں نے بھی حصّہ لیا۔جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو فرخ سیر سے شاہی فرمان مل گیا تو وہ صوبہ بنگال میں بہت متحرک ہو گئی کہ وہیں تجارتی سرگرمیاں جاری تھیں۔

اس نے پھر اپنا کاروبار پھیلانے کی خاطر جگت سیٹھوں سے بھاری قرضے لیے۔مورخین لکھتے ہیں کہ 1718ء سے1730ء تک کمپنی نے ہر سال ان سے ''چالیس لاکھ روپے''کا قرضہ لیا جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔اسی عرصے کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی تاجروں کو ''دستک''فروخت کرنے کا بھی دھندا شروع کر دیا۔یہ مقامی تاجر کمپنی کے ملازم نہیں تھے مگر ''دستک''ہونے کی بنا پہ ان سے بھی کوئی ٹیکس نہ لیا جاتا۔کمپنی منہ مانگے داموں پہ مقامی تاجروں کو ''دستک''فروخت کرتی تھی۔

''دستک'' کی غیر قانونی فروخت سے مگر بنگال حکومت لاکھوں روپے کے سالانہ مالیہ (ٹیکس)سے محروم ہونے لگی۔کمپنی نے اس دھندے میں جگت سیٹھوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔''دستک''کی فروخت سے کمپنی کو جو آمدن ہوتی، اس کا ایک حصہ جگت سیٹھوں کو بھی ملنے لگا۔اس باعث انھوں نے ''دستک'' کی خرید وفروخت کے دھندے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔

انگریز تاجر یہ غیر اخلاقی وقانونی دھندا بے دھڑک کرنے لگا۔ یہ لالچ وہوس پر مبنی کھلا فراڈ تھا۔ چونکہ صوبے میں مالیاتی نظام جگت سیٹھوں کے قبضے میں تھا لہذا نوابان بنگال اس بد چلن سے واقف ہونے کے باوجود اسے روکنے کے لیے ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکے۔جگت سیٹھوں کے اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ 1717ء کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا کاروبار بہت زیادہ پھیل گیا مگر وہ وہی صرف تین ہزار روپے کا سالانہ ٹیکس ادا کرتی رہی۔

نوجوان نواب

یہ تھی صورت حال جب اپریل1756ء میں علی وردی جان چل بسے اور ان کے نواسے، سراج الدولہ تخت نشین ہوئے۔ نئے نواب کی عمر صرف بائیس تئیس سال تھی۔ ان کی تعلیم وتربیت محل میں انجام پائی تھی۔وہ ایک ذہین نوجوان تھے۔انھوں نے نانا کے ساتھ جنگی مہمات میں حصہ لیا۔علی وردی خان نے نواسے کو حکومت کا انتظام سنبھالنے کی تربیت بھی دی۔یہ ساری معلومات ہمیں ہندوستانی و مغربی مورخین دیتے ہیں۔اس سے پتا چلتا ہے کہ سراج الدولہ فنون ِحرب اور انتظامی معاملات میں طاق تھے۔اسی بنا پر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جگت سیٹھ اور انگریز مل جل کر حکومت سے فراڈ کر رہے ہیں۔انھوں نے متحد ہو کر صوبے کے خزانے پہ ڈاکا مار رکھا تھا۔

فتح چند1744ء میں چل بسا تھا۔پھر اس کا پوتا،مہتاب رائے نیا جگت سیٹھ بن گیا۔ علی وردی خان نے فتح چند کے ایک اور نواسے، سروپ چند کو ''مہاراجا''کا خطاب دیا۔یہ دونوں اب باپ دادا کا سودی کاروبار چلانے لگے اور اسے مزید پھیلا ڈالا۔ بعض برطانوی مورخین کی رو سے 1750ء میں جگت سیٹھوں کی کل دولت ''اتنی زیادہ'' تھی۔ موجودہ دنیا کے امیر ترین افراد مثلاً جیف بیزوس اور بل گیٹس کی دولت اس کے سامنے حقیر دکھائی دے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جگت سیٹھوں کی سالانہ آمدن تب برطانیہ کی خام قومی پیداوار سے بھی زیادہ تھی۔

جگت سیٹھوں اور انگریز تاجروں کے فراڈی منصوبے میں شاہی خاندان کے کچھ سرکردہ افراد بھی شریک تھے۔ان میں سرفہرست صوبے کی فوج کا سپہ سالار ،میر جعفر تھا۔علی وردی خان نے اپنی سوتیلی بہن کا بیاہ اس سے کر کے اسے کمانڈر فوج بنایا تھا۔اس کے بعد سراج الدولہ کی خالہ،گھسیٹی بیگم کا نمبر تھا۔وہ بھی دھوکے بازوں سے ملی ہوئی تھی۔تیسرے نمبر پہ ایک اور خالہ کا بیٹا،شوکت جنگ تھا۔ وہ علاقہ پورنیا میں نائب ناظم تھا۔ جگت سیٹھ اور انگریز سرکاری خزانے سے جتنی رقم خردبردکرتے،اس میں سے درج بالا شخصیات کو بھی حصہ ملتا۔

نئے معاشی نظام کی بنیاد

سراج الدولہ تمام دھوکے بازوں کو جانتے تھے۔یہی وجہ ہے، نواب بنتے ہی انھوں نے گھسیٹی بیگم کی تمام دولت قبضے میں لے کر اسے قید کر دیا۔ میر جعفر کو سپہ سالار کے عہدے سے ہٹا دیا اور وہ عام جنرل بن گیا۔جبکہ شوکت جنگ لڑائی میں مارا گیا۔انھوں نے پھر اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو اہم انتظامی عہدوں پہ فائز کیا۔میر مدن کو میر بخشی(سپہ سالار فوج)بنایا۔موہن لال دیوان (وزیر خزانہ)بن گیا کیونکہ سابقہ دیوان، رائے درلبھ بھی فراڈی ٹولے میں شامل تھا۔ اس طرح سراج الدولہ نے مروجہ انتظامی نظام ختم کر کے نیا سیٹ اپ تشکیل دیا۔ انھوں نے پھر جگت سیٹھوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ سارا مالیہ وصول کر کے دیانت داری سے سرکاری خزانے میں جمع کرائیں۔

انگریز مورخین کے جھوٹ

سراج الدولہ کی پرورش نازونعم میں ہوئی تھی۔اس باعث وہ کچھ ضدی اور اکھڑ تھے۔ ممکن ہے کہ وہ جگت سیٹھوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے ہوں۔اگرچہ وہ سختی کرنے میں حق بجانب تھے کہ جگت سیٹھ دھوکے باز بن کر ریاست کے غدار بن چکے تھے۔ مزید براں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سراج الدولہ نوجوان تھے۔اس عمر میں ہر انسان عموماً آزاد طبع اور خودسر ہوتا ہے۔نیز انھیں حکومتی نظام چلانے کا عملی تجربہ بھی نہ تھا۔اس لیے کوئی مسئلہ جنم لینے پر وہ جلد گھبرا جاتے ۔غرض سراج الدولہ کی شخصیت میں خرابیاں تھیں کہ وہ فرشتہ نہ تھے۔

انگریز مورخین نے مگر اپنی کتب میں سراج الدولہ پر انتہائی رکیک اور گھٹیا الزامات لگائے ہیں تاکہ جنگ پلاسی میں اپنی فراڈی فتح کو برحق ثابت کیا جا سکے۔ان کی رو سے نوجوان نواب ظالم، عوام دشمن، نااہل اور اخلاق باختہ شخص تھے۔گویا انگریزمورخین نے جھوٹ ودروغ گوئی کی تمام حدیں پار کر دیں۔انھوں نے اپنے الزامات کی بنیاد تین کتابوں پہ رکھی:(1)A Memoir of the Mogul Empireاز جین لا۔(2)''سیر المتاخرین''از غلام حسین طباطبائی اور (3)''ریاض السلاطین''از غلام حسین سلیم۔یہ تینوں کتابیں سراج الدولہ کی شہادت(1757ء )کے بعد لکھی گئیں۔

جین لا صوبہ بنگال میں قاسم بازار میں فرانسیسی کوٹھی کا ناظم تھا۔جب بنگال انگریزوں کے زیرنگیں آ گیا تو جین لا نے ملازمت چھوڑی اور پنڈاریوں(کرائے کے مقامی فوجیوں)کا ایک لشکر تیار کر لیا۔وہ پھر اپنی خدمات کمپنی کو فروخت کرنا چاہتا تھا۔اسی لیے اس نے اپنی آپ بیتی میں سراج الدولہ پہ بے سروپا الزامات دھر دئیے اور انھیں معطون کیا۔غلام حسین طباطبائی علی وردی خان کا رشتے دار تھا۔انھوں نے اسے اعلی درباری عہدے پہ فائز کیا۔ مگر انگریز دربار میں دخیل ہوئے تو اسے اپنی ملازمت جانے کا خطرہ چمٹ گیا۔

اس نے پھر اپنی کتاب میں سراج الدولہ پر بہتان لگا دئیے تاکہ انگریز کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔غلام حسین سلیم تو کمپنی کا باقاعدہ ملازم تھا۔اس نے بھی اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے سراج الدولہ پر جھوٹے الزام عائد کر دئیے۔حقائق سے آشکارا ہے کہ تینوں مورخین انگریز کے تلوے چاٹنا چاہتے تھے،اس لیے وہ حیوان بن گئے اور سچ کا ساتھ چھوڑ دیا۔

کمپنی کو بھاری رشوت

بنگال میں نئی انتظامیہ نے جگت سیٹھوں کو مجبور کیا کہ وہ قانون کے مطابق عمل کریں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی باور کرایا گیا کہ وہ مقامی تاجروں کو ''دستک''فراہم نہ کرے۔ یوں سراج الدولہ نے ریاست میں قانون کی رٹ قائم کر دی اور فراڈیوں کی کمائی کا دھندا بند کر دیا۔اس طرح حکومت کو زیادہ آمدن ہونے لگی۔مگر جگت سیٹھوں اور کمپنی کی آمدن گھٹ گئی جس سے ان میں اشتعال پیدا ہوا۔سراج الدولہ خاص طور پہ جگت سیٹھوں کا اثرورسوخ بھی کم کرنا چاہتے تھے۔اس پہ انھیں اپنی بقا خطرے میں نظر آنے لگی۔تب ہی جگت سیٹھوں نے سراج الدولہ کو ہٹا کر اپنی مرضی کا نواب لانے کا فیصلہ کر لیا۔

قرعہ فال میر جعفر کے نام نکلا جو ان کا قدیم ساتھی تھا۔ ولیم ڈرمپل دور جدید کے ممتاز اسکاٹش مورخ ہیں۔انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ پہ ایک مفصل کتاب''The Anarchy: The East India Company, Corporate Violence And The Pillage Of An Empire''تحریر کی۔وہ لکھتے ہیں کہ جگت سیٹھوں نے کمپنی کو بھاری رقم دی تاکہ وہ نواب کے خلاف فوج کھڑی کر سکے۔کمپنی مالی طور پہ اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ بھاری معاوضے پہ کرائے کے فوجی بھرتی کر لے۔

جگت سیٹھوں نے ہی انھیں چالیس لاکھ روپے فراہم کیے (جس کی مالیت موجودہ حساب سے اربوں روپے بنتی ہے)اسی رقم سے کمپنی نے نئی فوج بنائی جس کا سربراہ رابرٹ کلائیو کو بنایا گیا۔امیر چند نامی سکھ ساہوکار کلکتہ میں جگت سیٹھوں کا ایجنٹ تھا۔اس نے میر جعفر اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ایک خفیہ معاہدہ کرایا۔اس میں طے پایا کہ سراج الدولہ کے بعد میر جعفر نواب بنگال بن جائے گا۔اور یہ کہ نواب بن کر وہ جنگی اخراجات کی رقم کمپنی کو ادا کرے گا۔ یہی نہیں جگت سیٹھوں نے ہی سراج الدولہ کی فوج کے بقیہ جرنیلوں مثلاً میر لطف خان،میر قاسم اور رائے درلبھ وغیرہ کو بھاری رشوت دی تاکہ جنگ پلاسی میں وہ محض تماشائی کا کردار نبھا سکیں۔

نعمتِ آزادی کی قدر کیجیے

23جون 1757ء کو جنگ پلاسی میں جگت سیٹھوں کی کھڑی کی ہوئی انگریز فوج اور سراج الدولہ کے لشکر کا آمنا سامنا ہوا۔نواب کی فوج 42ہزار پیدل فوجیوں اور 20 ہزار گھڑ سواروں پہ مشتمل تھی۔وہ 50توپیں بھی رکھتی تھی۔جبکہ انگریز فوج 613 انگریز فوجی اور 2100پنڈاری رکھتی تھی۔ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہ تھا۔بقول رابرٹ کلائیو کے، نواب کی فوج لاٹھیوں سے بھی ان پہ حملہ کرتی تو جیت جاتی۔مگر غدار جرنیلوں کی وجہ سے نواب شکست کھا گئے۔یوں انگریز تاجروں نے جگت سیٹھوں کے سرمائے اور میر جعفر جیسے لالچی غداروں کی مدد سے بنگال پہ قبضہ کر لیا۔ معمولی فوج رکھنے کے باوجود اس فتح نے انگریزوں کے حوصلے بلند کر دئیے۔وہ جان گئے کہ ہندوستانیوں کو باہم لڑا کر اور روپے پیسے کے بل پر وہ مذید ہندوستانی علاقوں پہ قابض ہو سکتے ہیں۔

ان کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور آنے والے برسوں میں وہ ہندوستان کے حاکم بن گئے۔یوں لالچ و ہوس، غداری اور باہمی نا اتفاقی جیسے منفی جذبوں نے نہ صرف ہندوستان سے مسلم حکومت ختم کر ڈالی بلکہ مملکت کو اگلے دوسو سال تک انگریز کا غلام بنا ڈالا۔یہ داستان الم ہمیں سبق دیتی ہے کہ پاکستانی قوم صرف اتحاد ویک جہتی سے دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔آزادی کی چوہترہویں سالگرہ مناتے ہوئے اس عظیم نعمت کی قدر کیجیے اور مل جل کر ترقی وخوشحالی کی منزل پانے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں