مقبوضہ کشمیر 5 اگست 2019ء تا 5 اگست 2021ء
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اُٹھنے والی ہر ممکنہ آوازوں کا گلہ گھونٹنے کیلیے ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ بھی آزمایا ہے۔
ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے جنوبی ایشیا کے وسیع تر امن وخوشحالی کا خواب دیکھتے ہُوئے توقع کا اظہار کیا تھا کہ اگر نریندر مودی دوسری بار بھارت کے وزیر اعظم بن جائیں تو مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا۔
یہ تمنا مگر خام اور ناکام ثابت ہُوئی ہے۔ مودی جی بھارتی اقتدار پر بیٹھنے کے بعد ، سابقہ وزرائے اعظم ہند کے مقابلے میں، مقبوضہ کشمیر اور اہلِ کشمیر کے زیادہ دشمن ثابت ہُوئے ہیں ۔ ٹھیک دو سال قبل،5اگست2019ء کو انڈین پرائم منسٹر کی زیر قیادت بھارت نے مقبوضہ کشمیر بارے جو استحصالانہ اور ظالمانہ اقدام کیا تھا، پچھلے 73برسوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ رازداری اور ایک خصوصی منصوبہ بندی کے تحت بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے آئین میں دئیے گئے خصوصی اسٹیسٹس کو بیک جنبشِ قلم ختم کر دیا۔
اس مذموم مقصد میں بھارتی مقتدر قیادت اور انڈین اسٹیبلشمنٹ نے متحد ہو کر انڈین پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی اکثریت کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ یہ قدم اُٹھانے سے قبل بھارتی مقتدرہ نے نہائت منظم طریقے سے ساری کشمیری قیادت کو یا تو جیلوں میں ٹھونس دیا یا سب کشمیری قائدین کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔ 5اگست 2019ء سے قبل جب بھارتی حکمران یہ اقدامات کر رہے تھے، چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری قیادت الرٹ ہو جاتی لیکن ہماری ہر قسم کی قیادت لمبی تان کر سوئی رہی ۔ اور جب ہماری آنکھ کھلی، مقبوضہ کشمیر پر مودی کا کامیاب شب خون مارا جا چکا تھا۔ ہم ہاتھ ملتے اور احتجاج کرتے رہ گئے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تو اُس دن عمرہ کرتے پائے گئے تھے ۔
ہر قسم کے عالمی اُصولوں اور عالمی فورموں میں کیے گئے وعدوں کی مٹی پلید کرتے ہُوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین میں مندرج 35اے اور 370آرٹیکلز کو (اپنے مفادات کے حصول کیلئے)اُڑا کررکھ دیا ۔ دُنیا کے کانوں پر مگر جُوں تک نہ رینگی ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اُٹھنے والی ہر ممکنہ آوازوں کا گلہ گھونٹنے کیلیے ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ بھی آزمایا ہے اور بظاہر کامیاب بھی رہا ہے۔ آج اس بھارتی اقدام کو پورے دو سال گزر گئے ہیں۔ بھارتی پروپیگنڈہ مشینری کا کہنا ہے کہ ان گزرے دو برسوں میں بھارت کو( مقبوضہ) کشمیر میں بے پناہ فوائد ملے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس نے اگلے روز سرینگر میں پریس کانفرنس کرتے ہُوئے دھڑلّے سے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے دو برسوں کے دوران (۱) کشمیر میں علیحدگی پسندوں کو مکمل طور پر محدود تر کر دیا گیا ہے (۲) مجاہدینِ کشمیر کی مسلح کارروائیوں میں 80فیصد کمی لائی جا چکی ہے (۳) کشمیری نوجوان جس شدت کے ساتھ بھارتی سیکورٹی فورسز پر سنگباری کیا کرتے تھے، ان میں خاطرخواہ کمی آ چکی ہے (۴) کشمیری ملی ٹینٹس اورBSF (بھارتی بارڈر سیکورٹی فورسز) میں خونی تصادم نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں(۵) بھارتی فوج کو ''شوریدہ سر'' کشمیری نوجوانوں کے خلاف ''بہ امرِمجبوری'' جن پیلٹ گنز کا استعمال کرنا پڑتا تھا( اور جس کی وجہ سے ہزاروں کشمیری نوجوان اور بچے اندھے کیے جا چکے ہیں) اب ان اقدامات میں بالکل کمی آ چکی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ممکن ہے مقبوضہ کشمیر میں متعین سب سے بڑے پولیس آفیسر کے مذکورہ دعوے درست ہی ہوں لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ جس وقت باوردی بڑے بھارتی افسر یہ بلند بانگ دعوے کررہے تھے، عین اُسی وقت مقبوضہ کشمیر کے شمال میں واقع مشہور ضلع ''بانڈی پورہ '' میں انڈین فورسز اور مجاہدین کشمیر میں دو بدو جنگ ہو رہی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اس مقابلے کے حوالے سے یہ خبر دی کہ اس پولیس مقابلے میں دو علیحدگی پسند مارے گئے۔یہ واقعہ اس امر کی شہادت کیلیے کافی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں کی آوازوں کو خاموش کرانے کا بھارتی دعویٰ درست نہیں ہے ۔
ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے دو برسوں کے دوران (35A اور370کے خاتمے کے بعد) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی گرفت میں سنگین اضافے کے سبب مجاہدین کشمیر کی مسلح کارروائیوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں کی موجودگی اب بھی بھارتی فوج اور بھارتی کارندوں کے اعصاب اور اوسان پر بھاری بوجھ بنی ہُوئی ہے۔ مثال کے طور پر سرینگر سے شائع ہونے والے مشہور انگریزی اخبار ''گریٹر کشمیر '' نے 4اگست 2021ء کو خبر شائع کی ہے کہ گذشتہ روز جموں میں بھارتی فوج کی وردیوں میں دو نوجوان اپنے بال کٹوانے کیلیے مقامی حجام کی دکان پر آئے تو وہاں کھڑے ایک مخصوص شخص نے دونوں نوجوانوں سے اُن کے شناختی کارڈ طلب کیے ۔
نوجوانوں نے مگر شناختی کارڈ دینے کی بجائے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا۔ اخبار مذکور کے مطابق: آس پاس کھڑے لوگوں کو واضح طور پر معلوم ہو گیا تھا کہ دونوں نوجوان کون ہیں لیکن خوف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی اُنہیں روکنے کی جسارت نہ کر سکا۔ اس خبر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر ، قصبے اور گاؤں میں اپنی انٹیلی جنس کا جال بچھا رکھا ہے تاکہ آزادی کے متوالوں اور علیحدگی پسندوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے ۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم ہُوئے پورے دو سال گزر چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران کشمیریوں کے حق میں اُٹھائی جانے والی مبینہ پاکستانی آواز پر دُنیا اور بالخصوص عالمِ اسلام میں کتنی پذیرائی ملی ہے؟ اس سوال کا جواب اطمینان بخش اور خوش کن نہیں ہے ۔ یہ منفی جواب دل پر بوجھ بڑھاتا ہے۔کسی ایک بھی اہم اور بڑے اسلامی ملک نے اس بھارتی ظالمانہ اور مسلم کش اقدام کے خلاف بھارت کی ہلکی سی بھی مذمت نہیں کی ۔ اس خاموشی سے بھارتی ارادوں اور عزائم کو تقویت ملی ہے اور اُس کے حوصلے بلند ہُوئے۔
اسی کارن مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے کشمیری عوام کے بنیادی حقوق مزید غصب کیے ہیں۔ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسایا گیا ہے۔ ان گزرے دو برسوں میں اگرچہ مقبوضہ کشمیر کی نظر بند یا زیر حراست قیادت کو بھارت نے رہا کر دیا ہے لیکن رہا کیے جانے والے سبھی ''قائد'' وہ ہیں جنہیں ہر کوئی جانتا ہے کہ اُن کے لبوں پر دہلی کے حق میں ترانے ہیں۔ کشمیریوں کی اصل قیادت تو اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے۔
ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان پچھلے دو برسوں کے دوران بار بار کہتے پائے گئے ہیں کہ بھارت سے اُس وقت تک مکالمہ ہوگا نہ بھارت سے تجارت ہوگی جب تک بھارت، مقبوضہ کشمیر کی 5اگست2019ء سے پہلے والی حیثیت بحال نہیں کر دیتا ۔ بھارت کے کانوں پر مگر جُوں تک نہیں رینگ رہی ۔ شائد اسلیے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب کی طرف سے دی گئی پیشگی شرط پر عمل نہ کرنے کا بھارت کو کوئی خسارہ نہیں ہے ۔ اس دوران آزاد کشمیر میں نئی پارلیمنٹ اور نیا وزیر اعظم (عبدالقیوم نیازی) بھی منتخب کر لیا گیا ہے ۔
اگرچہ نون لیگ زیر لب بے معنی سا احتجاج بھی کررہی ہے۔ ہم 5اگست 2021ء کے فوری بعد آزاد کشمیر میں KPLکے نام سے کرکٹ ٹورنامنٹ کا بھی انعقاد کررہے ہیں۔ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ ''کے پی ایل'' کا میلہ ناکام بنانے کیلیے اپنے تئیں سارے ہتھکنڈے بروئے کار لارہا ہے۔ بھارت KPLکو آلودہ کرنا چاہتا ہے لیکن انڈیا کو یہاں بھی ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔