آگ میں جلے یہ کاغذ بھی اور قلم بھی

مسئلہ یہ ہے کہ لکھیں تو کیوں لکھیں،کس لیے لکھیں اور کس کے لیے لکھیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq August 07, 2021
[email protected]

بات یہ نہیں کہ ہم کیا لکھیں موضوعات تو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لکھیں تو کیوں لکھیں،کس لیے لکھیں اور کس کے لیے لکھیں۔ کیونکہ یہ اب تک جو کچھ ہم نے لکھا ہے اور نشر کیا ہے تو بار برداری کے لیے ایک پوری ریل گاڑی درکار ہوگی۔ لیکن کسی نے کچھ سُنا ، کچھ پڑھا۔ کسی کے کان پر کوئی جوں رینگی؟

ہم اپنے آپ کو بالکل وہی مچھر محسوس کر رہے ہیں جس نے ہاتھی کے کان میں رات نہایت آرام سے گزاری تو صبح ہاتھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا، آپ کا بہت شکریہ رات بڑے آرام سے گزری۔ ہاتھی نے کہا، چنا کتھا گزاری رات وے۔ مچھر بولا آپ کے کان شریف میں۔ ہاتھی نے کہا، مجھے تو نہ تیرے آنے کی خبر ہوئی اور نہ اب جانے کا کوئی پتہ ہے۔ مچھر نے کہا آپ نے میرے سریلے گانے بھی نہیں سُنے؟ ہاتھی بولا آخر میں کس کس کے گانے کہاں کہاں تک سُنوں۔

ہم بھی اگر آج اپنے پڑھنے والوں سے پوچھیں کہ یہ اتنا عرصہ ہم نے جو بھاڑ جھونکی ہے کالم لکھتے ہیں ذرا بتائیں کیسے لکھے۔ تو یقیناً سب کا جواب یہی ہوگا کہ کیا کیسا اور کب؟

یہ اعزاز صرف ہمیں ہی حاصل نہیں بلکہ ہمیں ایک ہزارایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ہمارے دوسرے دانا دانشور دوستوں کو یہ اعزار ہم سے زیادہ حاصل ہے کیونکہ معیار اور مقدار دونوں میں وہ ہم سے بہت آگے ہیں ہم تو یہاں اپنے جیسے ٹٹو بٹروں اور ایرے غیرے نتھو خیروں کے لیے لکھتے ہیں اور وہ امریکا، یورپ، چین، جاپان کے لیے یعنی بین الاقوامی سطح پر زریں مشورے دیتے ہیں، کشمیر و فلسطین کے مسئلے حل کرتے ہیں اور یہود و ہنود کی ایسی کی تیسیں کرتے ہیں۔

کچھ خواتین و حضرات جو ذرا اونچی کٹیگری کے ہیں دنیا کے ماضی حال اور مستقبل کے درد میں مبتلا ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسی اور بات میںہم ان کے ہم پلہ نہ سہی لیکن نہ پڑھے جانے کے سلسلے میں ہم ان سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں۔

چنانچہ ہر روز ہمیں یہ مسئلہ لاحق ہوتا ہے کہ لکھیں تو کیا لکھیں۔ نئے کپڑے بدل کر جاؤں تو کسی کے لیے،وہ پری کہاں سے لاؤں تری دلہن جسے بناؤں کیونکہ اب تک کہنے کے جو رنگ تھے ڈھنگ تھے اور ننگ تھے وہ تو ہم آزما چکے۔اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس آدمی کا سا طریقہ کیوں نہ اختیار کریں۔ جس نے افغانستان کے امیر عبدالرحمن کے ساتھ اختیار کیا تھا۔

وہ بہت ہی مشہور مزاح گو فنکار تھا چاردانگ عالم میں اس کے چرچے تھے بولتا تھا تو منہ سے پھول جڑتے تھے اور لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔امیر عبدالرحمن نے اس کے بارے میں سنا تو اسے بلوا لیا وہ خوش خوش گیا کہ امیر صاحب مالا مال کر دیں گے لیکن امیر عبدالرحمن تو اپنی قسم کے ایک واحد آدمی تھے، سنا ہے اسے کسی نے کبھی نہ ہنستے دیکھا نہ روتے۔

چنانچہ اس نے اس فنکار سے شرط رکھی کہ اگر تم نے مجھے ہنسا دیا تو مالامال کر دونگا لیکن اگر نہ ہنسا سکے تو اس جگہ سر اُڑا دونگا ۔ مزاح نگار نے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا اس کے اسلحہ خانے میں جو بھی آزمودہ ہتھیار تھے وہ سارے آزما لیے لیکن امیر پتھر کا بت بنا رہا۔ جب اس کے پاس سارا داروسکہ ختم ہو گئے۔ اور پورا یقین ہو گیا کہ اب اس کے کاندھے سر کے بوجھ سے ہلکے کر دیے جائیں گے تو سوچا کہ جان تو ویسے بھی جانے والی ہے کیونکہ نہ اس کم بخت پر دل کی بھڑاس نکالی جائے۔

اب اس نے جو کچھ کہا ہے وہ اگر پشتو سے اُردو میں ترجمہ کر دیں اور وضو تو کیا سات بار غسل بھی دیں تو سنسر سے پاس نہیں ہو پائے گا۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ مجموعی مضمون یہ تھا کہ اب بھی نہ ہنسے تو اس کے علاوہ اور کیا کیا کروں؟ آگے پھر اس کے وہ قابل سزا ارادے تھے۔ اس کی بے بسی اور غصے میں کی جانے والی بکواس سن کر امیر عبدالرحمن کھکھلا کر ہنس پڑا۔

ہمارا ارادہ بھی کچھ ایسا ہو رہا ہے کہ اب کیوں نہ اس شخص کی طرح آپے سے باہر ہر کر پڑھنے والوں بلکہ نہ پڑھنے والوںکو وہ وہ سنائیں جو انھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ سنا ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہمیں امیر عبدالرحمن کا سامنا ہے اور نہ اپنے آپ میں اتنی جرأت پاتے ہیں یا یوں کہیے کہ ابھی وہ آخری مایوس کن لمحہ نہیں آیا اور ہم شاید ،شاید کی امید پالے ہوئے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ ہم خود ہیں کہ ہم اگر اتنی جرأت رندانہ اپنے اندر پاتے ہیں جتنی اس شخص میں تھی جن سے امیرعبدالرحمن کو ہنسایا تو کوئی وجہ نہ تھی لیکن ہم نہ تو کسی جابر سلطان کے سامنے سچ کہہ سکتے ہیں اور نہ صابر و شاکر عوام کے سامنے ورنہ کہنے میں کیاہے وہ وہ الفاظ لڑھکادیں گے کہ خواتین تو کیا مرد بھی شرما کر رہ جائیں گے لیکن وہ پری کہاںسے لاؤں۔

البتہ یہ کر سکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں کہ

ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ

سنی نہ بات کس نے تو مر گئے چپ چاپ

میڈیا کی اس بے پناہ آزادی، قیامت کے شور اور باتوں کے اس اژدہا میں کوئی نقارہ اپنی آواز بلندنہیں کر سکتا تو ہمارا طوطا کیا اور اس کی بات کیا۔

صرف غزل برائے غزل کہہ رہے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ صحرا میں یا لہروں کی بستی میں اذان کوئی نہیں سُنتا لیکن بے چارہ مؤذن بھی کیا کرے اسے تو اذان دینا ہے کوئی سنے یا نہ سنے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں