یہ خطہ پھر ایک بار دہشت گردی کی لپیٹ میں
خواتین کا تحفظ حکومت نہیں کرسکتی، وہ خود اپنا تحفظ کریں۔
ابھی تو حملہ در حملہ ہو ہی رہا تھا کہ پرامن اور معصوم شہری جان سے جا رہے ہیں۔ پہلے بھی ادیبوں، فنکاروں اور دانشوروں کا قتل ہوا تھا اور پھر خاشہ زاوان نامی افغانستان کے معروف اور ہردلعزیز فنکار کا قتل ہوا۔ یہ فنکار بلاامتیاز رنگ و نسل، فرقہ اور زبان کے عوام میں اس حد تک مقبول تھے کہ کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا تھا کہ ان کی نسل اور قبیلہ کون سا ہے۔
خاشہ عوام کو اپنے فن سے نوازتے تھے، انھیں خوش و خرم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شہادت برصغیر کے لیے صدمے کا باعث ہے۔ ایک فلسفی اور دانشور نے درست کہا تھا کہ'' جنگ جتنی بھیانک ہے اتنی ہی منافع بخش بھی ہے۔'' ان جنگوں میں فریقین کے مالی مفادات ہوتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی نوآبادیات اور وسائل کی چھینا جھپٹی اور قبضہ کی جنگ تھی اور آج بھی۔
اس لیے ساحر نے درست کہا تھا کہ ''جنگ خود ایک مسئلہ ہے' جنگ کیا مسئلے کا حل دے گی' آگ اور خون آج، بھوک اور احتیاج کل دے گی' اس لیے اے شریف انسانوں' جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے' آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے۔'' معروف امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا ہے کہ '' امریکا نے اب تک 88 ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔''
اس وقت افغانستان کی خواتین سہمی ہوئی ہیں۔ لڑکیوں کے اسکول انہدام کی زد میں ہیں۔ فنکاروں اور دانشوروں کا قتل کیا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات مختلف انداز میں پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اب پاکستان کی سرحدوں خاص کر وزیر ستان میں سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد میں نور مقدم کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قاتل کا کیا ہوتا ہے؟
کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسا ماضی میں ہوتا رہا۔ نقیب اللہ محسود، ڈاکٹر ماہا اور ایسے بے شمار مقتولین کے قاتل آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کنول کو تیل چھڑک کر قتل کیا گیا اور خودکشی کا ڈھونگ رچایا گیا۔ تھر کی کم سن لڑکیوں کو مسلمان ہونے کے بہانے اغوا کرکے شادی رچائی جاتی ہے۔ پہلی بار ایک لڑکی نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ ہم کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی اور عدالت نے اسے اس کے والدین کے حوالے کرنے کا حکم صادر کیا اور وہ والدین کے ساتھ اپنے گھر گئی۔
عورت مارچ کے بارے میں تنقید کی جاتی رہی۔ کتنی بے حسی اور جانب داری ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ عورت کو غلام اور کسی جنس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جیساکہ بازار میں بکنے والے دال، چاول۔ طبقاتی نظام میں خواتین کا استحصال ہزاروں برس سے ہوتا آ رہا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ کوئی خاتون یا لڑکی اغوا، ریپ یا قتل نہ ہوئی ہو۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب گھریلو تشدد کے خلاف بل پیش کرنے کی بات ہوتی ہے تو رجعتی اور دقیانوسی خیالات کے گروہ اور افراد مخالفت کرتے ہیں۔ یعنی بالواسطہ طور پر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گھریلو تشدد جائز ہے۔ جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنی تو ایک مذہبی جماعت کے پارلیمنٹیرین نے کہا تھا کہ'' عورت ہمیشہ پاؤں کی جوتی رہے گی،''جس پر پی پی پی کی ایک خاتون پارلیمنٹیرین نے جواب دیا تھا کہ'' فی الحال یہ جوتی اس پارلیمینٹیرین کے سر پر ہے۔''
غلامانہ دور میں جس غلام خاتون سے بچے پیدا ہوتے تھے وہ ملکیت کے مالک نہیں ہوتے تھے۔ قبائلی نظام میں تو عورت مال غنیمت کے طور پر ہوتی تھی۔ بادشاہوں کے دربار اور محلوں میں ہزاروں خواتین ان کی کنیزیں ہوا کرتی تھیں۔
برصغیر میں مغلوں کے دور میں سب سے کم کنیزیں رکھنے والے بادشاہ اکبر کے محل میں صرف 1000 بیویاں تھیں۔ چند برس قبل ایک مسلم ملک کے بادشاہ کے انتقال کے بعد ان کے حرم میں ساڑھے تین سو بیویاں تھیں۔ یکم صدی میں جب ناروے کے بحری قذاق خانہ بدوش بریٹون (موجودہ برطانیہ) پر حملہ آور ہوئے تو دو لاکھ تیس ہزار خواتین کو قتل کیا، ریپ کیا۔
اپنے وطن کا دفاع کرنے والی عظیم خاتون کمانڈر بودیکا کو برہنہ ہو کر چلنے پھرنے پر مجبور کیا گیا۔ پیریس کمیون کی 80 ہزار خواتین کا قتل ہوا۔ 1917 سے قبل خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق تک نہیں تھا۔ انقلاب روس کے بعد جب روس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا تو 1918 میں جرمنی، 1919 میں امریکا میں فوری طور پر خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ اس لیے بھی کہ کہیں وہاں کی خواتین بغاوت نہ کردیں۔ پھر 1929 میں برطانیہ اور انتہائی مہذب ملک کہلانے والا سوئٹزرلینڈ میں 1973 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملا۔
آج پاکستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا جاتا ہے۔ وہ سورج کی کرنیں دیکھنے سے محروم ہیں۔ پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے گرد اکثر خواتین ہوتی ہیں لیکن مخصوص صوبے میں خواتین کو ووٹ تک ڈالنے نہیں دیتے ہیں۔ ایسی مذہبی جماعتیں بھی ہیں جو خواتین کو انٹرویو تو دیتے ہیں لیکن جلسوں میں نہیں آنے دیتے۔ اگر کوئی رپورٹ آجائے تو اسے مار بھگایا جاتا ہے۔
یہ قدامت پسندی اور جہالت صدیوں سے اس طبقاتی نظام میں پرورش پا رہی ہے۔ نتیجتاً کبھی پولیو کا قطرہ پلانے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں تو کبھی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا تو کبھی کورونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے اور نہ ماسک لگایا جاتا ہے۔ حکومت خود ایسے اقدامات اور بیانات دیتی ہے کہ قدامت پسندی کو پروان چڑھائے۔ حکمران فرماتے ہیں کہ چست کپڑا پہننے سے مردوں کی نظر چلی جاتی ہے، یہاں مغرب کی طرح نائٹ کلب تو نہیں ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کا تحفظ حکومت نہیں کرسکتی، وہ خود اپنا تحفظ کریں۔ کتنی رجعت پسندی ہمارے حکمرانوں پر حاوی ہے، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان تک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔