شہادت امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم ؓ
آپ کے دورکاسب سے بڑاتحفہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا اقتصادی ومعاشی نظام تھاجو اس سے پہلے روئے زمین نے کبھی دیکھانہ تھا۔
محرم الحرام کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال 1443ہجری کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ اسلامی سال کا آغاز بھی قربانی سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قربانی سے۔
یکم محرم الحرام کو خلیفہ راشد، مراد رسول امیر المومنین ، فاتح بیت المقدس وقیصر و کسریٰ، حاکم عناصر اربعہ، شہید ممبر و محراب رسولؐ، انتخاب رب العالمین، خلیفہ دوم، وکیل ام المومنین، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔
اسلام کے گلشن کو جن شہدائے اسلام نے اپنا قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا، ان میں امیر المومنین، شہید منبر و محراب، سیّدنا فاروقِ اعظم ؓ کا اسمِ گرامی سرِفہرست ہے، آپؓ کے قبول اسلام کے لیے خود رسول اللہﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی۔
خلیفہؓ دوم،مرادِ رسولﷺ، شہیدِ محراب سیدنا فاروق اعظم ؓ کا نام نامی اسم گرامی عمر 'فاروق اعظم لقب، والد کا نام خطاب تھا۔آپ علم الانساب میں ماہرتھے، نیز آپ کا شمار قریش کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ فن خطابت کے بھی ماہر تھے۔ ذریعہ معاش تجارت تھا۔
اپنی آمدنی کا بیش تر حصہ فقرا' غلاموں، مسکینوں، مسافروں، ضرورت مندوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اپنی بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعید بن زیدؓ کی استقامت سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ دراصل آپ ؐ کی اس دعا کا اثر تھا: اے اللہ، اسلام کو عمر و بن ہشام (ابوجہل) یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت عطا فرما'' اسی وجہ سے آپ مراد رسولﷺ کہلاتے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا 40واں نمبر ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے دین اسلام کو نئی قوت عطا ہوئی۔
آپ کاشمارمہاجرین میں ہوتاہے اورآپ نے 20 افراد کی معیت میں13 نبوی میں مدینہ منورہ ہجرت کی اور قبا میں حضرت رفاعہ بن منذرؓ کے مکان میں قیام فرمایا۔حضرت فاروق اعظم ؓ قبول اسلام کے بعد تمام غزوات میں بنفس نفیس شریک ہوئے اورجرأت وبہادری کے جوہر دکھائے۔
سیدناعمرؓ کی سیرت کا ایک ایک لمحہ باکمال، لازوال اور بے مثال ہے۔ سیرت کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیے آقا کریمﷺ نے جہاں جہاں اپنا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر فرمایا وہاں وہاں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر بھی فرمایا ہے۔
پیارے پیغمبرﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک، تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے ،جنھوں نے اللہ سے ہم کلامی کا شرف پایا، لیکن وہ نبی نہ تھے، میری امت میں اگر کوئی ایسا (نبی) ہوتا تو وہ عمر ؓہوتا۔(صحیح بخاری )
رسول اللہﷺ نے یہ بھی ارشادفرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبوت کا مقام پا سکتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔ (مستدرک حاکم)
ایک اورموقع پرسرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے، وہ حق بات ہی کہتے ہیں۔ (مشکوٰۃ )
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اْن دس صحابہ میں سے ہیں، جن کے جنتی ہونے کی بشارت حضورﷺ نے دی ہے۔ وہ حضرت عمرؓ کے بارے میں کہتے ہیں: ''خدا کی قسم ، عمرؓ اسلام لانے میں گو ہم سے پہلے نہیں اور نہ ہی ہجرت کرنے میں وہ ہم پر مقدم ہوئے ،مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کس چیز کے سبب وہ ہم سے افضل ہیں، وہ ہم سے آگے اس لیے بڑھ گئے کہ وہ سب سے زیادہ دنیا سے بے تعلق تھے''۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بھی رسول اللہﷺکے جلیل القدر صحابہؓ میں سے ہیں، حضورﷺ کی احادیث لکھنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی۔ آپ حضرت عمرؓکے بارے میں فرماتے ہیں، حضرت عمرؓ بہت جلیل القدر انسان تھے، ایک مرتبہ آپ نے حضرت عمرؓ کے لیے دعائے رحمت کرتے ہوئے فرمایا ''میں نے بنی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد حضرت عمرؓ سے زیادہ خوف خدا رکھنے والا کسی کو نہیں پایا''۔
عالم اسلام کے عظیم مورخ ابن ہشام نے نہایت اعتماد کے ساتھ کہا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اسلام نہ لائے تھے اس وقت تک مسلمان بہت کمزور تھے، چھپ کر عبادت کرتے تھے،اسلام کو مخفی رکھا جاتا تھا، لوگ اسلام کی باتیں چھپ چھپ کر کرتے تھے۔ آپ اسلام لائے تو کعبۃ اللہ پہنچ کر اسلام کا نعرہ بلند کیا، آپ اسلام لائے تو اسلام آپ کے سبب معزز ہوا۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لے آئے، ہم کعبہ کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھے، آپ کا اسلام لانا جس طرح مسلمانوں کے لیے وجہ عزت بنا تھا اسی طرح آپ کی خلافت بھی مسلمانوں کے لیے وجہ شرف بنی تھی۔
آپ نے اپنے دور خلافت میں مسلمانوں کو بڑی عظمتیں بخشی تھیں۔ آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کے ڈانڈے ایک طرف مصر سے جڑے افریقی صحراؤں تک جا ملے، دوسری طرف عراق ، شام و ایران کے طول و عرض سے گزر کر افغانستان تک جا پہنچے۔
آپ کے دور کا سب سے بڑا تحفہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا اقتصادی و معاشی نظام تھا جو اس سے پہلے روئے زمین نے کبھی دیکھا نہ تھا۔ آپ کے دور سے پہلے عوامی زندگی کو وہ خوشحالی میسر نہ تھی جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انسانی جھولی میں ڈالی تھی۔ ابن سعدہوں، ابن جریر ہوں، طبری ہوں، ابن کثیر ہوں یا پھر ابن کثیر ہوں، دنیا کے ان بڑے بڑے مورخین نے بیک زبان اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دور فاروقیؓ میں اسلامی مملکت کے دور دراز علاقوں میں آباد عوام کو بھی وہ حق بڑی پابندی سے ملتا جو مدینہ کے عام شہریوں کو میسر تھا۔
آج کی جدید دنیا اور اس دنیا کی بڑی بڑی خوشحال طاقتیں بھی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتیں جو محمد عربیﷺ کے ایک غلام نے کر دکھایا۔ آپ کے دور میں ہر شہری اور دیہاتی کو تین سو درہم نقد تنخواہ دی جاتی تھی، دو جریب غلہ، چار سیر سرکہ، چار سیر زیتون ہر مہینے بنیادی ضرورت کے طور پر مہیا کیا جاتا تھا۔ بچہ پیدا ہونے پر ماں باپ کو سو درہم ضروری اخراجات کے لیے فوراً مہیا کیے جاتے تھے، دوسرے سال بچے کو دو سو درہم، بچہ تیسرے سال میں داخل ہوتا تو تین سو درہم دیے جاتے۔
بالغ ہونے تک یہ سالانہ امداد بچے کو ریاست فراہم کرتی تھی۔ مملکت میں رہنے والی کوئی بیوہ، یتیم، معذور، ایسا نہ تھا جو بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو حتیٰ کہ غیر مسلم بھی سرکاری خزانے سے بنیادی ضروریات وصول کرتے۔ آپ کے دور میں بچے کی پیدائش پر رجسٹریشن کا نظام نافذ کیا گیا۔
نئے دور کے ماہرین اقتصادیات مدعی ہیں کہ معاشی اعتبار سے ایک گھرانے کا تصور نئی تھیوری ہے، جو کارل مارکس اور اس کے اسکول آف تھاٹ کی ایجاد ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تھیوری کا تصّور حضرت عمر فاروق ؓ نے دیا۔ آپ نے یہ تھیوری اس وقت پیش کی تھی جب مغربی اور باقی دنیا ذہنی لحاظ سے حد درجہ پست تھی، جب تک دنیا کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ آدمی کا آدمی پر کیا حق ہے۔ دور فاروقیؓ اسلامی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے، چودہ سو سال بعد بھی دنیا اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔
مغیرہ بن شعبہ کے ایک ابولولو فیروز نامی پارسی غلام نے حضرت عمرؓ سے اپنے آقا کے بھاری محصول مقررکرنے کی شکایت کی، شکایت بے جا تھی، اس لیے حضرت عمر ؓنے توجہ نہ کی،اس پر وہ اتنا ناراض ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر لے کر اچانک حملہ کر دیا اور متواتر چھ وار کیے،حضرت عمر ؓزخم کے صدمے سے گر پڑے اور یکم محرم الحرام کو خالق حقیقی سے جا ملے اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
شہادت سے قبل صحابہ کرام کے اصرار پر حضرت علی ؓ، عثمان ؓ، زبیرؓ، طلحہ ؓ ،سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوفؓ کو منصب خلافت کے لیے نامزد کیا اور وصیت کی ان میں سے کسی ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہو جائے منصب خلافت کے لیے منتخب کر لیا جائے،اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کی جازت لی۔
اس کے بعد مہاجرین انصار،اعراب اوراہل ذمہ کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے صاحبزادے عبد اللہ ؓ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے،ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ ہو سکے تو تمام قریش سے کہنا تاہم قریش کے سوا اورکسی کو تکلیف نہ دینا۔
آقا عمرؓ، رہبر عمرؓ، مرشد عمرؓ، مولا عمرؓ
برتر عمرؓ، بالا عمرؓ، اعلیٰ عمرؓ، اولیٰ عمرؓ
ذاتِ نبی پاک پر سو جان سے شیدا عمرؓ
ایمان میں، ایقان میں، احسان میں یکتا عمرؓ
روحِ صفا، موجِ سخا، جانِ وفا، وقفِ رضا
اِک ہستی زیبا عمرؓ، اِک پیکرِ دانا عمرؓ
بادِ بہاری کی طرح گذرا عراق و شام سے
ابرِکرم بن کر اٹھا، اسیران پر برسا عمرؓ
مابعد ختم المرسلینؐ، کوئی نبی آنا نہیں
یہ سلسلہ چلتا اگر تو اک نبی ہوتا عمرؓ
آقا میرے صدیق ؓ بھی آقا میرے عثمان ؓ بھی
اِک طرف مولیٰ علیؓ ہیں اِک طرف مولیٰ عمرؓ