زباں فہمی ٹی وی یات

ٹی وی یات پر لکھتے ہوئے ہم محض زبان وبیان کی اغلاط کی بات نہیں کرتے۔


ٹی وی یات پر لکھتے ہوئے ہم محض زبان وبیان کی اغلاط کی بات نہیں کرتے ۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی کالم نمبر 110

کیوں سوچ میں پڑگئے نا آپ؟ یہ کیا چیز ہے؟ بھئی جیسے ذاتیات، جُرمیات، جنسیات، عُمرانیات (عُمران یعنی آبادی کا علم نہ کہ عِمران سے متعلق باتیں)، لغویات، معاشیات، مغزیات اور دیگر ''یات'' ہیں... اسی طرح یہ بھی ایک ''یات'' ہو سکتی ہے۔ مدتوں پہلے کسی رسالے میں کسی کالم کا عنوان یہی ہوا کرتا تھا اور اس میں ٹیلی وژن کے پروگراموں پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔

(ضمنی بات یہ ہے کہ خاکسار نے بھی کسی زمانے میں ایک انگریزی روزنامے کے لیے کچھ ٹی وی کالم لکھے تھے جنھیں پذیرائی بھی ملی تھی)۔ تو آج ہم اسی موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ ٹیلی وژن کا نام ہمارے یہاں رائج ایسے غیرملکی اسماء میں شامل اور نمایاں ہے، جن کا مترادف موجود نہیں یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

ماقبل بھی یہ خاکسار اس بابت اظہار خیال کر چکا ہے کہ اگر اس آلہ تفریح و معلومات کا کوئی اردو متبادل ہو سکتا تھا تو وہ تھا، ہندی الاصل: دُور دَرشن... مگر یہ تو ہمسایہ ملک کے سرکاری ٹیلی وژن ادارے کا نام ہے، لہٰذا ہم ٹیلی وژن یا مختصراً ٹی وی ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ٹی وی یات پر لکھتے ہوئے ہم محض زبان وبیان کی اغلاط کی بات نہیں کرتے، نہ یہ تخصیص کرتے ہیں کہ خبروں کی بات کریں گے یا ڈراموں کی، بلکہ ہم تو ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات بھی اس موضوع میں شامل سمجھتے ہیں اور معاملہ زبان کے ساتھ ساتھ تہذیب کا بھی ہے۔

واضح الفاظ میں کہا جائے تو ٹی وی اس وقت ہمارے اخلاقی زوال اور اقدار کے تہس نہس کرنے میں دیگر ذرایع اِبلاغ کے ساتھ ، بڑھ چڑھ کر اَپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ زبان کے حوالے سے دیکھا جائے، توایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے پرانے محاوروں کی نئی توجیہ یا تشریح، خواہ مزاحاً کی جائے، تو ممکن ہے کہ ہم کہیں ''دور کے ڈھو ل سہانے'' اور اس کی عملی شکل یا مثال کے طور پر تصویر دکھائیں ایک ٹی وی سیٹ کی۔

یوں بھی ٹی وی ڈراموں میں دکھائے جانے والے بہت سے مناظر اور کہانی کے بہت سے حصے، غیرحقیقی ہونے کے باوجود اتنے دل کش اور متأثر کُن ہوتے ہیں یا ہوتے تھے کہ لوگ ان میں کھو جاتے تھے۔ اس ضمن میں ہمارے سنہری عہد کے متعدد ڈراموں کی مثال دی جا سکتی ہے، جن کی ایک مصنفہ (مرحومہ) کے متعلق ہمارے ایک بزرگ معاصر (مرحوم) نے کُھل کر لکھا تھا کہ اُن کے اور فُلاں کے ڈراموں میں Drawing room-culture اور غیر حقیقی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔

اوّل الذکر مصنفہ نے تو تاریخی ڈراموں میں بھی رومان نگاری کا ایسا رَنگ بھرا کہ ہمارے مشہورِ زمانہ (یا بہت سوں کے نزدیک رُسوائے زمانہ) آمرِ مطلق کے دور حکومت میں، اُن کی تاریخی ڈراما نگاری پر پابندی عائد کر دی گئی، کیوں کہ اُن دنوں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بات بہت ہوتی تھی۔

خیر اُن دنوں تو یہ بھی ممکن نہ تھا کہ آپ کسی ڈرامے میں کسی مرد کو کسی عورت پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دکھائیں... پھر جمہوریت آگئی تو ایک ''باغی'' پیش کار نے ملازمت پر بحال ہوتے ہی اپنی حقیقی بیٹی کو ایک ڈرامے میں نشہ کرتے ہوئے دکھایا، (Producer کا حقیقی ترجمہ، خواہ وہ عدالت میں دیگر معنیٰ میں رائج ہے)، دیگر تفصیل سے قطع نظر، انھوں نے سرکاری ٹیلی وژن کی ملازمت دوبارہ ملتے ہی یہ ڈراما سیریز خود لکھ کر پیش کی، تو اِس میں اپنی بیوی، سابقہ بیوی، بیٹی، سالی (اور شاید دیگر) کو نمایاں کردار دیتے ہوئے مختلف ممالک کی سیر کرا دی۔ اب رہے ناظرین اور ناقدین تو اُن کا کیا ہے؟ لوگوں کا تو کام ہی باتیں بنانا ہے۔

ایک اور انتہائی کام یاب اور مقبول ڈرامانگار خاتون (مرحومہ) کے متعلق، خاکسار نے خواتین پروڈیوسرز کے رُوبرُو کہہ دیا تھا کہ اگر میں پروڈیوسر ہوتا تو انھیں کہانی کے مسوّدے کے ساتھ واپس بھیج دیتا، یہ کہہ کر کہ ''بی بی! یہ کیا ایک ہی کہانی ، ایک ہی جیسے کرداروں پر مبنی لکھ کر، ہمیشہ لے آتی ہو''، کیوں کہ اُن کے تقریباً تمام ڈراموں میں دو باتیں مشترک تھیں: ا)۔ اکثر وبیش تر کسی نہ کسی مشہور ناول یا افسانے پر مبنی یا اس سے ماخوذ تھے، یعنی طبع زاد [Original] نہیں تھے اور ب)۔ اُن کے اکثر ڈراموں میں ہیروئن اور سائڈ ہیروئن کے طور پر ایک سنجیدہ، سقراط بقراط قسم کی اور ایک ہمہ وقت شوخی کا مظاہرہ کرنے والی لڑکی کا کردار ناظرین کی توجہ مبذول کراتا تھا۔ اُن کے انٹرویوز پڑھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں درحقیقت اُن کی اپنی شخصیت کے دو رُوپ تھے۔

شاید بعض قارئین یا قاری اہل قلم کو یہ کڑی تنقید ناگوارِ خاطر گزرے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اُن کے تمام فنّی سفر میں ماسوائے ایک دوڈراموں کے، سب کی بُنَت ایک سی تھی۔ اب اگر کوئی ناواقف یہ پوچھے کہ تقریر وتحریر میںایسی تنقید کا حق کیوں استعمال کرتا ہوں، تو جواباً عرض یہ ہے کہ یہ راقم ٹیلی وژن سے بطور مصنف ومحقق (روزِ اوّل سے درجہ اوّل یعنی A-category Writer-cum-Researcher: یکم جنوری 1993ء) طویل وابستگی کے شرف کے ساتھ ساتھ، ایک عام ناظر اور کڑا ناقد بھی ہے۔

بات کی بات ہے کہ اب ہمیں لفظ ناظرکی جمع ناظرین شاذہی سننے کو ملتا ہے۔ ہمارے دیسی انگریز Viewers کہتے ہیں، وہ بھی تلفظ بِگاڑکر Weavers (یعنی جولاہے/ جُلاہے)۔ ایسے لوگوں کے لیے اردو ہی نہیں، دیگر زبانوں میں بھی متعدد کہاوتیں مل جاتی ہیں۔

ہم نے ماقبل بھی اس کا ذکر کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں، ایسے بے شمار الفاظ وتراکیب ہیں، جو (ہمارے نیم خواندہ معاشرے کے بڑے معلّمین میں شامل) یہ ادارہ یعنی ٹی وی کسی گندی بوچھاڑ کی طرح، گویا برسا رہا ہے۔ ہم نے پچیس، چھبیس سال پہلے اپنے پروگرام کی خاتون پروڈیوسر کو یہ کہہ کر ناراض کر دیا تھا کہ اَب بچوں کی تربیت ماں باپ نہیں، ٹی وی کرتا ہے۔ بچے اپنے روزمرّہ معمولات میں غلط صحیح کے فرق سے قطع نظر، وہی کچھ دُہراتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو انھوں نے ٹی وی پر دیکھا ہو۔ مگر نہیں جناب! اب بات ٹی وی سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کا دور دورہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون اور ٹیبلٹ ہیں اور وہ مادرپدرآزادی کے اشتہار بنے ہوئے ہیں۔

خیر، فی الحال تو ہم ٹی وی یات لکھ رہے ہیں۔ ہمیں پہلا اور سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اردو کا ستیاناس، شعوری اور غیر شعوری، محسوس اور غیر محسوس طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اب ٹیلی وژن چینلز کی بھر مار میں وہ لوگ کہیں نظر نہیں آتے، جو کسی بھی شعبے میں زبان وبیان کی صحت کی ذمے داری سنبھالتے ہوئے، میزبان یا خبر خواں [News Reader/News caster] کو سکھائیں کہ کیا کہنا ہے اور کس طرح۔ خبروں کا حال یہ ہے کہ خبریں پہنچانے والا یعنی خبر رَساں [News Reporter]جیسی تیسی زبان لکھتا اور بولتا ہے۔

وہی زبان خبر مرتب کرنے والا News-copy Editor اور پھر اُس کا افسر یعنی News Editor نقل کرتے ہوئے نشر کے لیے منظور کر دیتا ہے۔ ان سے اوپر یعنی سب سے اوپر عہدہ یا منصب ہوتا ہے، Director News/Head of Newsکا... اب وہ بے چارے کیا کر سکتے ہیں، انھیں تو کسی نے ایک مرتبہ کرسی پر بٹھا دیا، وہاں کچھ وقت گزار کر کسی اور جگہ کسی اور کرسی پر بیٹھ گئے۔ انھیں کیا خبر کہ خبروں میں کیا صحیح اور کیا غلط ہو رہا ہے۔

ہمارے ایک تجربہ کار (اور حقیقی) صحافی کے انکشاف کے مطابق، گزشتہ کچھ عرصے سے ایک ''سابق...'' فُلاں صاحب یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی خبر ٹیلی وژن چینلز پر چلنی ہے اور کون سی نہیں۔ ان صحافی کو بھی ایک بڑے چینل سے اسی لیے فارغ کر دیا گیا تھا کہ سرکار تو کُجا بڑی سرکارکے مؤقف کے خلاف کچھ کہنے کی گستاخی کر بیٹھے تھے، جو وہ اکثر کرتے ہی تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ''سابق...'' فُلاں صاحب نے تو زندگی بھر جو کام کیا، اس کا بھی کوئی فائدہ بظاہر ملک وقوم کو نہیں پہنچا، اب جو کام وہ کر رہے ہیں۔

اُن کے بڑوں نے نہیں کیا، اُن کے اِردگرد کسی نے نہیں کیا تو اُنھیں کیا خبر کہ خبر کسے کہتے ہیں اور کون سی خبر ٹی وی پر چلنی چاہیے۔ ''فُلاں نے یہ کہا''، ''فُلاں نے فُلاں سے ملاقات کی''، ''فُلاں کی طبیعت ناساز ہے''، ''فُلاں نے فُلاں کو دھمکی دی ہے'' قسم کی چیزیں خبریں نہیں ہوتیں۔ ٹی وی پر خبر چلتے ہوئے اگر Typist/Composer نے کچھ غلط لکھ دیا ہے، تو خبر خواں بھی غلط ہی پڑھے گا، خواہ وہ کتنی ہی مدت سے یہ کام کر رہا ہو۔

آج صبح ہی ایک نجی ٹیلی وژن چینل کی خبروں میں ایسی ہی کچھ اغلاط سرزد ہوتے ہوئے دیکھیں اور سنیں۔ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا، نکل مکانی، بجائے نقل مکانی تو خاتو ن نے بھی وہی پڑھ دیا۔ خیر یہ تو اَناڑیوں کے ہاتھوں میں بندوق کی مثل ہے، مگر ہم نے تو ماقبل ایک ''عظیم'' (جعلی) صحافی کا ذکر کیا تھا، جو ٹائپسٹ کے غلط ٹائپ کیے ہوئے ایک مشہور مقام کا نام، 'ٹیلی پرامپٹر' پر دیکھ کر غلط ہی پڑھ گئے۔

ان دنوں ہر طرح کی اغلاط سے پُر خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔ بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ خبر خواں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ابھی ابھی جو لفظ پڑھا، غلط تھا، مگر پھر وہی کئی بار دُہراتا /دُہراتی ہے، گویا وہی پرانے لطیفے والا معاملہ ہوا کہ ایک تجربہ کار خبرخواں نے ٹیلی وژن پر براہ راست خبریں پڑھتے ہوئے غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے، بہت اعتماد سے فرمایا: ''معاف کیجیے! میں یہ خبر دوبارہ غلط پڑھتا ہوں''۔ ہماری ایک ممتاز خبر خواں خاتون، ملک ایران کو ہمیشہ اے ران، عراق کو 'عے راق' اور افغانستان کو اغوانستان پڑھا کرتی تھیں۔ خیر وہ تو ماضی تھا۔ اُن دنوں بہت سی سہولتیں میسر نہ تھیں۔آج کل کی بات کرتے ہیں۔

ہمارے موجودہ خبر خواں مُعاوِن کو مَووِن، مَعاشی کو مُعاشی، مُعاشِرے کو مَوشرہ، سَعو' دی عَرَب کو سَودی عرب، نِشان دِہی کو نشان دَہی اور اسی طرح دھوکا دِہی کو دھوکا دَہی پڑھتے ہیں۔ مُلزَم کو مُلزِم اور مُلوَث کو مُلوِث کہنا عام ہے، مُریدکی جمع مُریدِین ہے، اسے بعض اوقات مُریدَین (یعنی دومُرید) کہہ دیا جاتا ہے۔

کسی لفظ، ترکیب یا اصطلاح کے انگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے عموماً کسی مستند لغت سے استفادہ کرنے اورکسی اہل علم سے معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی، نتیجہ یہ ہے کہ عجیب بھونڈے الفاظ ہماری سماعت پر ہتھوڑے برساتے ہیں۔ متعدد بار تحریر وتقریرمیں خاکسار سمیت کئی اہل قلم نے یہ بات واضح کی کہ لفظ ''عوام'' مذکر اور جمع ہے۔ بعض علاقائی زبانوں کے زیر اثر تقریبا تمام ٹی وی چینلز پر اسے اتنی کثرت سے مؤنث، واحد بنایا گیا کہ اب ہمارے اہل قلم بھی غلط ہی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں، ایک بڑا المیہ ہے کہ جن کی زبان سَنَد سمجھی جائے، وہی غلط بولیں اور لکھیں۔ اردو میں عام فہم الفاظ اور مترادفات کے ہوتے ہوئے بلاوجہ انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال بھی ٹی وی اور اُس کی دیکھا دیکھی انٹرنیٹ پر بہت عام ہو چکا ہے۔

Rescue جیسا لفظ یوں دھڑلے سے بولا جاتا ہے، جیسے اردو میں بچاؤ اور تحفظ جیسے الفاظ سِرے سے موجود نہ ہوں۔ Security بولیں گے، بھلے غلط تلفظ ہی ادا کریں، سلامتی، تحفظ قسم کے اردو الفاظ معلوم نہیں یا یاد نہیں۔ ماقبل بھی متعدد الفاظ کی اردو میں موجودگی اور مترادفات یا متبادل الفاظ کی دست یابی کا لکھ چکا ہوں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ غلط درغلط ، نقل درنقل، بلا عقل کا ارتکاب کرنے والے ایسے کالم یا ایسی تحریریں کہاں پڑھتے ہیں۔

وہ توبس خبروں یا خبروں سے متعلق کسی پروگرام میں شرکت سے ذرا پہلے، ٹیلی وژن اسٹوڈیو میںپہنچ کر، سرخی پوڈر (نہ کہ پاؤڈر) لگاتے ہیں اور کاغذ ہاتھ میں لے کر، Teleprompter دیکھتے ہوئے پڑھتے چلے جاتے ہیں... گویا بس کنڈکٹروں کی بولی میں ''ڈبل ہے استاد، جانے دو!''۔ نئے الفاظ یا تراکیب سننے کو ملیں تو یہ زحمت نہیں کرتے کہ ان کا مطلب کسی لغت سے دیکھ لیں، بس جُوں کا تُوں بولتے چلے جاتے ہیں۔ Cloudburst کا مطلب معلوم نہ کر سکے تو یہی دُہراتے چلے گئے، کسی نے انٹرنیٹ پر ترجمہ کیا: بادل پھٹ گیا، کسی نے کہا: طوفانی بارش۔ یہ اصطلاح ہماری معلومات میں اضافہ ہے، تو اس کا ترجمہ بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہمیں بہرحال تنگی قرطاس اور تنگی وقت دونوں ہی کا احساس ہے۔

ٹیلی وژن پر خبروں اور تجزیوں کے علاوہ ڈراموں اور اشتہارات کا معاملہ بھی گِراوَٹ کا شکار ہے۔ اشتہارات کے متعلق، شعبۂ تشہیر سے منسلک، اس راقم نے پہلے بھی لکھا اور اب پھر لکھنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے یہاں تمام ذرایع اِبلاغ پر شایع ہونے والے، نشر ہونے والے، چلنے والے یا نظر آنے والے اشتہارات میں عموماً بنیادی خرابی، ان کے تخیل یا تصور [Concept] کی ہوتی ہے، جس پر محنت نہیں کی جاتی، بس اِدھر اُدھرسے، ہمسایہ ملک سے یا کسی اور ملک سے چلی ہوئی چیزکی نقل کر لی جاتی ہے یا اس سے ملتا جلتا ''کچھ بھی'' تیار کر لیا جاتا ہے۔

پھر باری آتی ہے Creative Copywriting کی، جسے خاکسار نے اختراع نگاری کا نام دیا ہے۔ اس ضمن میں عموماً بہت کمزور، ناقص اور اَلَل ٹَپ مواد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر کوئی اشتہار کسی طرح ان دونوں بنیادوں اور عکاسی [Shooting] کے لحاظ سے عمدہ بھی تو پھر ایک اور پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے۔ وہ ہے ہماری تہذیب۔ بے شمار اشتہارات ایسے ہیں، جن میں ہماری تہذیبی اقدارکا شعوری طور پر مضحکہ اُڑایا گیا ہے۔ یہ اشتہارات ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اخلاقی پستی کا دَرس دے رہے ہیں۔ مخلوط زبان میں لکھے گئے اشتہار ات میں قومی زبان کے ساتھ کھِلواڑ کے علاوہ، فرنگی زبان کی بھی ایسی تیسی کی جا رہی ہے۔ اب بھلا بتائیں یہ ''More سے زیادہ'' کا کیا مطلب ہے اور کس زبان میں ہے؟، ''منالو Food کا Love'' کا کیا مفہوم ہے؟

بشرط ِصحت وفرصت اشتہارات کی نئے سرے سے خبر لی جائے گی اور ہمارا ایک اور کالم اسی بابت ہوگا۔ ع

پھر ملیں گے اگر خدالایا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں