سمن طلبی نوٹس کو اردو میں کرنا کافی نہیں
پاکستان میں دیوانی مقدمات میں طلبی سمن کی تعمیل ایک بڑا مسئلہ ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک نئے حکم میں ماتحت عدلیہ کو پابند کیا ہے کہ وہ دیوانی مقدمات میں طلبی سمن صرف انگریزی میں جاری کرنے کے بجائے انگریزی اور اردو دونوں میں جاری کیے جائیں۔ حکم کے مطابق طلبی سمن میں مقدمے کی تفصیل بھی لکھی جائے تاکہ سمن وصول کرنے والے کو مقدمے کی نوعیت کے بارے میں طلبی سمن ملنے کے ساتھ ہی علم ہو سکے۔
پاکستان میں دیوانی مقدمات میں طلبی سمن کی تعمیل ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر مقدمات میں دفاعی فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سمن کی تعمیل ہی نہ کرے۔ ایسے میں شریف لوگ جنھیں عدالتی مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا وہ سمن کو موت کا پروانہ ہی سمجھتے ہیں جب کہ جنھیں عدالتی مقدمات نبٹنے کا وسیع تجربہ ہوتا ہے وہ سمن کو کھیل سمجھتے ہیں۔ اس لیے جو موت کا پروانہ سمجھتے ہیں وہ بھی وصول نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کھیل سمجھتے ہیں وہ بھی پہلی دفعہ میں وصول نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ پہلی سیڑھی ہے جہاں سے کرپشن کا آغاز ہوتا ہے۔ طلبی نوٹس لانے والے عدالتی عملہ کی دیہاڑی شروع ہوتی ہے۔ نوٹس وصول کروانے کی رپورٹ کے بھی پیسے ہیں اور وصول نہ کرنے کی رپورٹ کے بھی پیسے ہیں۔ فریق موجود نہیں تھا کی رپورٹ کے بھی پیسے ہوتے ہیں۔ اس لیے نوٹس چاہے انگریزی اور اردو دونوں میں بنا لیا جائے پیسوں کی زبان تو وہی ہوگی۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے عدالتی طلبی سمن کی وصولی کا طریقہ کار آسان بنایا جائے ۔ اس سے راہ فرار ممکن نہ ہو۔
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب اردو ٹائپنگ کے بہترین سافٹ وئیر آگئے ہیں۔ اردو میںکمپیوٹر استعمال کرنا آسان ہو گیا ہے۔ پھر ہماری عدالتی زبان آج تک انگریز ی کیوں ہے۔ کیا کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ انگریزی میں عدالتی کارروائی عام آدمی کے لیے کتنی مشکلات کا سبب ہے۔ سوال صرف طلبی سمن کا نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمام عدالتی کارروائی اردو میں ہونی چاہیے۔
انگریزی کے فیصلے اور دیگر عدالتی احکامات دراصل عام آدمی کے لیے انصاف مشکل ہی بناتے ہیں۔ آپ دیکھیں عدالت میں جب گواہی ریکارڈ کی جاتی ہے تو گواہ اردو میں گواہی دیتا ہے لیکن اس کو انگریزی میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جرح میں بھی وکیل اب اکثر اردو میں سوال کرتے ہیں لیکن اس کو بھی انگریزی میں ہی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ وکیل بحث بھی اردو میں کرتے ہیں اورجج اس کو انگریزی میں لکھتے ہیں۔ بعد ازاں عام آدمی پھر اس سب کے ترجمے کے لیے مارا مارا پھرتا ہے۔ سائلین پوچھتے رہتے ہیں فیصلے میں کیا لکھا ہے۔
اگر ملک میں نظام انصاف کو آسان بنانا ہے تو اسے سب سے پہلے اردو میں کرنا ہوگا تا کہ عام آدمی اس کو سمجھ سکے۔ لاہور ہائی کورٹ کے محترم جج صاحب نے طلبی نوٹس کو انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی کرنے کا فیصلہ کر کے درست جانب قدم اٹھایا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ساری عدالتی کارروائی اردو میں کرنے کا حکم جاری کر دیتے۔
ویسے تو سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس ساری سرکاری کارروائی اردو میں کرنے کے احکامات جاری کر گئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان پر بھی آج تک عمل نہیں ہوا ہے۔ آج بھی معمول کے تبادلوں کے احکامات انگریزی میں ہی جاری کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ تبادلوں کے احکامات انگریزی میں جاری کرنے کی کوئی منطق آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی۔ بہر حال عدالتی کارروائی اردو میں کرنے میں ہی ملک و قوم کا مفاد ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے تمام فیصلوں کا بھی اردو میں ترجمہ کرنے کا ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہونا چاہیے تا کہ ماضی کے حوالے بھی انگریزی میں لینے کی ضرورت نہ رہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عدالتوں کے باہر لگی کاز لسٹ بھی انگریزی میں کیوں ہوتی ہے۔ عام آدمی کو اسے پڑھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ کم ازکم اسے تو اردو میں ہونا چاہیے۔ تاکہ کوئی عدالت کے باہر سے تو آسانی سے پڑھ سکے کہ اس کا کیس عدالت میں لگا بھی ہے کہ نہیں اور کتنے نمبر پر لگا ہوا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کی تمام کتابیں پہلے ہی اردو میں موجود ہیں۔ اس لیے قانون کو اردو میں پڑھانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ وکلا کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ عدالت میں مقدمہ اردو میں دائر کریں۔ ابھی بھی اس معاملہ میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
طلبی نوٹس کو انگریزی کے ساتھ اردو میں کرنے کے ساتھ ساتھ محترم جج صاحبان کو فریقین کو طلب کرتے وقت بھی بہت احتیاط کرنی چاہیے۔جج صاحب کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ طلبی نوٹس لوگوں کے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت ہوتے ہیں۔ ایک طلبی نوٹس کے ساتھ ہی وکیل اور دیگر اخراجات شروع ہو جاتے ہیں۔
اس لیے فریق کو طلبی نوٹس تب ہی جاری کرنا چاہیے جب اس کی طلبی بہت ضروری ہو جائے۔ جب فریق اول اپنا کیس ثابت کر لے تب ہی طلبی نوٹس جاری ہونا چاہیے۔ ابھی تو عدالتیں بس جونہی درخواست موصول ہوتی ہے ویسے ہی تمام فریقین کو طلبی نوٹس جاری کر دیتی ہیں۔ اس طرح مقدمہ کئی کئی ماہ طلبی نوٹس اور تعمیل میں رہ جاتا ہے۔ اگر عدالتیں طلبی نوٹس جاری کرنے میں احتیاط برتنا شروع ہو جائیں گی تو جھوٹے اور غیر ضروری مقدمات سے بھی عدلیہ کی جان چھوٹ جائے گی۔ جھوٹے مقدمات اور غیر ضروری درخواستیں دوسرے فریق کو تنگ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ اس لیے جب تنگ کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا تو لوگ رک جائیں گے۔ اس لیے اس ضمن میں عدلیہ کو خود ہی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
مجھے امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ذمے داران کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ عدالتی کارروائی اردو میں کرنے سے نظام انصاف آسان ہو جائے گا۔ ابھی تو انگریزی میں حکم لکھوانا بھی ایک مشکل کام بنا ہوا ہے۔ کئی کئی دفعہ غلطیاں لگتی ہیں۔ اگر حکم اردو میں ہوگا تو غلطیاں لگنے کا عمل بھی ختم ہوجائے گا۔ حکم لکھنا بھی آسان ہو جائے گا۔ ہمیں اب انگریزی سے جان چھڑانا ہوگی۔ انگریزی نے ہمارے مسائل کو مزید پیچیدہ کیا ہے۔لیکن ہم انگریزی کے ایسے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں کہ نکلنے کی جرات ہی نہیں کر رہے۔