کوچۂ سخن

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔


Arif Aziz August 15, 2021
جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل
وہ رفتگاں کی محبت ،کرم، وفائیں بھی
نہ مل سکیں گی دوبارہ اگر بلائیں بھی
تری نظر کی نوازش نہ ہو سکی جب تک
درِقبول پہ ٹھہری رہی عطائیں بھی
گھٹن سے مر گئے ہم لوگ جب قبیلے میں
پھر اس کے بعد تو گونجی کئی صدائیں بھی
ہمارے جسم جدائی میں راکھ ہونے لگے
ہماری میز پہ بڑھتی گئیں دوائیں بھی
تمہارے بعد اٹھایا گیا نہ ہاتھوں کو!
تمہارے ساتھ ہی مانگی تھیں سب دعائیں بھی
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
نئے قرینے ،نئی چال ڈھال دیتا ہوں
غزل کو روز نیا اک خیال دیتا ہوں
وہ حبس ہے کہ میں اکثر فقط لباس نہیں
بدن اتار کے کھونٹی پہ ڈال دیتا ہوں
کبھی صدائیں مرے پاس رکھ کے جا ساری
میں ان سے سسکیاں چُن کر نکال دیتا ہوں
زمانوں بعد ملاقات ہے مری خود سے
تم آرہے ہو تو پھر خود کو ٹال دیتا ہوں
سب اچھے وقت میں کرلوں نہ خرچ یار کہیں
کڑے دنوں کے لیے کچھ سنبھال دیتا ہوں
اسی لیے مجھے کہتے ہیں بحرِذوق یہاں
میں روز لعلِ سخن جو اچھال دیتا ہوں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے ، گجرات)


۔۔۔
غزل
الجھا ہوا ہوں آج بھی میں امتحان میں
وہ شخص جی رہا ہے بڑے اطمینان میں
حیرت سے دیکھتے تھے مجھے راستے کے پیڑ
کرتا تھا جب بھی بات میں تیری زبان میں
سمجھے جو میرا کرب، مجھے حوصلہ بھی دے
ایسا کوئی نہیں ہے مرے خاندان میں
اس واسطے میں دیکھتا ہوں آسمان کو
کچھ لوگ رہ رہے ہیں، مرے آسمان میں
منزل تلک جو قافلہ پہنچا نہیں مرا
شاید کوئی عدو تھا مرے کاروان میں
طارقؔ میں چھونے والا تھا اُس کی جبین کو
کہرام مچ گیا مرے دل کے مکان میں
(طارق جاوید۔ کبیر والا)


۔۔۔
غزل
کمرے کی دیوار سجی ہے
جب تیری تصویر لگی ہے
تُو میرا ہے، میں تیرا ہوں
جملے میں تاثیر بڑی ہے
مجھ سے کچھ کردار جڑے ہیں
میری ایک کہانی بھی ہے
کیسے اس کو ساتھ چلاؤں
منزل بھی تو دور پڑی ہے
ان کے روز بہانے چلتے
ساگرؔ کی کب بات بنی ہے
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
وہ مجھ سے رسم و راہ کا آغاز کرتے ہیں
یوں مشکلوں کو میرے سر اعزاز کرتے ہیں
دل کے شکستہ ہونے پر اٹھے نہ کیوں فغاں
برتن بھی ٹوٹتے ہوئے آواز کرتے ہیں
دیتے ہیں اُس کے خال پر اپنی یہ جان بھی
یوں پیرویِ حافظِ شیراز کرتے ہیں
تبدیل ہونے لگتا ہے پھر رُخ ہواؤں کا
شہپر کو جب بھی مائلِ پرواز کرتے ہیں
یہ قرض کی ہے زندگی یہ جسم عاریتاً
ہم کم شناس پھر بھی اس پہ ناز کرتے ہیں
دیکھیں گے اُن کا حوصلہ ساجدؔ سکون سے
وہ کب تلک ناچیز سے اغماض کرتے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
رنج تھا اپنی اسے چاک گریبانی کا
ذرا احساس نہیں تھا مری ویرانی کا
بے سبب حالِ دلِ زار نہ پوچھا کیجے
آپ نے کرنا ہے کیا میری پریشانی کا
ذکر کرتے ہیں دل و دیدہ بھی اک دوسرے سے
آپ کے حسنِ فراواں کی فراوانی کا
دل میں ہو جاتی ہیں امید کی شمعیں روشن
دیکھ لیتی ہوں جو منظر تری تابانی کا
چل کے منزل بھی کبھی قدموں میں آ جاتی ہے
دل پہ یہ بوجھ نہ لیں بے سروسامانی کا
مشکلیں اتنی ہیں کچھ اور نظر آتا نہیں
موت ہی راستہ رہ جائے نہ آسانی کا
کوئی پوچھے کبھی ہم سے تو ہراساں ہو جائے
کیا گراں رنج اٹھایا گیا ارزانی کا
(عنبرین خان۔لاہور)


۔۔۔
غزل
کچھ ایسا اب زمانہ ہو گیا ہے
رویہ جارحانہ ہو گیا ہے
لہو سے سرخ ہیں یہ زرد چہرے
لہو بھی کیا سہانا ہو گیا ہے
مہک دینے لگی ہے سرخ مٹی
میسر آب و دانہ ہو گیا ہے
تمہارے بعد تیری یاد سے اب
تعلق والہانہ ہو گیا ہے
نہیں ہے سانس لینے کی بھی فرصت
نہ ملنے کا بہانہ ہو گیا ہے
نکل آئے ہیں چلمن سے وہ شاید
کہ موسم عاشقانہ ہو گیا ہے
ستاتی ہے اب عارفؔ یاد اس کی
جسے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
( محمد حسین عارف۔جھنگ)


۔۔۔
غزل
یہ بد دعا نہیں کہ تمہیں بے وفا ملے
لیکن تمہیں تمہارے کیے کی سزا ملے
چپ چاپ سہہ رہے ہیں زمانے کے رنج و غم
ایسے میں چاہتے ہیں کہ ہم کو خدا ملے
اپنی تمام عمر یونہی کٹ گئی ہے دوست
اس چاہ کے بغیر کہ کچھ تو نیا ملے
ہر بار تجھ تک آتے ہوئے لوٹنا پڑا
اے کاش تیرے شہر کا رستہ کھلا ملے
ممکن نہیں ہے خود سے مرا رابطہ علیؔ
کوشش یہی ہے جلد ہی کوئی پتہ ملے
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
سرزنش اب کریں کیسے شیطان کی
جان لے جب کہ انسان انسان کی
میرے دشمن ہوئے میرے اپنے سبھی
بات لب پر جو آئی ہے انجان کی
کھل اٹھے گا یقینا یہ اجڑا چمن
بات ساری ہے یہ عہد و پیمان کی
خالی مہرو محبت سے ہیں دل یہاں
مطلبی دوستی ہے ہر انسان کی
تھی عداوت مرے ساتھ اختر ؔتری
بستی کیوں چھوڑ کر تم نے ویران کی
( اختر سعید۔جھنگ)


۔۔۔
غزل
زباں ذکرِ الہیٰ سے کبھی خالی نہیں ہوتی
ہوں جیسے بھی مرے حالات بدحالی نہیں ہوتی
یہاں زندہ دلوں پر ہی تو خوشیاں راج کرتی ہیں
اگر چھائی ہو مایوسی تو خوش حالی نہیں ہوتی
کبھی مردہ دلوں کی حسرتیں پوری نہیں ہوتیں
مگر ایمانِ کامل سے بداعمالی نہیں ہوتی
اگر منزل ہی باطل ہو، ڈگر سیدھی نہیں ہوتی
مسافت راہِ حق پر ہو تو پامالی نہیں ہوتی
یہاں نظرِ جہاں دیدہ بہت مسرور ہوتی ہے
بدل ڈالے اگر دل سمت ہریالی نہیں ہوتی
(میاں وقارالاسلام۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
شورشِ تلخیٔ حالات سے گھبرائے ہوئے
چل پڑے شہر ِمضافات سے گھبرائے ہوئے
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پہ نظر ڈال کے دیکھ
ہم ہیں دنیا کے سوالات سے گھبرائے ہوئے
ایسی بستی کو میں آباد کروں گا کہ جہاں
لوگ رہتے ہوں فسادات سے گھبرائے ہوئے
میں نے آواز لگائی کہ ''کوئی ہے'' اور پھر
مر گئے قدرتی آفات سے گھبرائے ہوئے
دو قدم چل نہیں پائیں گے مبشر واصل
تجربہ ہے مرا، خطرات سے گھبرائے ہوئے
(مبشر واصل ۔ تلہ گنگ)


۔۔۔
غزل
ناز وانداز سے سنوارا گیا
چاک سے جب مجھے اتارا گیا
عشق کے لازوال رنگوں سے
حسنِ بے تاب کو نکھارا گیا
وصل کے جاں گدازلمحوں کو
آتش ِہجر سے گزارا گیا
زندگی تیرے ساتھ چلنے کو
نت نیا روپ کوئی دھارا گیا
چار سو پھیلنے لگی خوشبو
نام جونہی ترا پکارا گیا
اس کی تصویر کھو گئی مجھ سے
ہائے اک آخری سہارا گیا
عشق کو آگہی ملی عنبرؔ
جلتے شعلوں میں جب اتارا گیا
(فرحانہ عنبر۔گوجرانوالہ)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں