خود کش

قربانیاں دین حنیف کی ایک پہچان ہیں ، ’’نماز پڑھو اور قربانی دو…‘‘


[email protected]

قربانیاں دین حنیف کی ایک پہچان ہیں ، ''نماز پڑھو اور قربانی دو...'' بلاشبہ یہ حکم میرے آقاﷺ کو ایک مخصوص تناظر میں دیا گیا کیونکہ ابتدا تو سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل (علیہم السلام) کو بارگاہ خداوندی میں پیش فرما کے قربانی کے صفحات میں درج کراچکے تھے لیکن ابھی آقاﷺ کے گھرانے کے مقدس و محترم لہو سے مکمل کتاب لکھی جانی باقی تھی اور اْس کے لیے 6دن میں کائنات بنانے والے خالق و مالک نے 61ہجری، 10محرم الحرام کے دن ظہر سے عصر تک 6گھنٹے مختص کیے تھے...... لیکن اِس سے قبل آقاﷺ کے ساتھیوں کی قربانیوں سے وفاداری کے دیباچے اور لکھنے باقی تھے جن کے لیے پالن ہار نے اْن نفوس مقدسہ کا انتخاب کرلیا تھا جنھیں ہم ''صحابہ کرام'' کہتے ہیں......

جب دور پْرامن ہو، خلیفہ وقت کے عدل و انصاف سے جرم کرنے والے گھبراتے اور عوام گن گاتے ہوں، مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ''مشیر اعلیٰ'' اور تمام اہم فیصلوں کے نگہبان ہوں، کہ امیر المومنین کو بھی یہ کہنا پڑے کہ ''علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا '' ایسے میں مدینہ منورہ میں کسی ''ٹارگٹ کلنگ'' کا تصور محال ہی نہیں بلکہ گمان بھی ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہ تھا مگر کیا کہیے کہ اسلام کو ایک ایسا امیر المومنین ملا تھا جو دعائے آقاﷺ تو تھا ہی لیکن خود بھی ایسا مستجاب الدعوات تھا کہ ہر وقت لبوں پر ایک ہی دعا غالب رہتی کہ ''یا اللہ! مجھے مدینے میں شہادت عطا فرما'' کہنے والے کہتے پر امن مدینہ پاک میں ایسا کون بدبخت و ناہنجار اور جہنمی ہو گا جوامیر المومنین کو قتل کر کے اللہ کی لعنت کاحق دار ٹہرے گا لیکن قربانیوں والے دین کو اسلامی برس کا آغاز ہی شہادتوں سے کرنا تھا......

حضرت عمر فاروق ؓ اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ نا بالغ قیدیوں کے علاوہ باہر کے عناصر مدینے میں داخل ہو سکیں اس حکم پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ ہوا کہ مغیرہ بن شعبہ نے جواْن دنوں کوفے کاحاکم تھا حضرت عمر فاروق ؓ کو لکھ کر بھیجا کہ وہ اْس کے ایک غلام کوجو بہت سے ہنر جانتا تھا مدینے آجانے کی اجازت دے دیں...... سیدنا عمر ابن الخطاب نے اجازت مرحمت فرمادی اورابو لولو فیروز نامی غلام مدینے آگیا......

حضرت عمر ؓ ایک روز بازار کا گشت لگانے نکلے تو راستے میں وہی غلام ابو لولو ملا اور آپ سے کہنے لگا ''امیرالمومنین ! مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچایئے ، مجھ پر زیادہ خراج ہے'' حضرت عمر فاروق نے پوچھا ''تم کتنا خراج ادا کرتے ہو؟''غلام نے جواب دیا ''دو درہم روزانہ'' حضرت عمر فاروق ؓ نے پوچھا اور کام کیا کرتے ہو، غلام نے کہا '' نجاری ، نقاشی اور آہن گری'' حضرت عمر فاروق نے فرمایا تمہارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج زیادہ معلوم نہیں ہوتا '' حضرت عمر فاروقؓ نے اس غلام سے پھر کہا '' سنا ہے تم ایسی چکی بنا سکتے ہو جو ہوا سے چلتی ہے '' غلام نے جواب دیا '' یہ بالکل صحیح ہے کہ میں ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتا ہوں '' حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تو پھر مجھے ایک چکی بنا دو غلام بولا ''اگر میں زندہ رہا تو آپؓ کے لیے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا'' غلام یہ کہہ کر چلا گیا مگر حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا اس غلام نے ابھی ابھی مجھے دھمکی دی ہے......

چند دن گزر گئے اور اس عرصے میں ابو لولو نے ایک دودھاری خنجرحاصل کر لیا، جس کا دستہ بیچ میں تھا اور دونوں طرف بڑی تیز دھاروں سے پھل تھے اس کے بعد وہ نور کے تڑ کے مسجد میں آیا اور ایک سمت چھپ گیا یہ 26ویں ذوالحجہ 23ہجری بدھ کا دن تھاجب کہ عیسوی سال644 تھا...... حضرت عمر سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کاشانہ خلافت سے نکل کر مسجد پہنچے آپ کا معمول تھا کہ لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے تھے،آپ لوگوں کو جگاتے ہوئے جیسے ہی غلام ابو لولو کے نزدیک آئے وہ لعین آپ پر جھپٹا اور تیزی کے ساتھ آپ پر تیز دھار خنجر سے پے در پے وار کیے ،ایک وار پسلیوں کے نچلے حصے پر پڑا جس سے حضرت عمر فاروق ؓ کی آنتیں نکل پڑیں، اس کے بعد ابو لولو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا نمازیوں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی بہت سے لوگ اس لعین کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن ابو لولو نے کسی کا ہاتھ اپنے تک نہ پہنچے دیا اور دائیں بائیں خنجر کے وار کرنے لگا حتیٰ کہ بارہ آدمی زخمی ہو گئے جن میں ایک قول کے مطابق چھ اور دوسرے قول کے مطابق دو جانبر نہ ہو سکے، آخر ایک شخص پیچھے سے آیا اور اپنی چادر ڈال کر اسے زمین پر گرا دیا ،ابو لولو کو یقین ہو گیا کہ وہ اسی جگہ قتل کر دیا جائے گا چنانچہ جس خنجر سے اس نے حضرت عمر فاروق کو مجروح کیا تھا اسی خنجر سے اپنا کام بھی تمام کر لیا۔

جو وار حضرت عمر فاروق ؓ کے زیر ناف پڑا تھا چونکہ اس سے آنتیں کٹ گئی تھیںاس لیے وہ مہلک ثابت ہوا...... حضرت عمر فاروق زخم لگنے کے بعد کھڑے نہ رہ سکے اور اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو کھڑا کر دیا اورانھوں نے قرآن پاک کی دو مختصر ترین سورتوں سورۃ العصر اور سورۃ الکوثر کی تلاوت کرتے ہوئے لوگوں کو نماز پڑھائی......

جب حضرت عمر کی حالت میںوقتی طور پر افاقہ ہوا تو آپ نے پہلا سوال یہی کیا کہ کیا ''نماز پڑھائی گئی؟ '' اب حضرت عمر فاروق نے وضو کا پانی طلب کیا اور وضو کرنے بعد نماز ادا کی پھر فرمایا ابن عباس ! آپ جا کر معلوم کریں کہ مجھ پر قاتلانہ وارکس نے کیا ہے؟...

جب سیدنا عمر ابن الخطاب کو یہ بتلایاگیاکہ قاتلانہ حملہ مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لولو نے کیاہے توآپ نے بے ساختہ فرمایا اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میرا قاتل کوئی کلمہ گو نہیں ورنہ وہ اللہ کے سامنے اپنی سجدہ ریزی کو اس جرم سیاہ کی ڈھال بناتا ،کاشانہ خلافت میں سفر آخرت کی تیاری کے موقع پردیگر مسائل کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی حضرت عمر فاروق ؓ کے لیے حل طلب تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہو ؟

چنانچہ کچھ دیر سوچنے کے بعد آپ نے چھ شخصیات یعنی حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین) کومجلس مشاورت کے لیے نامزد کردیا......حضرت عمر فاروق کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے آقاﷺ اور اپنے رفیق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں دفن ہوں......

انھوں نے اپنے صاحبزادے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاکی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ان کو ادب سے سلام عرض کرنے کے بعد کہنا کہ عمر آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے، دیکھو امیرالمومنین نہ کہنا کیونکہ میں اب مسلمانوں کا امیرنہیں رہا پھر یہ کہنا کہ عمر درخواست گذار ہے کہ اسے اس کے آقا و مولی ختمی مرتبت احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ اور خلیفۃ الرسول اللہ حضرت صدیق اکبر کے پہلو میںدفن ہونے کی اجازت عطا فرما دیجیے،جب حضرت ابن عمر اپنے والد محترم کا پیغام لے کر حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔

حضرت عبداللہ ابن عمر نے سلام کے بعد عرض کیا کہ میرے والد عمر بن خطاب آپ سے اپنے دو محترم رفیقوں کے پہلوؤں میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا، اللہ گواہ ہے یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں حضرت عمر فاروق کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں...... جب حضرت عبداللہ واپس آئے تو حضرت عمر فاروق نے پوچھا کیاخبر لائے ہو؟ حضرت عبداللہ نے کہا باباجان جیساآپ چاہتے تھے ویسا ہی ہوا اور ام المومنین نے اجازت مرحمت فرمادی ہے ۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا الحمد للہ آج کے دن اس سے زیادہ کوئی خبربھی مجھے مطلوب نہ تھی اور پھر فرمایا کہ جب میری روح پرواز کرے تو میرا جنازہ لے کر حجرہ عائشہ تک لے جانا اور سلام عرض کرنے کے بعد پھر دریافت کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت طلب کرتا ہے اگر وہ اجازت دیں تو پھرمجھے اندر لے جانا اور اگر میرا جنازہ واپس کر دیں تو مجھے عام قبرستان میں لے جاکر دفن کردینا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ انھوں نے کہیں مجھے میرے اقتدار کی وجہ سے اجازت نہ دی ہو۔آپ کی میت کو غسل دینے کے بعد تین کپڑوں میں کفنایا گیا اور پھر مسجد میں لایا گیا جہاں حضرت صہیب رومی نے نماز جنازہ پڑھائی، اس کے بعد سیدنا عبداللہ ابن عمر نے کہا عمر بن خطاب ایک بار پھردفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ نے جواب دیا بے کھٹکے چلے آئو ...... لوگ رسول اللہ کے حجرے میں داخل ہوئے اور میت کو اس کی آخری آرام گاہ میں اتار دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا سر مبارک شانہ رسالت کے متوازی تھا۔ حضرت عمر فاروق کا سر مبارک شانہ صدیقی کے متوازی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے میت کو قبر میں رکھا، ان کے ساتھ پانچ اراکین شوریٰ حضرت عثمان غنی،حضرت علی بن ابی طالب،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت زبیر بن عوام بھی قبر میں اترے۔۔۔ ان حضرات نے میت کو قبر میں اتار کر قبر پاٹ دی،باقی حضرات بھی قریب ہی مسجد نبوی میں جمع تھے غم ان کے دلوں کی تہ میں اتر چکا تھا اور مایوسی نے ان کے حواس گم کر رکھے تھے۔

انھیں ایک ایسے شخص کی موت کا صدمہ کھائے جا رہا تھا جو لوگوں میں اپنی روشن مثال چھوڑ گیا۔آپ نے 10 برس6 مہینے اور4 دن خلافت کی ذمے داریاں سرانجام دیں اور آپ کے دور میں اسلامی ریاست کا کل رقبہ251030 مربع میل تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں