محنت کش ہی قتل ہوتے ہیں
کراچی کی محنت کش بستیوں سے کچرا اٹھانے کے نام پر غریب عوام سے کروڑوں روپے بٹورے جا رہے ہیں۔
صوبہ سندھ میں کوئلے کی کانوں میںزیادہ تر مزدور بھیل، کولہی اور میگھواڑ کام کرتے ہیں۔ یہ مزدور اگر اپنے مطالبات پیش کریں، مراعات یا سہولیات کی بات کریں توکوئی بھی الزام عائد کرکے پولیس سے ان مزدوروں پر تشدد کرایاجاتا ہے۔
گزشتہ جون میں تقریباً 12 مزدوروں کو قید کیا گیا اور گارڈز سے تشدد کرایا گیا، کئی مزدور زخمی ہوئے جنھیں اسپتال میں داخل بھی کیا گیا۔ ان میں سے ایک مزدور ماراگیا۔ کمپنی کے ٹارچر سیل اور مزدوروں پر وہاں کیے جانے والے تشدد کے بارے میں پولیس حکام آگاہ تھے۔
جب مزدوروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تو ان کے مطالبات پر غور کرنے کے بجائے پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کردیا اور متعدد مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اب حکومت نے اس زیادتی کے خلاف جب نوٹس لیا ہے تو چار سیکیورٹی گارڈز کو گرفتار کیا ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ حکام اصل افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائیں۔ ورنہ صرف سیکیورٹی گارڈز کو قربانی کا بکرا بنا کر مزدوروں پر تشدد جاری رکھنے کا عمل برقرار رہے گا۔ اس سے قبل ایک انجینئر ہریش کمار ہارٹ اٹیک جان سے جاتا رہا۔
کراچی کی محنت کش بستیوں سے کچرا اٹھانے کے نام پر غریب عوام سے کروڑوں روپے بٹورے جا رہے ہیں۔ بلدیہ وسطی میں ڈور ٹو ڈور گاربیج کلیکشن کے نام پر مبینہ طور پر کروڑوں روپے کا کھیل پھر سے شروع ہو گیا۔ این او سیز کے اجرا اور ماہانہ بنیادوں پر مبینہ بھاری مالی معاملات طے کیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے اس سے قبل اس اسکینڈل میں مبینہ ملوث سابق ڈائریکٹر سینی ٹیشن اور ڈپٹی ڈائریکٹر سینی ٹیشن سمیت اکاؤنٹ کو معطل کرکے انھیں ضلع بدر جب کہ اکاؤنٹ افسر کو نوکری سے برطرف کیا جاچکا ہے۔
شاہ فیصل کالونی نمبر3الفلاح ہاؤسنگ سوسائٹی، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن کے سامنے کچرا کنڈی بنا رکھا گیا ہے جب کہ یہاں سے باآسانی کچرے کو ہٹا کر کچھ فاصلے پر کچرا کنڈی تعمیر کرکے اسٹیشن پر آنے جانے والے راستے کو صاف کیا جاسکتا ہے اور علاقے کے مکینوں کو بھی اس غلاظت سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں کے مکین حکام کو درخواست بھی دے چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
اس طبقاتی نظام میں نہ صرف ریاستی جبر اور ریاست کے اندر طبقاتی استحصال تو ہے بلکہ عالمی طور پر سامراجی ممالک اور پسماندہ ممالک کے درمیان طبقاتی خلیج اور ناہمواری نظر آتی ہے۔ جیساکہ حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسی نیشن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ ممالک کے لیے اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ امریکا میں کووڈ 19 میں جو اموات ہو رہی ہیں ان میں سیاہ فاموں کی تعداد زیادہ ہے۔
امریکا میں روزانہ ایک لاکھ افراد کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں جب کہ اس وبا کے پھیلنے اور عوام کی اموات کے دوران 651 ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے بھی طبقاتی تفریق میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وبا پر دواساز کمپنیاں آلات بنانے والی کمپنیاں، اس سے منسلک کیمیائی کمپنیاں اور سرجیکل آلات بنانے والی کمپنیاں تیزی سے ارب پتیوںمیں اضافہ کر رہی ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں محنت کش بڑے پیمانے پر بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ان کے روزگار کا کوئی بند و بست ہے اور نہ کوئی فکر۔ کسی نے درست کہا ہے کہ جنگ اور وبا جتنا بھیانک ہوتی ہے اتنا ہی منافع بخش بھی ہوتا ہے۔
آج بھی لاکھوں کروڑوں لوگ جو جنگلوں میں یا کمیون میں رہتے ہیں وہ بھوکے نہیں مرتے۔ اس لیے کہ وسائل پر سب کا حق ہوتا ہے اور سب اپنی محنت سے پیداوار کرتے ہیں اور مل کر اشیا ضروریہ کو استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کے دس بڑے جنگلوں میں رہنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی کووڈ 19 نہیں ہوا۔ اس طبقاتی معاشرے کو ختم کرکے جب ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی امداد باہمی کا سماج قائم ہوگا تو ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج دنیا کے بہت سے علاقوں خطوں اور ملکوں میں کمیون نظام نافذ ہیں جو اپنی مدد آپ ہی جی رہے ہیں اور وہ جبر سے مبرا ہیں۔
ہر قسم کی جبر اور پابندیوں سے آزاد ہیں، اگر کوئی جبر ہے تو وہ جبر عنقا ہے۔ جسے انھوں نے خود اپنے پر لاگو کیا ہوا ہے۔ آج ریاستیں اپنی توسیع پسندانہ عزائم کے لیے ایک دوسرے سے جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ اس سے سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافہ تو ہوا ہے مگر پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام تمام حقوق سے محروم ہیں اور مزید ہوتے جائیں گے، اس لیے اس طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل نظام قائم کرنا ہوگا۔