ایک ارب نہیں صرف ایک درخت
ایک ارب درخت لگانے کا ہدف موجودہ حکومت کا ضرور ہے، لیکن اس کی تکمیل ہمارے ایک درخت لگانے سے ہی ممکن ہے
درخت اور پودے انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ (فوٹو: فائل)
BERLIN:
میں گزشتہ دو دہائیوں سے درخت لگانے کا کام ایک فرض سمجھ کر کررہا ہوں۔ ان 20 برسوں میں تقریباً میں نے 200 سے زائد درخت لگانے کی کوشش کی، مگر ان 200 درختوں میں سے کم وبیش 20 درختوں کو ہی بچا سکا۔ لیکن میں جب بھی ان درختوں کے قریب جاتا ہوں تو یقین کیجیے مجھے لگتا ہے کہ یہ درخت مجھ سے میرے دوستوں کی طرح باتیں کررہے ہیں۔ یہ بات کتابی نہیں ہے بلکہ میری تائید وہ تمام لوگ کریں گے جن کا مشغلہ باغبانی ہے۔
درخت لگانے کا شوق مجھ میں آج سے تقریباً 20 سال پہلے اس وقت زیادہ پیدا ہوا جب میں اپنے گھر کی تعمیر میں مصروف تھا۔ مئی کی کڑی دھوپ میں جب میرے لیے درجہ حرارت کی شدت میری برداشت سے باہر ہوجاتی تھی تب میرے پلاٹ کے کچھ فاصلے پر ایک درخت مجھے پناہ دیتا تھا اور میرے لیے اس وقت وہ ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔
جب بھی گرمیوں کا موسم عروج پر آتا ہے تو کراچی، ملتان، نواب شاہ، سبّی... درجہ حرارت کے باعث خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ کبھی بحیثیت قوم ہم نے ان مسائل کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کی ہوں۔ ہم اپنی زیادہ تر مشکلات کا حل صرف حکومت سے چاہتے ہیں، جبکہ بحیثیت قوم اگر ہم کچھ سنجیدہ کوششیں اپنے گلی محلوں کو صاف ستھرا اور سرسبز و شاداب کرنے میں لگادیں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر پاکستان دے سکتے ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی تازہ رپورٹ کے مطابق 1880 سے لے کر آج تک کرۂ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور ہر سال گزشتہ برس کے ریکارڈ توڑ رہا ہے، جس کے نتائج ہم جنگلی حیاتیات کی نسل کشی اور بنیادی وسائل (خوراک، پانی) کی کمی کی صورت میں ہر آنے والے دنوں میں شدت سے دیکھ رہے ہیں۔
میرے نزدیک درخت زندگی کی علامت اور اہم قومی دولت ہیں اور ان کی نشوونما اور دیکھ بھال انسان کی فطرت سے قربت کو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم درخت نہ لگا کر اور لگے ہوئے درختوں کی حفاظت نہ کرکے اس قومی دولت میں بھی کرپشن کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنگلات کے رقبہ کے حوالے سے 143 ممالک کی لسٹ میں 113 نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان میں جنگلات تقریباً 5 فیصد رقبے پر موجود ہیں، جبکہ اگر ہم فن لینڈ، جاپان اور امریکا کو دیکھیں تو یہ تعداد تقریباً بالترتیب 73 فیصد، 63 فیصد اور 34 فیصد بنتی ہے، جبکہ یہی تعداد اس خطے کے دوسرے ممالک یعنی بھوٹان، انڈونیشیا، انڈیا، چائنا اور بنگلادیش میں دیکھتے ہیں تو یہاں پر بالترتیب 71 فیصد، 50 فیصد، 24 فیصد، 23 فیصد اور 14 فیصد کے رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔
ہمارے ملک میں جنگلات پہلے ہی بہت کم رقبے پر موجود ہیں اور اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ ٹمبر اور لینڈ مافیا نے جس بے دردی سے ہمارے جنگلات کو نقصان پہنچایا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر جس طرح زرعی زمینوں کو برباد کیا گیا ہے، وہ ایک علیحدہ مکمل موضوع ہے۔ میری دانست میں اب وقت آگیا ہے کہ شہروں میں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر پابندی لگا دینی چاہیے اور جن افراد یا اداروں نے زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر لی ہیں ان کو تین سال تک مزید ٹائم دیا جائے کہ وہ یا تو لوگوں کو آباد کریں یا پھر ان کی زمین کی الاٹمنٹ کینسل کی جائے۔ مزید یہ کہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پابند کیا جائے کہ وہ متعین شدہ جگہ پر پارک کی تزئین و آرائش کا انتظام کریں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کو ایک ایسا کاروبار بنا دیا گیا ہے جس نے اب ایک مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہمارے ملک میں اب ایسے قانون اور ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے جس کے تحت سرسبز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹی میں تبدیل کرنا ناممکن بنادیا جائے اور اگر بہت مجبوری ہو تو سوسائٹی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ سوسائٹی کے رقبے کے برابر شہری جنگل (Urban Forest) بھی لگائیں۔
کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں لیکن بدقسمتی سے صرف کاغذوں کی حد تک۔ پچھلے کئی سال سے ہم گندم، چینی اور روئی امپورٹ کررہے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بالخصوص کراچی میں گرمی کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی کمی اور مزید نئے درخت نہ لگانا ہے۔ یہ تمام باتیں جو اس تحریر کا حصہ ہیں شاید ہم سب کو معلوم ہیں لیکن انفرادی اور اجتماعی غیر ذمے داری نے ہمیں بے حس بنادیا ہے۔
اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو گرمی کی شدت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹاک شوز اور کانفرنسز کے بجائے عملی طور پر آگے بڑھ کو شجرکاری کو اپنی زندگی کاحصہ بنانا ہوگا۔ مزید یہ کہ ہمیں اپنی پانی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ چھوٹے چھوٹے ڈیمز کے کلچر کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم اپنے ملک کو ریگستان بننے سے بچا سکیں۔
درختوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ جو کردار ہمارے جسم میں پھیپھڑوں کا ہے بالکل یہی کردار ہماری زمین پر درختوں کا ہے۔ یہ ہمیں آکسیجن مہیا کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ درخت نہ لگا کر ہم سب جرم کے مرتکب ہورہے ہیں اور آنے والی نسلوں کےلیے یہ ماحول دشمن ملک تیار کر رہے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائیں، آمین۔
درخت لگانے کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت محمدؐ نے فرمایا:
''جب کوئی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی کاشت کرتا ہے اور اس میں سے پرندہ یا انسان یا کوئی چوپایا یہ کھاتا ہے تو اس (کاشتکار) کےلیے اس میں صدقہ دینے کے برابر ثواب ہوتا ہے۔'' (صحیح بخاری حدیث نمبر 1071)
ہمیں آج طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کےلیے ماحول دوست ملک یا پھر ماحول دشمن ملک دینا چاہتے ہیں۔ یہ جنگ میری اور آپ کی ہے اور ہمیں خود لڑنا ہے۔ اگر ہم حکومتی اداروں سے امید رکھیں گے کہ وہ کچھ کریں تو یہ ہماری نادانی ہوگی، کیونکہ ان کے پاس اس وقت شاید یہ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
آج پوری دنیا میں اس بات کا ادراک موجود ہے کہ جہاں اس تیز رفتار ترقی نے ہماری زندگیوں کو بہتر کیا ہے وہیں آلودگی کا زہر آہستہ آہستہ کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ درخت اور پودے انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ آئیے ہم سب آگے بڑھیں۔ کم از کم ایک پودا، صرف ایک پودا اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں کے آس پاس یا سڑکوں کے قریب خالی جگہوں پر لگائیں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر بنائیں۔
ایک ارب درخت لگانے کا ہدف ہماری موجودہ حکومت کا ضرور ہے، لیکن اس کی تکمیل آپ کے ایک درخت لگانے سے ہی ممکن ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔