ممتاز شاعر رحمت عزیز چترالی کی شاعری پر ایک نظر
سماجی رہنما کی حیثیت سے بھی انھوں نے بے لوث خدمات انجام دیں، نہ صلہ کی پرواہ نہ ستائش کی تمنا۔
لاہور:
صاحب علم و فن رحمت عزیز چترالی بہت سی خوبیوں سے آراستہ ہیں، وہ ادب کی کئی جہتوں پر اپنے قلم کا جادو جگا چکے ہیں، انھوں نے شعر و سخن کے حوالے سے لازوال کام کیا ہے، وہ مترجم و محقق کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں، فنون لطیفہ پر تو طبع آزمائی کی ہی ہے ،اس کے ساتھ سائنسی علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔
میرا ان سے اس وقت تعارف ہوا جب انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ''گلستان مصطفی'' پڑھنے کا موقعہ فراہم کیا، رحمت چترالی صاحب کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے انھیں رسول پاکؐ کی مدح کرنے کی توفیق عطا کی، یہ وصف تو اللہ اسی کو عطا کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول خاتم النبین، شفیع المذنبین کی محبت میں سرشار ہوتا ہے اور حدیث پاک کے مطابق اپنی ہر چیز سے زیادہ اسے اپنے پیارے نبی آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی عزیز ہو، وہ ان پر جان قربان کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتا ہو، رحمت عزیز کے دل مضطر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عقیدت کے چراغ روشن ہیں اور وہ روحانی طور پر خوشی سے جھوم کر نعتیہ کلام تخلیق کر رہے ہیں، انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کریمی کی تاریخ رقم کی ہے۔
رحمت عزیز نے اپنی مادری زبان کھوار میں شاعری کی ہے، کھوار نعمتوں کا مجموعہ 2015 میں شایع ہوا تھا، جس میں ان کی پاکیزہ و متبرک شاعری جس کا خمیر عقیدت و الفت کی خوشبو سے اٹھا تھا اور اس کی مہک دور دور تک پھیلی تھی، تصنع و بناوٹ اور ریاکاری سے بچنے والوں کو اللہ دین و دنیا میں عزت و وقار عطا کرتا ہے، اسی وجہ سے 2016 میں وزارت مذہبی امور حکمت پاکستان کی طرف سے ''گلستان مصطفی'' میں شامل نعتوں کے گلدستے پر سیرت النبیؐ ایوارڈ اور سند سے نوازا گیا۔
رحمت عزیز چترالی نے گزشتہ 5سال کے بعد کھوار نعتیہ کلام کو اردو کے قالب میں اس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ منتقل کیا ہے کہ قاری اس کے حسن و جمال اور لذت بے مثال کو اپنے دل میں اترتا محسوس کرتا ہے، ندرت بیان اور سطوت الفاظ اور معنی آفرینی کا طلسم جوں کا توں برقرار رہتا ہے، ہر لفظ آپؐ کے معجزات اور سیرت پاکؐ سے مہک رہا ہے مترجم کی یہی خوبی کلام کی وقعت اور اہمیت کی مظہر ہے اور اردو شاعری کے قارئین کے لیے رحمت صاحب کی شاعری سکون قلب اور ایمان کی تازگی کا باعث ہوگی۔ انشاء اللہ
نمونے کے طور پر چند شعر۔
شہد مصطفی ؐ مہ پونشار و گوئین
مدینہ کو چالی مہ کو سار و گوئن
ترجمہ: محمد مصطفیؐ کے شہر کو دیکھنے کی خواہش دل میں لیے گھوم رہا ہوں اور مدینہ منورہ کی۔
احمد مجتبیٰ اسور اسبہ نبیؐ
محمد مصطفی اسور اسبہ نبیؐ
ترجمہ: ہمارے نبی احمد مجتبیٰؐ ہیں، ہمارے نبی محمد مصطفی ہیں۔
اپنی شاعری کے ذریعے ان حقائق سے بھی روشناس کرانے کا اپنا خصوصی انداز سخن اپنایا ہے کہ ہمارے نبی ہی خاتم الانبیا ہیں، اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور وہ امام الانبیا بھی ہیں، شفاعت کی امید اور حوض کوثر پر آپؐ کے دست مبارک سے پانی پینے کی خواہش، شاعر کو بے چین رکھتی ہے، ایک سچے مسلمان کی یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ اسے دین و دنیا میں سرخرو رکھے اور اللہ نے فرما دیا ہے کہ تم جیسا گمان مجھ سے رکھو گے، ویسا ہی پاؤ گے، اللہ تعالیٰ رحمت عزیز سمیت تمام مسلمانوں کو بامراد کرے،انھوں نے نعت کے ذریعے نبی پاکؐ سے اپنی محبت اور جذبات کا اظہار جس خوبصورت اندا ز سے کیا ہے وہ یقینا قابل تعریف ہے۔
الفاظ کی ادائیگی اتنی پر اثر ہے کہ نعت پڑھتے ہوئے قاری پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور اسے جو سرور حاصل ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل امر ہے۔رحمت عزیز نے بہت سارا وقت شعر و سخن کی آبیاری میں گزارا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی شعری مجموعے گلستان شاعری میں اضافے کا باعث بنے ہیں، گلدستہ رحمت، گلدانِ رحمت، گلرح اور'' گلشن کھوار'' ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سماجی رہنما کی حیثیت سے بھی انھوں نے بے لوث خدمات انجام دیں، نہ صلہ کی پرواہ نہ ستائش کی تمنا، اسی جذبے کے تحت کھوار کی اولین کلیدتی تختی جسے کی بورڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے ایجاد کیا۔
انھوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کا بہت سا کلام کھوار زبان میں ترجمہ کیا تاکہ کھوار کے قلم کار اور دانشور علامہ اقبال کی انقلابی شاعری اور ''خودی'' کے متن سے واقف ہوسکیں انھوں نے محض ترجمہ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ضخیم کتاب ''گل افشانیات'' کے عنوان سے لکھنے اور شایع کرانے کا اہم کام بھی انجام دیا۔ان کی سائنسی و قومی خدمات کے نتیجے میں نظریہ پاکستان کونسل نے گولڈ میڈل 2015 تفویض کیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے ان کے تحقیقی، سائنسی اور شعری کاوشوں پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔