مستحکم افغانستان کیلئے طالبان کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا

افغانستان میں ایک اور سپر پاور کو شکست... تا ریخ خود کو دہرا رہی ہے


سابق سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال

امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں افغان طالبان کا بغیر کسی لڑائی اور خونریزی کے تیزی سے کنٹرول حاصل کرنا غیر معمولی ہے۔

افغانستان ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور خصوصاََ اس خطے میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے منظر نامے کے بارے میں جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سابق سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

سید حسن جاوید
(سینئر سفارتکار )

افغانستان میں پچاس سال کاخلفشار ہے جو اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ 1974 ء کے بعد سے وہاں مختلف حکومتیں آئیں، روسی مداخلت ہوئی، ایسے دور میں امریکا اور مغرب نے مل کر سوویت یونین کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ 1986ء میں سوویت یونین کی واپسی ہوئی اور افغانستا ن کی کمان جنگجوؤں کے قبضے میں آگئی۔

احمد شاہ مسعود،گلبدین حکمت یار کادور آیا اور انہوں نے افغانستان کی بہتری کے لئے جدوجہد کی۔ 1996ء میں افغانستا ن کے اندر طالبا ن آئے اورملک کے 95فیصد حصے پر قابض ہوگئے۔ 2001ء میں امریکی ورلڈ ٹریڈسنٹر کو نشانہ بنایاگیا اورذمہ دار القاعدہ اور طالبان کو قرار دیدیاگیا۔جس کے بعد طالبان کو ہٹانے کی تحریک شروع ہوئی اورایک جمہوری سیٹ اپ لانے کی کوشش کی گئی۔ امریکا،ایساف ،نیٹو سمیت 46حواریوں نے اپنے فوجی افغانستان میں اتار دیے اور جدید اسلحہ اوربمباری سے افغانستا ن کی بیشتر آبادی ملیہ میٹ کردی اورافغانستان کو کھنڈر بنادیاگیا۔

افغانستان میں ڈیزی کٹر بم گرائے گئے اور طالبان ،القاعدہ کو کچلنے کے لئے جنگ جاری رہی۔ اس کے بعد ''بون معاہدہ '' ہوا جس میں بہت ساری غلطیاں ہوئیں یا پھر دانستہ طور پر کی گئیں جس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا۔ افغانستان میں پشتونوں کی آبادی نصف ہے لیکن اس کے باوجودانہیں اقتدار سے علیحدہ کردیاگیا۔ غیر پشتون ، شمالی اتحاد، تاجک، ہزارہ اور ازبک آبادیوں کو اقتدار دے دیاگیا۔ میرے نزدیک ''بون معاہدہ '' بدنیتی پر مبنی تھا۔ اقلیتی وارلارڈز حکومت چلانے لگے اور دن بدن حالات بگڑتے گئے۔

اس وقت اہم یہ ہے کہ اب کیاہوگا اورجو ہورہاہے اس کو سمجھنا ہوگا۔ تاریخ کروٹ لے رہی ہے۔ 100 سال بعد تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ 1919ء میں برطانیہ کو افغانستا ن میں شکست ہوئی اورسپرپاور کا بھرم ٹوٹ گیا۔

1989ء میں روس نے وہی غلطی کی اوراپنی قسمت آزمائی کی۔ کچھ افغانیوں کو روس نے ساتھ ملا کرانقلاب لانے کادعوی کیا۔ ایک لیڈر کی ناکامی کے بعد دوسر ا لیڈر ناکام ہوا۔ ایک مرتبہ پھر سپرپاور کو شکست ہوئی۔ پھر امریکا ، برطانیہ ، فرانس سمیت 46 ممالک کے حواری تمام وسائل کے ساتھ افغانستان کوماڈرن بنانے کے چکر میں نمودار ہوئے اور مغرب کا نظام لانے کی کوشش کی جو 20سال میں لوگوں کی سوچ بدلنے میں ناکام رہے۔ ہر مغربی ملک کی اب یہ کوشش تھی کہ افغانستان سے نکلاجائے اور یہاں پرخانہ جنگ شروع کرائی جائے۔

امریکا سمیت ان اتحادیوں نے افغانستان سے نکلنے کی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ پلان کچھ اور تھا اور جلدی میں ساری تھیوری ناکام ہوگئی۔ ان ممالک کی خواہش تھی کہ پاکستان میں مہاجرین کا ریلہ آئے گا اورمہاجرین کی آڑ میں بہت سارے اورلوگ بھی پاکستان آجائیں گے اورپاکستان مشکلات سے دوچارہوجائے۔ ہم ان مشکل حالات سے بچ گئے ہیں۔ کابل میں کوئی خون ریزی نہیں ہوئی لہٰذا اب ان طاقتوں کی ساری منصوبہ بندی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان نے معاشی مشکلات کے باوجود بارڈ ر پر باڑ لگانے کاکام مکمل کرکے اچھا کیا۔

اداروں نے دن رات محنت کرکے پاکستان کو محفوظ بنایااور اب افغانستا ن میں ایک مرتبہ پھر اقتدارکی منتقلی ہورہی ہے۔مغربی طاقتوں کو چاہیے کہ اس خطے خاص طور پر افغان عوام سے معافی مانگیں۔ 10 لاکھ سویلین آبادی 20سال میں ماری گئی جو افسوسناک ہے۔ یہاں جو وسائل لگانے کے دعوے کئے گئے تھے وہ نہیں لگے اب باہر بیٹھ کر افغانستان کی تعمیر نومیں مدد کریں۔جس قوم نے 50سال امتحان میں گزارا ہواس کی مدد کی جانی چاہیے۔ افغانستا ن میں ترقی پسند قوتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنا ہوگا۔

افغان طالبان نے اس سارے عمل میں خود کو سمارٹ انٹیلی جنٹ ثابت کیاہے۔ افغانستان میں امریکا و اتحادیوں کی جانب سے20 سال میں تین ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے ،فوج بنائی گئی، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی مگر سب زیرو ہوگیا۔ افغانستان کی تازہ صورتحال کے بعد چین ، ر وس، ایران ، پاکستان اورترکی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور خاص طورپر چین، سی پیک منصوبے کے ساتھ لیڈنگ کردار ادا کر رہا ہے۔ پچاس سال جوکھیل کھیلا گیا اب وہ بند ہوجانا چاہیے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ چین اور روس اس میں مرکزی کردار اداکریں گے۔

دوسرے کسی ملک کو افغانستان کے خلاف کام نہ کرنے دیں۔ طالبان کادوبارہ آجاناایک نئی روایت ہے، اس کی ویت نام سے مماثلت ہے۔ 100 سال بعد تاریخ بدل رہی ہے لہٰذا اب پہلے کی طرح کام نہیں چلے گا۔نئی سوچ سے کام کرنا ہوگا۔ بدعنوان حکومتیں ختم ہورہی ہیں، یہاں کانظام بھی تبدیل ہوگا جو مغربی ممالک نے قائم کیا تھا۔ اس تبدیلی کے اثرات پورے خطے پر ہوں گے اور یہ اثرات کشمیر پر بھی آئیں گے، بھارت کو اپنی غلطی کااحساس ہوگا۔ بھارت، امریکا اور روس سے زیادہ مضبوط نہیںہے۔ 46 ممالک کو شکست ہوئی۔

مسلمانوں پر ظلم کاپہاڑ توڑا گیا، ان کی اپنی عوام ان معصوم جانوں کے ضیاع پر سوال اٹھائیں گے۔ میرے نزدیک دیوار سے پہلی اینٹ ہٹ گئی ہے لہٰذا اب یہ دیوار گر جائے گی۔چین ایک نئی طاقت سے ابھرے گا اور جولوگ ابھی تک نہیں دیکھ رہے وہ عنقریب دیکھیں گے۔

جنرل (ر) امجد شعیب

(سینئر تجزیہ کار )

طالبان میں اب پہلی جنریشن کے لوگ کم ہیں بلکہ زیادہ تر افراد کا تعلق دوسری جنریشن سے ہے۔ اگر ان کے ڈسپلن کو دیکھا جائے تو افغانستان میں چوریاں کی گئیں ، نہ لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا اور نہ ہی خواتین کے حوالے سے کوئی مسائل سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں کھلبلی اور مخالفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ ان کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے، بصورت دیگر جو بھی حکومت بنے گی، اس کی رٹ پورے افغانستان میں قائم نہیں ہو گی۔

اب طالبان بھی ایسا کر رہے ہیں کہ وہ عبوری حکومت بنا رہے ہیں۔ چونکہ عارضی ہو گی لہٰذا اس میں شورش اٹھنے کا زیادہ امکان نہیں ہے لیکن یہی وہ وقت ہو گا جب طالبان سب کو انگیج کریں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج طالبان اس پوزیشن میں ہیںکہ جس میں وہ دوسروں کی جو باتیں مانیں وہ ان کی مہربانی ہو گی وگرنہ طاقتور ہمیشہ اپنے ہی مطالبات منواتے ہیں۔ امید ہے طالبان سب کو آن بورڈ رکھیں گے اور اگر ایسا ہی ہوا تو پھر دنیا اس حکومت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ پورے افغانستان کی تائید ہو گی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر کہیں نہ کہیں شورش برپا ہوتی رہے گی جس کو آلہ کار بنا کر کوئی نہ کوئی قوت وہاں پراکسی وار کرے گی۔

آصف درانی

(سینئر سفارتکار)

افغانستان میں صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ طالبان نے تقریباً پورے افغانستا ن پر کنٹرول سنبھال لیاہے۔و ہاں پرامن طور پر انتقال اقتدار ہوا تاہم کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کابل کی گلیوں میں خونریزی ہوگی اور مستقبل کے بارے میں بہتر ساسی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ خون خرابہ ہوگیا۔ بہت سارے ماہرین یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ گولی چلے بغیر کابل پر کنٹرول ہوجائے گا ۔ کسی صوبے میں مزاحمت نہیں ہوئی، البتہ اکادکا واقعات کے علاوہ ہر جگہ پر سرینڈر ہوا۔ طالبا ن کا رویہ بدلا ہوا ہے اور جو سٹیک ہولڈر رہے ہیں۔

ان کو بھی یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ پہلے والے طالبا ن نہیں ہیں۔ بازاروں میں عورتوں کو پردہ کرانے کی بات نئی نہیں ہے بلکہ یہ پٹھان قوم کاکلچر ہے۔ ہمارے قبائیلی علاقوں میں بھی ایسا ہی ہوتاہے لہٰذا اس کلچر کو طالبان کی سیاست سے نہیں ملانا چاہیے۔نئی افغان حکومت ہماری ہمسایہ ہے اور اگروہاں گڑ بڑ ہوتی ہے تواس کے اثرات یہاں تک بھی پہنچیں گے۔دنیاکو حقائق تسلیم کرنا ہونگے اور پسماندہ افغانستان کو ترقی کی راہ پرگامزن کرناہوگا۔

جمیل احمدخان

(سینئر سفارتکار)

دنیامیں یہ بات زبان زدعام ہے کہ امریکا کو افغانستان میں شکست فاش ہوگئی ہے۔ بے شک سطحی طور پر ایساہی دکھائی دیتاہے کہ امریکا کو شکست ہوگئی ہے لیکن اوراس کے کچھ محرکات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیاامریکہ میں ان کے تھنک ٹینک ، اسٹیبلشمنٹ ،ان کی تمام حکومتی مشینری کواس کاادراک نہیں تھا ؟ اگر ویت نام سے اس کا موازنہ کیا جائے تو اس میں مماثلت ہے جودرست ہے۔ 29 فروری 2020ء کو دوحا معاہدہ ہوا۔ امریکا نے تو ویسے بھی صدر ٹرمپ کے دورمیں اعلان کردیا تھا لیکن جوبائیڈن نے اس میں تاخیر کی۔

11 ستمبر کوامریکا نے افغانستان سے انخلاء کرناتھا مگر انہوں نے 25دن پہلے ہی انخلاء کردیا جس کے بعد افغانستان میں طالبان کو کنٹرول حاصل ہوا۔ خاص طور پر کابل میں جس کی امریکا کو امید نہیں تھی۔ امریکا کو افغانستان میں مزید بیس سال بھی کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ امریکا اب تک وہاں 2ٹریلین ڈالر خرچ کرچکاہے۔

اس وقت امریکا کی معاشی حالت مخدوش ہے لہٰذا وہ افغانستان میں مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے موقع پر خاص طور پر جب صدر ٹرمپ نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی صورت بھی چین کو آگے بڑھتاہوا نہیں دیکھ سکتے ہم مقابلہ کریں گے، اس معاملے پر چین کی امریکہ کے ساتھ چپقلش ہوگئی اور زمین اورفضاؤں میں نئی صف بندیاں شروع ہوگئیں۔ اسرائیل ، بھارت، امریکا اتحادی بن گئے ہیں۔اس کے ساتھ چین، روس ، پاکستان اورترکی کی بھی ایک نئی صف بندی ہوگئی۔

امریکا سوچ رہاتھا کہ افغانستان سے نکل کر ایک تیر سے دوشکار کرے گا اور افغانستا ن میں اتنااسلحہ چھوڑ کر آجائے تاکہ یہاں برس ہابرس لڑائی جھگڑ اجاری رہے۔ اس کے اثرات اس کے پڑوسی ممالک پاکستان ، ایران اورچین پر پڑیں گے جس سے ان ممالک میں عدم استحکام کی صورت پیدا ہوگی۔ امریکا بھارت کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کامقصد بنیادی طور پر سی پیک کو سبوتاژکرنا اوراس کونقصان پہنچانا ہے لیکن طالبان اس مرتبہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کر رہے ہیں جس میں سیاسی ، داخلی اور خارجی اپروچ کو بہتر بنایا گیا ہے۔

طالبان نے افغانستان میں ناردرن صوبوں سے اپنے کنٹرول کاآغاز کیااور بڑی حکمت عملی کے تحت بغیر گولی چلائے افغانستان کاکنٹرول حاصل کرلیا ہے اور پورے افغانستان میں چالیس افراد ہسپتالوں میں کسی اوروجہ سے زخمی ہوکر داخل ہوئے ہیں۔

پاکستان کو اس بات کا ادراک ہوناچاہیے کہ اسے آئندہ آنے والے دنوں میں کچھ چیلنجز کاسامنا کرنا پڑے گا جس سے اس مکتبہ فکر لوگ جوپاکستان میں موجود ہیں کو تقویت ملے گی اوراس سلسلے میں بھارت بھی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں رہے گا۔ اس حوالے سے بھارت اور اس کے حمایتی پاکستان کو دنیا میں تنہائی کاشکارکرنے کی کوشش کریں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو مالی مشکلات کاشکار کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں