سانحہ مستونگ اور بگٹی مہاجرین کا دھرنا

صوبے میں حکومت کی رٹ نہیں ہے اگر حکومتی رٹ ہوتی تو سانحہ مستونگ پیش نہ آتا۔، سردار اختر جان مینگل


رضا الرحمٰن January 29, 2014
غیر منتخب نمائندوں کی تجاویز کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کیا گیا۔ البتہ جہاں پر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن ہوئی ہے وہاں تحقیقات ضرور ہوگی، ڈاکٹر عبد المالک بلوچ فوٹو: اے پی پی/ فائل

سانحہ مستونگ میں تقریباً خودکش حملے کے دوران 28 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

ہزارہ برادری نے شدید سردی میں میتوں کے ساتھ دو دن دھرنا دیئے رکھا اوروفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار جنہیں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اس حوالے سے کوئٹہ بھیجا تھا سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا۔ مذاکرات کے دوران وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے دھرنے کے شرکاء کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ہزارہ قوم کے تحفظ کیلئے تمام اقدامات کئے جائیں گے اور ان کے اس مطالبے پر بھی عمل کیا جائے گا کہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ کی اس یقین دہانی کے بعد ہزارہ برادری نے نہ صرف دھرنا ختم کیا بلکہ میتوں کو بھی دفنا دیا ۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی دھرنے کے پہلے روز ہی شرکاء سے مذاکرات کئے اور ان سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی تاہم دھرنے کے شرکاء نے وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے باوجود دھرنا ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

دھرنے کے شرکاء اور ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ زائرین کے تحفظ کیلئے کراچی تا چاربہار تک فیری سروس شروع کی جائے گی، صوبے میں قیام امن کیلئے وہ وفاق سے مکمل رابطے میں ہیں اور اس سلسلے میں مشاورتی عمل جاری ہے۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے قائد سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ صوبے میں حکومت کی رٹ نہیں ہے اگر حکومتی رٹ ہوتی تو سانحہ مستونگ پیش نہ آتا۔ ایسے دلخراش واقعات بلوچستان کی روایات کے برعکس ہیں اُنہوں نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی۔

اپوزیشن جماعت نے صوبائی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت عوام دُشمن ہے جمعیت علماء اسلام کسی صورت میں بھی اس حکومت میں شامل نہیں ہوگی اور حکومتی رویئے کے خلاف اپوزیشن رواں سیشن کے دوران کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ بلاک لوکیشن کے فنڈز جاری کرنے کیلئے اراکین اسمبلی سے مانگی گئی ترقیاتی سکیموں کی تجاویز میں ہمارے حلقے کے منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرکے غیر منتخب لوگوں سے تجاویز طلب کی جارہی ہیں، حکومت کے اس غیر جمہوری رویئے پر ہم شدید احتجاج کرتے ہیں جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان اسمبلی کے جاری اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ بعد ازاں اپوزیشن چیمبر میں اپوزیشن جماعت کے اراکین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت کے اس غیر جمہوری رویئے کے خلاف وہ بلوچستان اسمبلی کے رواں سیشن میں شرکت نہیں کریں گے۔ اپوزیشن جماعت نے موجودہ صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اسے سانحہ مستونگ پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔

اپوزیشن جماعت کے واک آؤٹ اور حکومت پر تنقید کے جواب میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتی ترقیاتی سکیموں میں غیر منتخب لوگوں سے تجاویز لینے کے بارے میں اپوزیشن کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ غیر منتخب نمائندوں کی تجاویز کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کیا گیا۔ البتہ جہاں پر ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن ہوئی ہے وہاں تحقیقات ضرور ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بارے میں سابقہ اور موجودہ حکومت کے رویئے میں فرق ہے مجالس قائمہ کی کمیٹیوں کی تشکیل کے حوالے سے تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔



سینئر صوبائی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اﷲ زہری اس وقت صوبے سے باہر ہیں جیسے ہی وہ واپس آئیں گے کمیٹیوں سے متعلق معاملات طے کر لئے جائیں گے اور اگلے اجلاس میں کمیٹیوں کی منظوری لی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ستر فیصد جاری ترقیاتی سکیمیں اپوزیشن کی ہیں اور یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے غیر منتخب نمائندوں کی تجاویز کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا ہے اپوزیشن دور کے پچاس کروڑ سے لے کر گیارہ ارب روپے تک کی جاری سکیموں کو فنڈز فراہم کردیئے ہیں، البتہ یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ جہاں گڑ بڑ ہوئی اس پر کام روک دیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن سکیموں میں غبن ہوا ہے ان کی تحقیقات بے حد ضروری ہے۔

دوسری جانب بلوچستان اسمبلی نے اپنے رواں اجلاس کے دوران مادری زبان کا پرائمری سطح کی تعلیم میں لازمی اضافی مضمون کے طور پر رائج کرنے کا مسودہ قانون 2014ء منظور کر لیا ہے۔ اجلاس میں بلوچستان فوڈ اتھارٹی، بلوچستان لازمی تعلیم کا مسودہ قانون سمیت گھریلو تشدد سے روک تھام اور حفاظت کے مسودے بھی پیش کئے گئے۔ اجلاس میں سبی، ہرنائی اور بوستان ریلوے لائن کی تعمیر و مرمت کیلئے فنڈز فراہم کرنے سمیت کوئٹہ چمن شاہراہ کی تعمیر جلد مکمل کرنے کی مشترکہ قرار داد بھی اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔

سیاسی حلقوں کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران بلوچستان اسمبلی میں مجالس قائمہ کی تشکیل نہ ہوسکی جبکہ اس سے قبل بھی سابقہ ادوار میں مجالس قائمہ کی تشکیل کا معاملہ کھٹائی میں رہا موجودہ صوبائی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ جلد سے جلد باہمی مشاورت کے بعد بلوچستان اسمبلی میں مجالس قائمہ کی تشکیل کے مرحلے کو بھی مکمل کر لے گی اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ کی یقین دہانی سے اس بات کی نوید ملتی ہے کہ سابقہ ادوار میں مجالس قائمہ کی تشکیل کا معاملہ اس لئے کھٹائی میں رہا کہ ان ادوار کی اپوزیشن جماعتیں اور حکومتی اتحادی جماعتیں چیئرمین شپ پر اتفاق نہ کر پائیں جس کی وجہ سے یہ معاملہ کھٹائی میں ہی رہا، گو کہ موجودہ حکومت کیلئے مجالس قائمہ کی تشکیل کا مرحلہ بھی انتہائی مشکل کام ہے تاہم موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس حوالے سے پر اُمید ہیں کیونکہ وہ اپنے کچھ لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتی ہیں۔

دوسری جانب کشمور کے قریب ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ ملنے پر نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی قیادت میں دھرنا جاری ہے دھرنے کے باعث کشمور کے شہریوں کو مشکلات کا سامنا تھا جس پر پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ موقع پر پہنچے اور نوابزادہ شاہ زین بگٹی سے ملاقات کی جس میں طے پایا کہ دھرنے کے شرکاء دھرنے کا مقام تبدیل کردیں گے اس موقع پر نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ہماری وجہ سے کشمور کے شہریوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ دریں اثناء ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ ملنے پر نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے تاہم ان کا دھرنا اس سلسلے میں جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں