حصولِ علم شرفِ انساں

’’اﷲ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بے شک! اﷲ غالب اور بخشنے ولا ہے۔‘‘


’’اﷲ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بے شک! اﷲ غالب اور بخشنے ولا ہے۔‘‘ فوٹو: فائل

اﷲ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے، جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا۔

یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزر رہا تھا، جب کہ دیگر مخلوقات کو اﷲ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسلؑ کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔

اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیوں کہ سرور ِکائنات ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میں تھی۔ اﷲ رب العالمین نے سب سے پہلے آپ ﷺ کو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بل کہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی۔ چوں کہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتا ہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے، چوں کہ پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی راہ نمائی کا عظیم فریضہ انجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺ کو علم سے رُوشناس کرایا گیا۔

چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا، مفہوم: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپؐ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔ ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

انسان جو پہلے نہایت کم زور مخلوق تھا، آج علم کی بہ دولت خشکی، پانی اور ہواؤں پر اپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اﷲ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پُرانی بات ہو چکی۔ انسان دیگر سیاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم، علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اور عجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربّانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے گا، مفہوم: ''کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اﷲ نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (سورہ لقمان)

آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ العلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کو نہایت دل کش پیرایوں میں جا بہ جا پیش کیا گیا ہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چناں چہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی، مفہوم: آپ ﷺ! فرما دیجیے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے' یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ (یعنی عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمر)

اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا گیا، مفہوم: ''اﷲ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بے شک! اﷲ غالب اور بخشنے ولا ہے۔'' (سورۃ الفاطر)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، چوں کہ اگر ایک شخص کو اﷲ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اﷲ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی رُوشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو' ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتا ہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بہ ظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا، البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اﷲ و رسول ﷺ کے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا، بل کہ ایسے لوگ ہی اﷲ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔

درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جب کہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتا ہے لیکن ان علوم کی بھی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہے اور اسلام نے اس کے حصول سے بھی منع نہیں کیا ہے لیکن چوں کہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جب کہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنّت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمام تر کام یابیاں اور کام رانیاں مشروط ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں