امداد کے منتظر
موجودہ حکومت میں لوگ بے حد پریشان ہیں، مہنگائی نے تو کمر توڑ ہی دی تھی
فیض رسول ''سانگلہ ہل'' کے رہائشی ہیں، ان کی دردناک کہانی پڑھ کر میرا دل بھی ان کے دکھ اور غم میں شریک ہو گیا اور اسی موضوع پر کالم لکھنے کا باعث بھی بنا، فیض رسول تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں لیکن ان کی آزمائش اور اللہ کی رضا کے مطابق ان کی دو شیر خوار بیٹیاں Phenyl uria (PKU) ketonکی بیماری میں مبتلا تھیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کا علاج نہیں ہے۔ اس طرح فیض رسول کی دونوں بیٹیوں دو ماہ کی ایمن اور چار ماہ کی عائشہ گردن توڑ بخار جیسی بیماری میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں اور اب تیسری بیٹی ہادیہ جس کی عمر سوا سال ہے اسی بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے۔
بچی کے جسم میں پروٹین کی زیادتی ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسے جو بھی دودھ دیا جائے وہ فنائل فری ہو، پاکستان میں یہ دودھ دستیاب نہیں ہے اگر یہ دودھ بچی کو نہ دیا گیا تو ڈاکٹرز بچی کی زندگی بمشکل 90 دن بتاتے ہیں۔ فیض رسول کی اپیل کرنے ایک مخیر پاکستانی نے لندن سے دودھ کے ڈبے بھیجنے شروع کیے ہیں، ڈاکٹر نے بچی کے ٹیسٹ بھی لکھے ہیں جو کہ پاکستان میں نہیں کروائے جا سکتے ہیں، یہ ٹیسٹ اور بچی کا علاج امریکا اور برطانیہ میں ہو سکتا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس خاندان کے پاس بیرون ملک جانے کے لیے رقم نہیں جو جمع پونجی اور جائیداد تھی اس سے انتقال کر جانے والی بچیوں کا علاج کروایا گیا اور علاج کی مد میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے، آج یہ خاندان قلاش ہو چکا ہے، دکان بک گئی، مکان فروخت ہو گیا، بچی کے علاج کے لیے لاہور میں ایک کرائے کے کمرے میں سکونت پذیر ہیں۔ اور جنرل اسپتال لاہور میں بچی کا علاج ہو رہا ہے۔
فیض رسول کی اہلیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، دین و دنیا کے علم سے معمور ہیں، عالمہ ہیں، وہ بحیثیت ماں کے بے حد تکلیف میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف اور مخیر حضرات سے اپنی بیٹی کے علاج کے لیے درخواست کی ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ اگر آپ نے میری بچی کا علاج کروا دیا تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ ''روز محشر اللہ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی، میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے خدارا! اسے بچا لیجیے۔''
ہمیں امید ہے کہ میاں نواز شریف جوکہ وزیر اعظم پاکستان ہیں، با اختیار ہیں، جو چاہیں کر سکتے ہیں اور یہاں تو کچھ کرنے والا مسئلہ بھی نہیں ہے، صرف روپے پیسے کی ضرورت ہے، باہر بھجوانے کے لیے انتظامات اور احکامات کی ضرورت ہے اور یہ کام چٹکی بجاتے ہو سکتا ہے۔ اگر ان دکھی اور ضرورت مندوں کے لیے حکم نامہ جاری کریں گے تو یہ نیکی کا کام ہو گا۔ اور بچی کا علاج ہو سکے گا تا کہ دکھی والدین سکھ کا سانس لے سکیں، یقینا یہ خاندان دل سے آپ کو دعائیں دے گا اور دعاؤں میں بڑی ہی طاقت ہوتی ہے دعائیں عرش کو ہلا دیتی ہیں، بستر مرگ پر پڑا ہوا مریض بھی جی اٹھتا ہے، گردن سے پھانسی کا پھندا اتار دیا جاتا ہے، یہ دعائیں حادثے روک لیتی ہیں، نئی زندگی عطا کرتی ہیں، غم سے بچاتی ہیں۔ ان نیک کاموں سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنور جاتی ہے، کسی بزرگ سے منقول ہے کہ اے حکمران! تو کمزوروں اور مجبوروں پر طاقت نہ دکھا اور نہ ہی تو اپنی طاقت کے بل پر کسی کو پریشان کر کیونکہ یہ دنیا سدا ایک ہی حالت میں نہیں رہتی ہے۔ تغیرات زمانہ کا ہونا ناگزیر ہے اور تو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے کہ دوستوں کی دل جمعی کا خزانہ جمع کرنا زیادہ بہتر اور لوگوں کو رنجیدہ کرنے کی بجائے خزانے کا خالی ہونا بہتر ہے۔''
صاحب اقتدار کا فرض ہے کہ وہ اپنے اختیارات و فرائض کی بدولت مظلوموں کی مدد کرے اور اپنی رعایا کے دکھوں کو دور کرنے کی سعی کرے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ منصف بادشاہ قیامت کے دن خدا کے سایہ میں ہو گا اور اللہ تبارک تعالیٰ جس قوم کے لیے بھلائی اور نیکی پسند کرتا ہے اسے نیک اور عادل بادشاہ دے دیتا ہے اور جب انسانوں کے گناہ بڑھ جاتے ہیں، بندے نافرمان اور متکبر ہو جاتے ہیں، ملک سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اللہ ایسی قوم پر ظالم بادشاہ کو مسلط کر دیتا ہے لوگ اس سے بچنے کی تدبیر کرتے ہیں لیکن نجات کی صورت نظر نہیں آتی، ظالم حکمران خدا کا قہر ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو مہربان بنائے۔ (آمین)
موجودہ حکومت میں لوگ بے حد پریشان ہیں، مہنگائی نے تو کمر توڑ ہی دی تھی اور اب بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے رہا سہا سکون غارت کر دیا ہے، دوائیں مہنگی کر دی گئی ہیں، تمام اشیا پر ٹیکس کی رقم بڑھا دی گئی ہے ساتھ میں سفر کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی کراچی کی سڑکوں سے غائب ہے۔ بس اسٹاپ پر مسافروں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوتے ہیں، بسیں ہیں کہ آتی نہیں اور جو آتی ہیں وہ مسافروں سے لدی پھندی حتیٰ کہ چھت پر بھی مسافر بیٹھے نظر آتے ہیں ان حالات میں بھی مزید مسافر ایسی بسوں میں چڑھنا چاہتے ہیں۔ اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پائیدانوں پر اپنے پیر ٹکا لیتے ہیں۔
لوگ ہر طرح سے پریشان ہیں کچھ بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں، سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں، ملازمت نہیں، بے روزگاری، معاشی مسائل اور عدم تحفظ کے احساس نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے۔
مخیر حضرات اور حکمرانوں سے فیض رسول کی اہلیہ نے اپنی بیمار بچی کے لیے علاج کرانے کی درخواست کی ہے انھوں نے میاں صاحب کو مخاطب کر کے اپنی روداد سنائی ہے، میاں صاحب کا اولین فرض ہے کہ بچی کے علاج و معالجے کے ساتھ ساتھ اس غمزدہ خاندان کے لیے گھر اور ملازمت کا بندوبست کریں اور ان کی مالی امداد کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ فیض صاحب کی بیگم صاحبہ نے ماسٹرز اور بی ایڈ کیا ہوا ہے، انھیں تعلیمی درسگاہ میں نوکری دی جا سکتی ہے۔
میاں صاحب! آپ صاحب اولاد ہیں اولاد کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، دکھوں اور غموں کی ردا بھی اوڑھ چکے ہیں، بے شمار دولت ہونے کے باوجود اذیتوں کے شکار رہے ہیں کہ دولت سے زندگی اور روحانی سکھ نہیں خریدا جا سکتا ہے۔ دولت سے دوا علاج تو کیا جا سکتا ہے لیکن شفا دینے والی وہی ذات پاک ہے، اس کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا ہے۔ ذلت و عزت اس کے ہاتھ میں ہے۔ کامیابی و ناکامرانی کا دینے والا بھی وہی مالک دو جہاں ہے، کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو انصاف و اعتدال پر رہتا ہے اور اپنے رب سے ڈرتا رہتا ہے، جو دوسروں کے کام آتے ہیں، کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے اہل زمیں پر مہربانی کرنے والے خدائے برتر کی رحمتوں سے مایوس نہیں ہوتے ہیں۔