سیاسی برتری کی خواہش
پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کی ناکامی یہ ہے کہ وہ ان میں ہم آہنگی لانے میں مدد دینے میں ناکام ہو گئے ہیں
آ ج ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں کہ ایک راستہ مکمل تباہی و بربادی کی طرف اور دوسرا راستہ امن و آتشی و خوشحالی کی طرف جاتا ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں ہم آج شدید فکر ی اور نظریاتی انتشار کا شکار ہیں ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شدید ذہنی خلفشار اور کنفیو ژن میں عام آدمی بھی انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، یعنی ذہنی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اس لیے یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے اور پھر یہ دلیل جا کر ختم ہوتی ہے انتہاپسندی پر خواہ وہ ذہنی ہو یا عملی۔ اس فکر ی اور سیاسی بحران کی بنیاد میں چند اہم تاریخی مغالطے ہیں جن کا گہرا تعلق ہماری تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے ان کے بارے میں پڑھے لکھے افراد کی اکثریت بھی کنفیو ژن کا شکار ہے۔
تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگی قیادت نے سنجیدگی سے کبھی یہ سو چنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ پاکستان بن جانے کے بعد نئی ریاست کی نوعیت کیا ہو گی اس کا سیاسی ڈھانچہ کن اصولوں کے مطابق بنے گا اور ریاست کا اقتصادی یاسماجی ڈھانچہ کیا ہو گا۔ دراصل مسلم لیگی قیادت کا طبقاتی کردار اس کی دیرینہ روایت اور اس کی سو چ کا انداز ریاست کی نوعیت پر غور و فکر کی اجازت نہ دیتا تھا۔ مسلم لیگ نوابوں، راجاؤں ، خان بہادروں، سرداروں، جاگیرداروں اور سر کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ خود بانیان بھی نئی ریاست کے نقوش کی وضاحت کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے کہ کہیں لیگ میں موجود اشرافیہ ناراض نہ ہو جائے اور پھوٹ پڑ جا ئے۔ لیگی قیادت نے مسلمانوں کی سیاسی تعلیم کی طرف ذرا برابر توجہ نہ دی بلکہ ان کو سارا وقت جذباتی نعروں کا نشہ پلاتی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام ریاست کی تشکیل نو کے بارے میں اندھیرے میں رہے بلکہ دانستہ طور پر اندھیرے میں رکھے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ لیگی لیڈروں نے پاکستان کی تحریک مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح و ترقی کی غرض سے نہیں شروع کی تھی بلکہ نئی ریاست میں حکومت کرنے کی خواہش ان کو ادھر لے گئی تھی یہ ہی وجہ ہے کہ لیگی قیادت نے نئی ریاست کی سماجی اور اقتصادی ترقی کا کوئی پروگرام جان بوجھ کر وضح نہیں کیا اور عوام کو فقط طفل تسلیوں سے بہلاتی رہی۔ اسی لیے تصور پاکستان اور ایک نئی ریاست کے تقاضوں کے مابین مصالحت نہ ہو سکی اور یہ ہی عدم مصالحت ایک فعال آئین کی تشکیل اور عام انتخابات کے باقاعدہ انعقاد میں ناکامی پر متنج ہوئی۔
ساتھ ساتھ معاشی عدم مساوات کا بھی آغاز ہو گیا اور طبقاتی کشمکش تیز سے تیز تر ہو گئی نو تشکیل شدہ پاکستان میں کئی طبقات ایسے تھے جن کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی برائے نام تھی اور وہ قدامت پسند اور عام طور پر غیر سیاسی لوگ تھے اس ساری صورتحال میں مذہبی جماعتوں کی، جو آزادی کی جدوجہد کے دوران پاکستان کی تخلیق کے خلاف تھیں، عید ہو گئی مذہبی جماعتوں نے پاکستان بننے کے بعد قلا بازی کھائی اور اپنے آپ کو تحریک پاکستان کا سب سے بڑا چیمپیئن پیش کرنا شرو ع کر دیا اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں میں بارودی سرنگیں نصب کر دینا شر وع کر دیں ۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آج پاکستان میں دہشت گردوں نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں جن نعروں اور نظریوں کا بیج بو یا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ 66 سال کے دوران کی گئی۔
وہ کچھ یوں ہیں نظریہ پاکستان، نظریاتی سرحدیں، نظریاتی ریاست، اسلامی ریاست، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات، اسلامی نظام، نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام ، حکومت الہیہ کا قیام ، احیائے اسلام ، اسلامی امہ وغیرہ۔ ہم اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا بلکہ قیام پاکستان کے بعد شروع کیا گیا۔ ہم پاکستانی بطور ایک قوم اپنا تجزیہ آپ کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں اور اپنے آپ پر الزام دینے کے بجا ئے دوسروں پر الزام منطق اور دلا ئل کی بجائے جذبات، تعصب، نفرت کی بنیاد پر لگا نے کے عادی مجر م بن چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی اشرافیہ اپنے انجام دیے گئے اعمال اور غلطیوں کی خو د ذمے داری نہیں اٹھا تی بلکہ اس کی بجائے پاکستان کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں بدنام اور نقصان ذدہ ملک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ چار وجوہات نے پاکستان کو ایک مستحکم اور اندرون خانہ مضبوط ریاست بننے نہیں دیا پہلے نمبر پر اس کے سیاست دان ہیں جو عوام کو ایک لڑی میں پرو دینے والی قوم شناختی پالیسی دینے میں ناکام رہے یہ موضوع ایک عرصے سے بدستور باعث تکرار ہے۔
جیسا کہ ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا یہ مسلمانوں کی ایک ایسی ریاست ہے جس میں دیگر مذاہب کے پیرو کاروں اور اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ ہے؟ کیا یہ اس طرح کی جمہوری ریاست ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا کیا اس کے باشندے پہلے مسلمان بعد میں سندھی، پٹھان، بلو چی، پنجا بی اور آخر میں پاکستانی ہیں یا وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ دوسری وجہ غیر سیاسی قوتوں اور سو یلین حکومتوں کے مابین تعلقات میں دراڑ کی ایک طویل تاریخ ہے جو پاکستان میں آمریت کی وجہ بنی تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بن گیا ہے جو اسلامی انتہا پسندوں کے لیے جنت ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان کی کمزوری کی چوتھی وجہ اس کی نسلی گروہوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ناکامی ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کی ناکامی یہ ہے کہ وہ ان میں ہم آہنگی لانے میں مدد دینے میں ناکام ہو گئے ہیں اور انھوں نے کبھی بھی جدید روشن خیالی پر مبنی پالیسیاں متعارف نہیں کرائیں جو ملکی سطح پر معیشت اور معاشرے میں اصلاحات لا سکتیں اس کے ساتھ سیاست دانوں کی کرپشن نے بھی انتہا پسندوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ خود کو عوام کے سامنے ایماندار اور بے داغ متبادل قیادت کے طور پر پیش کر سکیں۔ دائیں بازو کے مذہبی سیاست دان اور انتہا پسندوں کے حامیوں کا مشترکہ موقف یہ ہے کہ یہ سب کچھ امریکی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں ہو رہا ہے اور مسلط شدہ جنگ ہماری اپنی جنگ نہیں ہے وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ وہ انتہا پسندوں کو پسند کرتے ہیں وہ یہ بات صرف مغرب دشمنی کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ان کی اس بات کے پیچھے سیاسی بر تری کی خواہش پوشیدہ ہے جو انھیں دوبارہ حاصل ہو سکتی ہے چاہے اس کے حصول کے لیے انھیں کوئی بھی قیمت اد ا کرنا پڑے ۔
بنیادی طور پر ریاست کی بقا کے لیے لڑی جانے والی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جو ریاست کے آیندہ خدو خال اور مستقبل کا تعین کریگی۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک کی مقتدر قو تیں اور سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے میں تبدیلی اور اصلاحات شامل نہیں کرتیں پاکستان کو سیاسی تحمل داری پر کمزور ی کا سامنا رہے گا اور صوبوں میں ابتری و بدانتظامی اور تشدد بڑھتا رہے گا۔ کروڑوں لوگوں کو اقتصادی تباہی کا سامنا رہے گا قدرتی آفات، حکومت کی کم عقلی و نااہلی، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، بدترین نتائج کا باعث بنتے رہیں گے عسکر ی اسلام کا خطرہ بدستور قائم رہے گا جو کسی بھی وقت سلامتی کے متعلقہ اداروں کو بھی اپنی زد میں لے سکتا ہے۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے آمریت اور سیاسی جماعتیں اپنے ذمے سب سے ضروری کام بھلائے بیٹھی ہیں اور وہ کام اور کچھ نہیں صرف عوام کی زندگی کو بہتر اور خو شحال بنانا ہے ۔