افغانستان کے لیے برآمدات میں اضافے کی ضرورت

یقیناً طالبان انتظامیہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے اس کے لیے پاکستان قدم آگے بڑھائے۔



پاکستان اور افغانستان پڑوسی برادر اسلامی ملک ہیں، جو زبان، ثقافت اور مشترکہ مذہب اور تاریخی رشتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بھائی چارے کے علاوہ تجارتی روابط ہزاروں سال پرانے ہیں۔

برصغیر سے تجارتی قافلے افغانستان سے ہوتے ہوئے وسط ایشیائی ریاستوں یہاں تک کہ یورپ تک پہنچ جایا کرتے تھے اور افغانستان کے ساتھ ہند کے تجارتی روابط تھے۔ ان میں روزمرہ استعمال کی اشیا سے لے کر دستکاری اور مختلف کاریگروں کی بنائی ہوئی مختلف اشیا افغانستان لے کر سوداگر جایا کرتے تھے اور افغانستان سے بھی مختلف اشیا مثلاً ڈرائی فروٹ، مسالہ جات کے علاوہ بہت سی اشیا لے کر افغانی تاجر برصغیر کے مختلف شہروں قصبوں میں جا کر فروخت کرتے تھے۔

اب گلوبل ولیج کا دور ہے۔ پہلے پشاور سے تاجر چلتے تھے اور کئی دنوں کا سفر کرکے کابل پہنچتے تھے۔ سنا ہے کہ پہلے 7 یا 8 گھنٹوں میں سامان تجارت سے بھرے ٹرک کابل پہنچ جایا کرتے تھے لیکن کئی سال ہو گئے اب پھر ٹرک 7 یا 8 روز میں کابل پہنچ رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ آئے روز طورخم بارڈر پر ہزاروں کنٹینرز کئی کئی دن تک کلیئرنس کے انتظار میں گزارتے ہیں، اول تاجروں یا ٹرک ڈرائیوروں کا وقت ضایع ہوتا ہے پھر سامان کے خراب ہونے کا اندشہ الگ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جن افغانی درآمد کنندگان نے سامان منگوایا ان کو انتظار کی زحمت کے ساتھ وقت پر ڈلیوری نہ ملنے کے باعث تجارت پر مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، تاجروں کا کہنا تھا کہ کئی سال قبل راہداری پرمٹ، پارکنگ اور مختلف چیک پوسٹوں پر فی گاڑی خرچہ 5 تا 6 ہزار روپے آتا تھا۔ اب اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

چمن بارڈر پر آئے روز خراب حالات، احتجاجی دھرنے اور دیگر کئی مسائل کے سبب تاجروں، ڈرائیوروں کا وقت ضایع ہونے کے ساتھ ذہنی کوفت اور سامان تجارت کا نقصان بھی ہو رہا تھا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس طرح نقل و حمل کو دنوں سے نکال کر گھنٹوں پر لایا جاسکتا ہے۔

پہلے پاکستان سے افغانستان جانے کے لیے 5سرحدی مقام تھے۔ حکومت نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مزید 3 مقامات سے گاڑیوں کی آمد و رفت کی اجازت دے دی ہے۔ امید ہے کہ اب نئے افغانی حکام ان مقامات پر عملہ تعینات کردیں گے تاکہ طورخم اور چمن پر جو ہزاروں گاڑیوں، ٹرالر، ٹرک وغیرہ کا رش لگ جاتا ہے اس میں کمی لائی جاسکے۔

یہاں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ پہلے افغانستان کے لیے پاکستان سے بڑی مقدار اور بڑی مالیت میں ایکسپورٹ ہوا کرتی تھی اور افغانستان بطور برآمدی ملک چوتھے نمبر پر تھا اور پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ کا تقریباً 7 فیصد افغانستان برآمد کیا جاتا تھا جو اب گھٹ کر ساڑھے تین فیصد پر آچکا ہے۔

کئی سال گزرے برآمدی تجارت میں مسلسل کمی کا نوٹس کسی حکومت نے نہیں لیا، اب پاکستان کی جگہ افغان تاجروں نے ایران اور بھارت سے بڑے تجارتی تعلقات استوار کرلیے جس کا فوری جائزہ لیتے ہوئے موجودہ نئے افغانی حکام سے اس سلسلے میں فوری گفت و شنید کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس وقت طالبان حکومت سازی کے عمل میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ کھانا پینا، ضروریات زندگی کی مختلف اشیا کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔لہٰذا تجارتی روابط کو مضبوط کرنے کے سلسلے کو زیادہ دن روکا نہیں جاسکتا۔

افغانستان میں اس وقت کابل ایئرپورٹ کے سوا مجموعی طور پر امن ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے دھماکے کی جگہ کی سیکیورٹی امریکی حکام کے حوالے ہے۔ بقول امریکی حکام انھیں اس بات کا خدشہ تھا تو پھر امریکا بہادر نے ان دھماکوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کیوں نہ کی؟

بہرحال پاک افغان تجارت سے متعلق چند اعداد و شمار پیش خدمت ہیں۔ تاکہ ہم اندازہ لگا سکیں کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ کئی سالوں کے دوران تجارت میں کمی ہوئی ہے اب اس میں مزید کئی گنا اضافے کا وقت آگیا ہے۔ پی بی ایس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2020 کے دوران افغانستان کو 84 ارب 82 کروڑ53 لاکھ روپے کی برآمدات کی گئیں اور کل برآمدات میں یہ شیئر 4 فیصد ہے۔ اگر پورے مالی سال 2019-20 یعنی جولائی تا جون 2020 کے دوران افغانستان کے لیے پاکستان کی ایکسپورٹ کا جائزہ لیں تو وہ ایک کھرب 34 ارب 25 کروڑ بنتی ہے اور شیئر یعنی کل ایکسپورٹ کی مالیت میں افغانستان کے ایکسپورٹ کا حصہ تقریباً 4 فیصد بنتا ہے۔

اب 2018-19 کی بات کرتے ہیں۔ جب افغانستان کے لیے برآمدی مالیت ایک کھرب 76 ارب 37کروڑ روپے تھی اورتقریباً 6 فیصد حصہ بنتا ہے۔ تین چار سال قبل پاکستان کی کل برآمدی مالیت سے افغانستان کے لیے برآمدی حصہ ساڑھے چھ فیصد بنتا ہے۔ اس سے قبل کئی سال ہوئے 7 تا 8 فیصد بھی رہا اور افغانستان چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ملک تھا لیکن ایک عشرے کے دوران جب سے بھارت کی افغانستان میں مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی پاک افغان تجارتی حجم سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ پہلے افغانستان میں جو حکومت تھی ان کے ساتھ پاکستان کے بعض اختلافات اور سرحدی تجارتی چوکیوں پر موجودہ افغان عملہ بھی پاکستانی تاجروں، ڈرائیوروں، شہریوں کے ساتھ سردمہری کا مظاہرہ کرتا تھا۔

اس کے علاوہ پاکستانی عملے کے بارے میں بھی ڈرائیوروں اور تاجروں کا کہنا تھا کہ مختلف مراحل سے گزرنے پر کافی وقت صرف کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کو زبردست مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا تھا۔ اور وقت کا ضیاع الگ اور کابل پہنچنے میں 6 تا 7 روز لگ جاتے۔

اب پاکستانی حکام فوری طور پر پانچوں تجارتی راہداریوں پر جدید ٹیکنالوجی اور مشینریوں کے ساتھ کام کریں ان کی نگرانی کا نظام ہو کہ آخر دیر ہونے کی کیا وجہ ہے اور افغان طالبان سے بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ بھی مستعد و فعال عملہ تعینات کریں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ ہو۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے روزانہ 12 سو ٹرک افغانستان جایا کرتے تھے اب کم ہوکر 400 ٹرک رہ گئے ہیں۔ پاکستان بڑی تعداد میں تعمیراتی سامان پلاسٹک کی مصنوعات، خوردنی اشیا، زرعی اشیا، مشروبات اور دیگر بہت سامان برآمد کرتا تھا۔

کئی سال قبل کی دو ڈھائی ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سے سکڑ کر اب ایک ارب ڈالر کے اردگرد رہ گئی ہے۔ حکومت کو اپنی تجارتی راہداریوں پر فوری طور پر جدید ٹیکنالوجی نصب کرکے اور تمام محکموں کو باہمی رابطے سے جوڑتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ اب ایسا نظام وضح کریں اور اس سلسلے میں طالبان کے عملے کی بھی مدد کی جائے تاکہ دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو سکے۔ باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے اس کے لیے سہولیات مہیا کی جائیں، یقیناً طالبان انتظامیہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے اس کے لیے پاکستان قدم آگے بڑھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں