کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جو اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں بے دست و پا نظر آتی ہیں یا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتیں۔
RAWALPINDI:
یہ کوئی نئی بات نہیں جب سے آقا اور غلام کی بنیاد پر سماج کی طبقاتی تقسیم ہوئی ہے ، آقا غلاموں کی خواتین سے زیادتی اور قتل کرسکتا تھا اور یہ قانوناً جائز تھا۔ جاگیرداری میں جب بادشاہت بھی ساتھ ساتھ پروان چڑھی تو خواتین کے ساتھ زیادتیاں جاری رہیں۔ اور اب سرمایہ دارانہ نظام میں بھی خواتین کو جنس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
غلامی کے دور میں سلطنت روما اور ایتھنز میں خواتین سے زیادتیوں کی انتہا ہوئی، پھر بادشاہت (قبائلی اور جاگیرداری) کے دور میں تو منظم اور بے تحاشا جبر ہوا۔ ایک ایک بادشاہ کے حرم میں ہزاروں کنیزیں اور لونڈیاں ہوتی تھیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ بدنام زمانہ ہلاکو، چنگیز، تیمور اور شمس الدین التمش تھے۔ مغلوں کے دور میں سب سے کم بیویاں اکبر کے دور میں تھیں۔ اکبر بادشاہ کے حرم میں صرف ایک ہزار بیویاں تھیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ملا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بھی خواتین مسلسل استحصال کی شکار تھیں اور ہیں۔ انقلاب روس کے بعد دنیا میں پہلی بار 1917 میں روس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ اس کے اثرات یورپ، امریکا اور ایشیا پر بھی پڑے۔ نتیجتاً 1918 میں جرمنی 1919 میں امریکا اور افغانستان میں ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ برطانیہ میں 1929 اور سوئٹزر لینڈ میں 1973 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں 2020 میں 1600 خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں۔ مگر ترقی پذیر ملکوں میں تو خواتین کے ساتھ زیادتیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
ان میں چار ممالک ایسے ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ خواتین درندگی کی شکار ہیں، ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا۔ پاکستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ کوئی خاتون اغوا، ریپ یا قتل نہ ہوتی ہو۔ ابھی حال ہی میں لاہور کے دو واقعات نے انسانیت کو لرزا دیا۔ عائشہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بتانے کی ضرورت نہیں، آپ سب کو معلوم ہوگیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کہاں تک ہوگا۔ اس لیے بھی کہ ذہن شکوک و شبہات میں مبتلا ہوتا ہے کہ 2020 اگست 2021 اگست تک 1763 کیسز رونما ہوئے ہیں، جس کا ریکارڈ ہے۔ جس میں صرف ایک درجن سے زیادہ کچھ زیادہ مقدمات میں ناکافی اور ہلکی سزائیں دی گئی ہیں۔
یہاں تو الٹا مظلوموں پر ہی الزامات لگائے جاتے ہیں اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں جیساکہ پنجاب موٹروے پر جس خاتون سے زیادتی ہوئی اسے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے کہا کہ اتنی رات کو نکلنے کی کیا ضرورت تھی، ہرچندکہ اس کے بعد اس نے معافی مانگ لی۔ عائشہ کے بارے میں شیما کرمانی نے درست سوال اٹھایا ہے کہ عائشہ پر حملہ کرنے والے مرد تھے بھی یا نہیں۔ دو دن کے بعد رکشہ میں سفر کرتی خاتون کے ساتھ جس طرح کی دست درازی کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں بھی کوئی خاتون یا لڑکی محفوظ نہیں ہے۔ رونما ہونے والے واقعات میں زیادہ تر کم سن بچیاں جن کی عمریں 3 سال سے 8 یا 10 سال کی ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کراچی میں چھپنے والی خبروں میں خواتین کے ساتھ صرف 22 اگست کو چار زیادتیاں ہوئیں۔یہاں لڑکیاں کیونکر محفوظ ہوں گی۔ گھریلو جھگڑے میں بیوی کا قتل کتنا بڑا سنگین جرم ہے۔ یہ تو مرنے کے بعد پتا چلا ورنہ ایسے ہزاروں لاکھوں تشدد کے واقعات ہوتے ہیں، جس میں عورتیں بچ جاتی ہیں اور صلح صفائی ہو جاتی ہے، کسی کو پتا بھی نہیں ہوتا۔ جو مر جاتی ہیں انھیں خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔
ان معاملات میں بعض پولیس والوں کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ کراچی کے علاقے سائٹ میں پسند کی شادی کرنے پر لڑکی کے بھائی نے بہن اور بہنوئی کو قتل کردیا جو انسانیت سوز واقعہ ہے۔ سعید آباد میں شوہر سے خلع لینے پر سابقہ بیوی پر تیزاب گردی مردوں کے غلبے کے معاشرے کی غمازی کرتی ہے۔ اگر شوہر بیوی کو طلاق دے دے تو کوئی بات نہیں اور اگر بیوی خلع لے لے تو اسے قتل کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے عجیب و غریب واقعات اس لیے رونما ہوتے ہیں کہ ہماری ریاست اور بعض مذہبی سیاسی جماعتیں ان دردناک واقعات پر کوئی احتجاج نہیں کرتی ہیں جب کہ خواتین کے عالمی دن منانے پر مذہبی جماعتیں اور چند خواتین ہفتوں بیانات، تبصرے اور خواتین پر تنقید کرتے ہیں جب کہ اس قسم کے مسلسل واقعات رونما ہونے پر کوئی مظاہرہ، بیانات یا ردعمل نہیں آتا، صرف خواتین ہی نہیں اسلام آباد اور کراچی میں مظاہرے کیے اور ان واقعات کی شدت کے ساتھ مذمت کی۔ یہ عجیب سوچ اور تصور ہے کہ خواتین اور لڑکیاں کیسے رہیں، کیسے بولیں، کیسے نہیں اور کیسے چلیں، یہ سارے طریقے مرد ہی طے کریں گے۔
جب کہ ملک میں ہونے والے قتل و غارت گری، ریپ، ڈکیتی، چوری اور بدمعاشی یعنی سارے غلط کام اور حرکات مرد انجام دیتے ہیں اور الزام عورتوں پر لگائے جاتے ہیں۔ ان زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے شام اور عراق کی کرد اور یزیدی خواتین کی طرح پاکستان کی خواتین کو بھی جرأت مندانہ قدم اٹھانا ہوگا اور انھیں اپنے حقوق کے لیے متحد ہوکر لڑنا ہوگا۔ جیساکہ پیرس کمیون کی خواتین نے جرأت مندانہ قدم اٹھایا تھا۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جو اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں بے دست و پا نظر آتی ہیں یا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ ہماری سیکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے ادارے، خفیہ اور کھلی ایجنسیاں ان دردناک واقعات کو روکنے کے لیے کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں اور مساجد کے اماموں کو اپنے خطبوں میں خواتین پر ہونے والے تشدد، قتل اور ریپ پر برملا اظہار خیال کرنے کی ضرورت ہے۔
بختاور بھٹو کا یہ درست مطالبہ ہے کہ عوامی مقامات پر فیملی کے ساتھ مردوں کے علاوہ صرف دو مرد ایسے مقامات پر آسکتے ہیں۔ یعنی عوامی مقامات پر مردوں کے جم گھٹے پر پابندی ہونی چاہیے۔