افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال

طالبان کابل کے دروازے تک نو دنوں میں پہنچ گئے جس سے افغان حکومت ہکا بکا رہ گئی۔


Shabbir Ahmed Arman August 29, 2021
[email protected]

گزشتہ سال دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ کے تحت امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا آغاز اور طالبان کا متعدل مزاج ہونا واضح تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان باہمی مذاکرات کا عمل ہونا چاہیے، جس کے لیے طالبان نے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، اس ضمن میں افغان حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا۔

کچھ فوجیوں کو مرحلہ وار رہا کیا پھر قیدیوں کی رہائی موخرکردی ،جس سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جھڑپے شروع ہوئیں ، اس دوران عالمی سطح پر فریقین سے کہا جاتا رہا کہ وہ آپس میں مذاکرات کریں ، طالبان نے مذاکرات سے پہلے افغان صدر اشرف غنی سے مستعفی ہونے کا کہا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ، طالبان نے اپنی پیش قدمی تیز کردی۔

طالبان جہاں جاتے افغان عوام ان کو خوش آمدید کہتے لیکن افغان حکومت سمیت عالمی طاقتوں نے اندازے لگائے کہ کابل تک پہنچنے میں طالبان کو وقت لگے گا لیکن وقت نے ان کا اندازہ غلط ثابت کردیا۔

طالبان کابل کے دروازے تک نو دنوں میں پہنچ گئے جس سے افغان حکومت ہکا بکا رہ گئی کیونکہ افغان فورسسز راضی خوشی طالبان مجاہدین کے ساتھ ہوگئے تھے اس طرح اپنوں کا خون بہہ بغیر طالبان کابل کے دروازے پر پہنچے ۔ اس سے دودن پہلے افغان صدر اشرف غنی نے افغان آرمی چیف کو تبدیل کیا تھا کہ شاید حالات ان کے حق میں ہوجائیں گے لیکن اس سے بھی اسے ناکامی ملی ۔

14 اگست 2021 کو پاکستانی قوم اپنا یوم آزادی مناچکی تھی اور اگلے دن کو یعنی پندہ اگست کو بھارتی عوام اپنی آزادی کا جشن منارہے تھے عین اسی لمحے طالبان جلال آباد اور مزار شریف کو فتح کرنے کے بعد چند ہی گھنٹوں کے دوران کابل میں داخل ہوگئے اور شہر کا نظم ونسق سنبھال لیااور صدارتی محل بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔اس وقت تک افغانستان کے صدر اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوچکے تھے، یہ اطلاعات بھی زیرگردش تھی کہ افغان صدر اشرف غنی اپنے ہمراہ رقم سے بھری چار کاریں اور ہیلی کاپٹر لے گئے۔

یہ خبر روسی میڈیا نے روسی سفارت خانے کے ترجمان کے توسط سے دی اور روسی سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ بات ایک عینی شاہد نے بتائی جس نے اشرف غنی کے ملازمین کو ہیلی کاپٹر اور کاروں میں رقم سے بھرے بریف کیس رکھتے ہوئے دیکھا تھا۔

17اگست کو پہلی مرتبہ منظر عام پر آنے والے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں پریس کانفرنس کی جس کی تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں، تاہم ریکارڈ میں لانے کے لیے ا س پریس کانفرنس کے چند نکات یہ ہیں، ذبیح اللہ مجاہد نے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان، روس ،چین سے اچھے تعلقات ہیں ، کسی بلاک کا حصہ نہیں ، خواتین کو تمام شرعی حقوق دینگے، مضبوط اسلامی حکومت بنائیں گے، افغان سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی ، کرپٹ حکمران وقت سے پہلے بھاگ گئے، شرپسندوں کی بدامنی کے باعث کابل میں جلد داخل ہونا پڑا ، غیر ملکی شہریوں اور سفارتخانوں کا تحفظ کیا جائیگا ، کسی مخالف سے تفتیش نہیں ہوگی ، سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے مشاورت جاری ہے ، تمام فریقین سے رابطے میں ہیں ، جلد افغان قوم کو قابل قبول قیادت دینگے ، کسی سے دشمنی نہیں رکھے گے ، دنیا کو تعلقات استوار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں ، سرحدیں ہمارے کنٹرول میں ہیں ، اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ نہیں ہوگی ، خواتین شرعی حدود میں رہ کر کام کرسکتی ہیں ، میڈیا آزاد ہے لیکن قواعد و اصول کی پابندی کرے اور غیر جانبدار رہے ، نشریات شریعت سے متصادم نہیں ہونی چاہیے ، میڈیا افغانستان میں قومی بھائی چارے کو فروغ دے ، تنقید برداشت کریں گے۔

اس پریس کانفرنس کو دنیا نے سراہا اور عالمی میڈیا نے رپورٹ دی کہ کابل کی رونقیں بحال ہورہی ہیں ۔ میڈیا اطلاعات کیمطابق18اگست کوطالبان نے پہلی بار ملک کی سیاسی قیادت سے ملاقات کی ہے ۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے رکن انس حقانی کی سربراہی میں طالبان کے وفد نے افغانستان کی قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے گھر پر سابق صدر حامد کرزئی سے اہم ملاقات کی جس کے دوران افغانستان کی موجودہ صورت حال اور عبوری حکومت کے قیام پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔

اس اہم ملاقات سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تاہم طالبان کے برتاؤ اور رویے میں لچک کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سیاسی مفاہمتی عمل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور افغانستان میں قیام امن کا خواب پورا ہوسکے گا ۔

اسی روز یعنی 18اگست کو سابق افغان صدر اشرف غنی نے کابل چھوڑنے کی کہانی بیان کردی اور کہا کہ میں مجبوری میں افغانستان سے گیا ہوں ۔ اشرف غنی جو کابل سے تاجکستان کے لیے روانہ ہوئے تھے ،تاہم اب متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں ۔ سابق افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ میں مجبوری میں افغانستان سے گیا ہوں ، دشمن کابل آکر مجھے ایک دوسرے کمرے میں تلاش کررہے تھے ، ہم سے پہلے بھی بہت سے لیڈر افغانستان سے گئے ، پھر واپس آئے ، میں نے مجبوری میں کابل چھوڑا ، میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ کتاب ہے، چاہتا تھا کابل میں خون ریزی نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ پرامید ہوں کہ ناامیدی و مایوسی کی یہ راتیں جلد ختم ہوجائیگی ، افغانستان ایک بار پھر آزاد اور ترقی کی جانب گامزن ہوگا ۔

سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ حکومت سازی سے متعلق کام میں مصروف تھا دوپہر میں اچانک میرے سیکیورٹی اہلکار آئے اور مجھے وہاں سے نکالا ۔ انھوں نے کہا کہ طالبان نے کابل میں داخل نہ ہونے کا کہا تھا ، جب میں نے صدارتی محل چھوڑا وہ محل کے دروازوں کے قریب تھے۔اشرف غنی نے کہا کہ مجھے مجبورا افغانستان سے نکالا گیا تاکہ خون ریزی نہ ہوجائے ، میں اپنے عوام کے ساتھ ہوں ، خون بہانا نہیں چاہتا ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو سب کو معلوم ہے کہ میں عزت کے ساتھ مرنے سے نہیں ڈرتا ہوں ۔

واضح رہے کہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے پہلی پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ سابق سیکیورٹی فورسز اورپولیس کابل شہر کو غیر محفوظ چھوڑ کر چلے گئے تھے ، افغان فورسز نے ہمیں بدنام کرنے کے لیے کابل میں شہریوں کو نشانہ بنایا ، بعض جگہوں پر طالبان کے نام پر لوٹ مار کی گئی ، شہر میں بعض شرپسندوں کی بدامنی کے باعث ہم نے مداخلت کی ، افغان فورسز کے شہریوں کو نشانہ بنانے پر ہمیں کابل میں اپنی موجودگی بڑھانی پڑی ۔

انھوں نے اپنے پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا تھا کہ تمام صوبوں میں قبضے کے بعدہمارا منصوبہ تھا کہ کابل کے دروازے پر رک جائیں تاکہ کابل میں داخل ہوئے بغیر انتقال اقتدار پرامن طریقے سے مکمل ہو ، بدقسمتی سے پچھلی حکومت بڑی نالائق تھی ، ان کی سیکیورٹی فورسز کچھ نہیں کرپارہی تھیں ، اس لیے ہمیں ذمے داری لینے کی ضرورت تھی ، جرائم پیشہ افراد گھروں میں داخل ہوکر عوام کو ہراساں کرکے امارات اسلامی کو بدنام کرنا چاہتے تھے ، جس پر ہم نے اپنی فورسز کو کابل میں داخلے کا حکم دیا اور شہریوں کی سیکیورٹی یقینی بنائی گئی ۔

تادم تحریر تیزی سے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر ایک طائرانہ جائزہ پیش کیا ہے، کامل امید ہے جب آپ میرا یہ کالم پڑھ رہے ہو افغانستان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتحال میں مزید بہتری آچکی ہونگی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں