مجھے معاف کرنا کابل
مجھے معاف کرنا کابل، تمہاری دہلیز پر اب کے جو رسم چلی ہے، اس نے سب انسان دوستوں کو دکھی کردیا ہے۔
کتنے رنگ بدلے ہیں کابل نے۔ کئی موسم، ماہ و سال ، خوبصورت شامیں اتریں کابل کے سبز زاروں پہ، پہاڑوں کے اوڑھ بسی،اس بستی پہ کئی ادوار آئے ، اگر کہیں سوشلسٹ انقلاب بھی آیا تو ادھر ہی آیا ، جب عورت مردوں کے شانہ بشانہ چلتی تھیں جو چاہے پہنو، اسکرٹ پہنو، ٹرائوزر پہنو ، دوپٹہ گر نہ بھی پہنو ، تب بھی کسی مردکی آنکھ وحشی نظروں سے تعاقب نہ کرتی تھیں۔
کابل یونیورسٹی کے چوکوں ، چوراہوں اور کلاسوں میں سب ساتھ ہوتے تھے۔ بادشاہتوں سے ایک طویل سفر کیا۔ کابل میں آخری بادشاہ سردار دائود ٹھہرا، وہ خود ظاہر شاہ کا تخت الٹ کرکے اور فوج کی بغاوت سے بادشاہ بنا۔ پھر نور محمد تراکئی کے قیادت میں فوج کی مدد سے وہاں کی سوویت نواز کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار پہ قبضہ کیا ۔ کرتے کرتے کتنا بدل گیا ہے ، کابل کمیونسٹ آئے وہ بھی بندوق کے زور پر ، برہان الدین ربانی سے لے کر طالبان تک سب بندوق کے زور پہ آئے۔ خود امریکا بھی اور اب پھر دوبارہ طالبان بھی۔
کابل کے ایئرپورٹ پر دھماکے سے کئی جانیں ضایع ہوئیں،مجھے ٹائی ٹینک فلم کے منظر یاد آگئے۔ اتنے بڑی موجوں کی سفینوں میں تن و تنہا ٹائی ٹینک ۔ سیکڑوں مسافروں کو اپنی آغوش میں سمائے ہوئے ، کس طرح اس ڈوبتے جہاز سے لوگ چھلانگیں لگاتے ہیں ،اپنی جان بچانے کے لیے کس طرح پھر کئی اس سرد اٹلانٹک سمندر کے پانی میں برف بن جاتے ہیں کچھ بچ جاتے ہیں ۔ جب کابل طالبان کے ہاتھ چڑھا ، جب صد ر غنی خود بھاگ نکلتا ہے، خوف و ہراس میں سیکڑوں لوگ کابل ایئرپورٹ کی طرف دوڑتے ہیں۔
لوگ جہاز کے پروں سے لٹک لٹک جاتے ہیں اور وہ ذکی انواری افغانستان کی فٹبال ٹیم کا کھلاڑی ، لٹکتے لٹکتے جب جہاز اڑتا ہے وہ اس سے گر جاتا ہے اور مر جاتا ہے۔ کابل کے ایئرپورٹ پر خودکش حملے میں درجنوں لوگ مارے گئے بچے، عورتیں بھی پوری دنیا کی نگاہیں اس وقت کابل پر ہیں۔ کابل کے انسانی المیہ پر کیونکہ وہاں ''نیا شام'' رقم ہونے جارہا ہے۔
دمشق تو دور تھا جب وہاں ریاست بیٹھنے لگی ، داعش نے وہاں اپنے قدم جمائے، آمریت وہاں سے ختم نہیں ہورہی تھی ، بین الاقوامی سازش بھی تھی۔ بشار الاسد نے اسرائیل کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔کابل تو یہیں ہے ہماری سرحدوں پر۔ اب وہاں ہجرتیں ہوں گی، لاکھوں لوگ قافلے کی صورت میں وہاں سے بھاگ آئیں گے خود ان کے آنے سے تضادات اور کھڑے ہوں گے جس طرح شام کے لوگوں کی ہجرتوں سے یورپ میں ہوا تھا۔
اب کے بار کابل پر سب کچھ بکھر گیا، کسے کچھ بھی خبر نہیں کیا ہونے جارہا ہے، ابھی وہ منظر تو نہیں بنا جو 2001 سے پہلے طالبان کی حکومت میں بنا تھا ، مگر پھر سے افغانستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کا کام شروع ہوچکا وہ مہاتما بدھا کا بامیاں کے پہاڑوں پہ بنا جو مجسمہ تھا، دو ہزار سال سے پہلے کا بنا ہوا ، کتنے راکٹ لانچر داغے طالبان نے مگر زخمی مجسمہ اب بھی وہیں کھڑا ہے۔
میرا دل اس وقت ریزہ ریزہ ہو کر ٹوٹ گیا جب طالبان نے موسیقی کی درسگاہ میں گھس کر سب کچھ توڑ پھوڑ دیا، گٹار، سارنگی ، طبلہ، ستار، بانسری ، ڈھولکی ۔ سب کچھ!میں کابل کی اس درسگاہ کی تاریخ میں گیا جس کو 2001 کے بعد آہستہ آہستہ پھر سے بحال کیا گیا۔ سب اس موسیقی سکھانے والے درسگاہ آتے تھے ، بچے، نوجوان ، لڑکے لڑکیاں ۔
جب امریکی فوجیں بغداد میں گھسی تھیں، جو ہوا سو ہوا، مگر جو سب سے بدترین ہوا وہ یہ تھا کہ انارکی اس زمان و مکاں میں لوگوں نے بغدا د کی لائبریری اور میوزیم کی طرف رخ کیا، وہاں سے سارے نوادرات چوری کیے، پرانی کتابوں کے نایاب نسخے اٹھائے اور وہی چیزیں اب لندن ، فرانس یورپ کے میوزیمز میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ مورخ لکھتا ہے کہ بغداد کا امریکی فوجوں کے سامنے جھک جانے کا جو بدترین گھائو تھا وہ اس صدام حسین کی بنائے اور سنبھالے میوزیم کا لوٹ جا نا تھا۔
جب آج سے ہزار سال قبل تاتاری ، بغداد میں گھسے ، دجلا و فرہاد تو لہو میں ڈوبے وہ الگ لیکن مورخ کی آنکھ میں سب سے چبھونے والا جو عمل تھا وہ بغداد کی عظیم لائبریر ی کو آگ لگانے والا عمل تھا۔ البیرونی ، ابو نثر ، ابن سینا ، ابن رشد کی تحریریں ، تحقیق و دریافتیں تھیں ، قدیم یونان کے بعد جو سب سے بڑی تہذیب جس نے آج کی سائنس کی بنیاد ڈالی وہ بغداد کی تہذیب تھی، جو منصور حلاج کی جرات کے کوکھ سے نکلی تھی ایک ایسا سماج جہاں علم کے پیدا ہونے کے وہ لوازمات موجود تھے ۔
رائے سے اختلاف رکھنے کا حق موجود تھا۔ فلسفہ ، ریاضیات ، کیماگری جو آج کے دور کی ہے، اس کی بنیادیں وہاں رکھی گئیں، پھر کیا ہوا؟ بغداد کا دفاع کمزور تھا ۔ بغداد کو ہلا کو اور چنگیز کی بربریت نے توڑ پھوڑ دیا۔ تبھی تو یہ بات سامنے آئی کہ ایک عظیم تہذیب کے دفاع کے لیے ایک عظیم فوج بھی درکار ہے ، مگر سیاستدان وہ قدیم روم کی پارلیمنٹ ہوں یا ہمارے دور کی فوج کو سیاست میں ملوث کردیتے ہیں اور وہی عظیم فوج اور اس کا سیاست میں آنا پھر پوری تہذیب کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔
کابل میں موسیقی اب کے بند ہوئی، طبلے بجانے والی انگلیاں ، بانسری بجانے والے ہونٹ ، ستار، سارنگی والے ہاتھ وہی ہیں ، مگر طبلہ نہیں نہ سارنگی ہے، ستار کچھ بھی نہیں ہے۔ کس طرح لگے گی آپ کو شرنائی بسم اللہ خان کے بغیر؟ بانسری ہری پرساد کے ، طبلہ ا ذاکر خان کے ستار روی شنکر کے بغیر؟
لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ سے جب انڈر گرائونڈ ٹیوب ٹرین کے طرف قدموں سے رخ کیا جاتا ہے ، نہ جانے کتنے گانے والے ، بجانے والے فقیر منش لوگ فٹ پاتھ پر بیٹھ ہوتے ہیں اور اپنی غربت کا داستان لیے آنے جانے والوں سے خیرات لیتے ہیں ۔ ''جو دے اس کا بھی بھلا ، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔'' کابل کے چوراہوں کو اب کے سانپ سونگ گیا ہو جیسے ، وہ اب دری فارسی اور پشتو گیت نہیں گا سکتے۔ وہ موسیقی کوجنم نہیں دے سکتے، ان کی رمز پر شاعری ، کتھا ، غزلیں اب کے کوئی نہیں گا سکتا، وہ لوریاں ، وہ داستانیں ، قصے کہانیاں ، کتابوں میں رہ گئیں، اب کے ان کو کتابوں کا کوئی چھوئے گا۔
ابا پہلی بار یورپ پچاس کی دہائی میں گئے تھے ، وہاں سے ایک گٹار لے کر آئے تھے ۔ میری پیدائش تک وہ ٹوٹ پھوٹ سا گیا ، مگر میں اس ٹوٹے ہوئے گٹار کو اپنے سرہانے کے پاس رکھتا۔ میری گھر میں طبلہ ، ہارمونیم ، ستار سب کچھ ہوتا تھا ۔ ہمارے آصف زرداری کے خالہ زاد بھائی منظور قریشی جو کہ پی ٹی وی سے بطور پروڈیوسر ریٹائر ہوئے ، ایک محفل میں ملے اور کہنے لگے کہ'' میں نے کلاسیکی موسیقی کو آپ کی بیٹھک پر دیکھا، چپکے سے دبے پائوں وہاں اپنے بچپن کے زمانے میں آتا تھا اور برصغیر کے ان بڑے بڑے راگیوں کو سنا۔
استاد بڑے غلام علی ، فتح علی، استاد امانت علی، اقبال بانو کون تھا جو نہیں آیا ہوگا۔ ''کل میں نے ایک خط جو فیض احمد فیض نے ابا کو لکھا ہے، بہت ہی مختصر اور مارکر کی سیاہی سے رقم ہے، وہ فریم کروانے کے لیے دے آیا کہ میری آنکھوں کے سامنے رہے اور جو وہ ذکر میرے والد کا ناصر کاظمی نے اپنی ڈائری میں کیا ہے۔
میاں افتخار سے لے کے مولانا بھاشانی تو اقبال بانو، فیض احمد فیض ، اس نے وکالت سے جتنے پیسے کمائے سب سیاست اور موسیقی کے نام کردیے، جب سقوط ڈھاکا تو جلاوطن ہوئے اور اس جلاوطنی میں انھوں نے اپنی گائیکی ریکارڈ کی جو میرے پاس موجود ہے جو میں ضرور آپ کے سامنے لائوں گا ۔ شا م کے وقت اکیلے آرام کرسی پر بیٹھتے اور گنگناتے ۔یوں کہییے کہ ریاض کرتے، سندھ کے سیاستدانوں کی تاریخ میںان سے بڑا موسیقی کامداح اور خود گائیک کوئی نہیں ہوگا۔
مجھے معاف کرنا کابل ، تمہاری دہلیز پر اب کے جو رسم چلی ہے، اس نے سب انسان دوستوں کو دکھی کردیا ہے کہ اب تم کسی پر بھروسہ نہ کرنا کہ اب یہاں انسانیت مرچکی ہے۔ مجھے معاف کرنا کابل کے بچوکہ تمہاری مدد کو نہیں آسکتا۔ ہم سب اسکرینوں پر یہ سب دیکھ کر کچھ رو تو سکتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ مجھے معاف کرنا کابل ، میں تمہارے ساتھ اس سانحے میں جو ہوا ہے، خود ایک مجرم ہوں ۔