لینڈ مافیا کی خونی سرگرمیاں
کراچی میں لینڈ مافیا کی سرپرستی بااثر افراد، پولیس، محکمہ ریونیو سندھ، بلدیہ عظمیٰ کے افسران کرتے آ رہے ہیں۔
کراچی میں زمینوں پر قبضہ سب سے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور ایسے افراد صبح اٹھتے ہی منصوبہ بناتے ہیں کہ آج کہاں زمین پر قبضہ کرنا ہے۔
اس بات میں سو فیصد حقیقت ہے اور کئی عشروں سے لینڈ مافیا، پولیس، بااثر افراد اور سرکاری سرپرستی میں یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور زمینوں پر قبضوں کا یہ کاروبار اب خونی شکل اختیارکرچکا ہے اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں صرف گلستان جوہر میں 38 سالوں کے درمیان 98 لوگ ان کے خلاف آواز بلند کرنے پر قتل کیے جاچکے ہیں اور ان بے گناہوں میں عیدالاضحی سے تین روز قبل گلستان جوہر میں دن دہاڑے دو افراد کے ہاتھوں اس کی فیملی کے سامنے کار سے اترتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بننے والا اظہر اقبال آرائیں بھی ہے جس کو موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم قاتلوں نے اس کے معصوم بچوں کے سامنے قتل کیا اور قاتل حسب معمول فرار ہوگئے تھے۔
کراچی میں اس وقت زمینوں پر قبضے کرانے والے لینڈ مافیا کے بااثر افراد سب مافیاؤں میں طاقتور ہیں جن کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا اور کرنے والے کا حشر اظہر اقبال جیسا کردیا جاتا ہے اور قاتل کبھی پکڑے نہیں جاتے اور جن کے خلاف اگر ایف آئی آر درج کرا بھی دی جائے تو وہ ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلیتے ہیں۔
سرکاری اراضی اور دوسروں کے خریدے ہوئے پلاٹوں پر قبضہ کرنا لینڈ مافیا کے لیے ناممکن نہیں کیونکہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اظہر اقبال کے قتل پر تعزیت کے لیے آنے والوں میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ، تحریک انصاف کے رہنما بھی شامل تھے اور حلیم عادل نے سندھ اسمبلی میں اس قتل پر آواز اٹھانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے رہنما متعدد بار سندھ حکومت کی شخصیات اور پی پی رہنماؤں پر لینڈ مافیا کی سرپرستی اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کے الزام پہلے بھی لگا چکے ہیں اور دونوں طرف کی الزام تراشی میں لینڈ مافیا کو تحفظ مل جاتا ہے اور حقائق چھپ جاتے ہیں۔ لوگوں کے خریدے ہوئے پلاٹوں پر لینڈ مافیا کے غیر قانونی قبضوں کے خلاف اکثر متاثرہ افراد کوئی آواز نہیں اٹھاتے اور رقم دے کر اپنے پلاٹوں کا قبضہ واپس لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر کوئی پولیس یا عدالت چلا جائے تو سالوں انھیں قبضہ واپس ملتا ہے نہ ان کے مقدمات کا جلد فیصلہ ہوتا ہے اور انھیں دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں جس پر وہ خاموش ہو کر اپنا پلاٹ اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے ورنہ مارا جاتا ہے۔
کراچی میں لینڈ مافیا کی سرپرستی بااثر افراد، پولیس، محکمہ ریونیو سندھ، بلدیہ عظمیٰ کے افسران کرتے آ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے دور میں چائنا کٹنگ بہت مشہور ہوئی تھی جس کا شور حکومتی ایوانوں اور عدالتوں میں بھی سنا گیا اور بہت سی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں مگر بعد میں کیا ہوا کچھ پتا نہیں۔ ایم کیو ایم نے تو سرکاری زمینیں حاصل کرکے وہاں پلاٹنگ کرکے اپنے کارکنوں کو وہاں مفت پلاٹ دیے تھے۔
پی پی کی سابق حکومت کے ایک بااثر وزیر نے اندرون سندھ سے لوگ کراچی بلا کر انھیں سرکاری زمینوں پر بسایا تھا مگر اپنے وعدے کے مطابق انھیں سہولتیں بھی دی تھیں جس پر بہت سے خاندان واپس چلے گئے تھے اور ان کی چھوڑی ہوئی زمین بھی لینڈ مافیا اور بااثر افراد نے ہتھیالی تھی۔
لینڈ مافیا کے بااثر افراد سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں میں بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہتے ہیں اور مخالف حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے تو وہ اسے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے دیتے ہیں اور عدالتوں سے بھی انھیں ریلیف یا حکم امتناعی مل جاتا ہے جو سالوں چلتا ہے۔ سرکاری زمینوں پر بااثر افراد قبضہ کرکے وہاں غریبوں کو بسا دیتے ہیں جہاں کچی آبادیاں بن جاتی ہیں جو بعد میں حکومتیں اپنے سیاسی مفاد ات کے لیے مالکانہ حقوق بھی دیتی آئی ہیں جو بعد میں قانونی بستیاں قرار پاتی ہیں۔
کراچی میں سرکاری زمینوں یا دوسروں کے پلاٹوں پر قبضے لینڈ مافیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور ایسا کرنے والے کروڑوں پتی بن چکے ہیں جن کے خلاف کبھی کبھی سیاسی آوازیں بھی اٹھتی ہیں جو بعد میں سیاست ہی کی نذر ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے لینڈ مافیا محفوظ اور طاقتور ہو چکی ہیں جن کی خونی سرگرمیوں سے سیکڑوں گھر اجڑ چکے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں۔