درخت ہماری ضرورت ہے
کراچی میں تعمیراتی اداروں نے شہر بسانے کی خاطر شہر کے درختوں اور جنگلوں کے درختوں کو بھی نہ چھوڑا اوربے دریغ کٹائی کی۔
پاکستان میں مون سون کا دورانیہ ویسے تو جولائی سے شروع ہوکر اگست کے وسط تک کا ہے لیکن دنیا میں موسموں کے تغیرات کے باعث اگست سے ستمبر تک چلا گیا ہے، مون سون کی بارشوں کے حوالے سے ہمارے یہاں خاصی دشواریوں کا سامنا ہوا ہے لیکن گزشتہ سالوں کی برسات کو دیکھتے ہوئے تیاریاں تو بہت ہیں امید ہے کہ اس خوبصورت موسم کو اچھی طرح گزار دیا جائے گا۔( انشا اللہ)
پچھلے بیس برسوں میں ہمارے یہاں خاص کر کراچی میں تعمیراتی اداروں نے شہر بسانے کی خاطر شہر کے درختوں اور جنگلوں کے درختوں کو بھی نہ چھوڑا اور بے دریغ کٹائی کی اس بے دردی کی سزا ہم سب دیکھ ہی چکے ہیں، یہ قدرت کا اصول ہے، شدت نقصان کی جانب لے جاتی ہے اور یوں شہر بھر میں گرمی کی شدت، فضائی آلودگی اور اب گزشتہ چند برسوں سے ڈپریشن کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مسئلے کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے، ہریالی، پھول، پودے اور فضا میں پرندوں کی چہکار قدرتی ماحول سے جوڑتی ہے اور قدرت ہمیشہ اپنی جانب کشش رکھتی ہے۔
یہ کشش انسان کو صحت ، تندرستی کے ساتھ دماغی طور پر بھی تر و تازہ رکھتی ہے ، لیکن ہم نے جدت پسندی کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے قدرتی اصولوں کو نظرانداز کردیا تھا جس کا خمیازہ ہمیں اٹھانا ہی پڑا۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں درختوں اور جنگلوں کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سی سرکاری اور خاص کر غیر سرکاری تنظیمیں بھی درخت لگاؤ مہم میں بہت سرگرمی دکھا رہی ہیں، آج کے پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
فاسٹ اربن فاریسٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے، دنیا بھر میں ان پر تجربات کیے گئے اور اس کے بہت مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں، اسی طرز کے میاواکی جاپان کی ایک تیکنیک ہے جس کے ذریعے کم عرصے میں ایسے درخت اگائے جاتے ہیں جو جلد ہی گھنے جنگل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، مون سون کی بارشوں کے استقبال سے پہلے ضروری ہے کہ وہ تمام تیاریاں کرلی جائیں جن سے مستقبل کے درخت اور لہلہاتے جنگلات ہمارے ملک کے لیے ترقی اور خوشحالی کا سامان لے کر آئیں۔
اگست کے مہینے کی شروعات ہی ایسی مفید تیاریوں سے شروع ہوچکی ہیں اور اس بار عوام میں یہ شعور بھی اجاگر ہوا کہ ہری جھنڈیوں کے ساتھ ہرے بھرے جاندار پودوں کی بوائی بھی کی جائے، سچ تو یہ ہے کہ حکومتی ادارے عوام کو سمجھانا، بتانا اور شعور اجاگر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، جیسے درختوں اور ہریالی کی اہمیت۔
لاہور میں دس بلین درختوں کی بوائی کا تاریخی کارنامہ انجام دیا گیا ، جو یقینا ایک صحت افزا اقدام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس دنیا کے سب سے بڑے میاواکی فاریسٹ پروجیکٹ کا افتتاح کیا جو یقینا پاکستان کے لیے خوش آیند بات ہے۔ ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی انسانی جانوں کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہے جس کے ثمرات بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں، جس سے نہ صرف سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بلکہ نزلہ زکام، کھانسی، الرجی کی صورت میں بیدار ہو رہے ہیں، یہ معمولی بیماریاں دائمی امراض بن کر لوگوں کے لیے مستقل خطرات بڑھا رہی ہیں۔
ویسے تو سوشل میڈیا اور مختلف ذرایع کے ذریعے جلدی پیدا اور بڑھنے والے درختوں کے متعلق پتا چلتا ہی رہتا ہے لیکن پھر بھی ہمارے نوجوانوں اور بچوں میں درخت لگاؤ اور باغبانی سے دلچسپی پیدا کرنا ازحد ضروری ہوگیا ہے، بلکہ اگر اسے مضمون کے طور پر کورس میں شامل کردیا جائے تو بہت اچھا ہے، چند ایسے آسان اور جلدی بڑھنے والے درختوں میں مورینگا جسے اردو میں سوہانجنا کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ جنتر، نیم، شہتوت، انجیر، اِپل، ہر ہر، ڈیرک شامل ہیں یوں تو یہ فہرست بڑی ہے لیکن ہمارے ملک کی آب و ہوا کے لحاظ سے مورینگا یعنی سوہانجنا سب سے بہترین ہے۔ یہ ایک ایسا مفید درخت ہے جس کی جڑوں، پتوں اور بیج تک انسانی صحت کے لیے مفید ہے اس کا لگانا بھی آسان ہے، ایک پلاسٹک کی چھوٹی سی تھیلی میں بھی اس کا بیج ڈال کر اسے اگایا جاسکتا ہے، جب کہ اسے کیاریوں، صحن یا میدانوں میں زمین کھو د کر پانی ڈال کر چھوڑ دیا جائے اور چار دنوں میں ہی یہ اپنی شناخت ظاہرکردیتا ہے اور چند ہفتوں میں ہی یہ چھ سے آٹھ فٹ تک چلا جاتا ہے اور ایک سال میں یہ بھرپور درخت کی صورت میں لہلہانے لگتا ہے۔
جلدی اگ جانے والے درخت دوسرے عام پودوں کی مانند حساس نہیں ہوتے جنھیں دھوپ سے بچانے اور ہر وقت دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے انھین زمین میں بو کر مناسب پانی دے کر فارغ ہو جائیے اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک جنگل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، پودے اگانے کے لیے کھاد کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لیے بھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے جب کہ اس کے لیے بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کھاد بنانے کے آسان طریقے بھی اب دستیاب ہیں صرف یہی نہیں بلکہ پودوں کو کیڑوں سے بچانے یا بیماریوں سے بچانے کی تراکیب بھی آسان ہیں۔
کھاد خریدنے کے بجائے اپنے گھر کے اندر ہی جھانک کر دیکھیے تو بہت سی ایسی چیزیں دستیاب ہیں جن پر پیسے خرچ نہیں ہوتے مثلاً سبزی اور فروٹ کے چھلکے، انڈے کے چھلکے، چائے کی وہ پتی جو چائے بنانے کے بعد بے مصرف ہی رہتی ہے لیکن کھاد بنانے کے عمل میں خاصی کام آتی ہے اس کے علاوہ ایک اور آسان ترکیب یہ بھی ہے کہ بقر عید کے دنوں میں بکری اور گائے وغیرہ کے فضلہ جات کو جمع کرکے ایک گڑھے میں دبا دیں اس طرح گند بھی نہیں پھیلتا اور ضرورت پڑنے پر اس گڑھے میں دبی وہ گندگی ایک صحت مند کھاد کی صورت میں آپ کے پودوں اور درختوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اب چونکہ بقر عید تو گزر چکی ہے لہٰذا گھر سے باہر پھینکنے والے چھلکا جات کو زمین میں گڑھا بنا کر دفن کردیں۔
مہینہ بھر بعد ہی یہ گڑھا ایک اچھی کھاد کی صورت میں تیار ہے، درختوں کو کیڑے یا بیماریوں سے بچانے کے لیے پانی میں ہلدی ملا کر پکائیے اور ابالنے کے بعد اسے ٹھنڈا کرلیں۔ ایک پتیلی دو تین چمچے اس کے بعد اسے درختوں کی جڑوں میں تھوڑا تھوڑا ڈال دیں تو خاص طور پر وہ درخت جو پھل دیتے ہیں کیڑوں سے محفوظ رہیں گے۔
اسی طرح کے ڈھیروں گھریلو نسخے باآسانی دستیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں میں فطرت سے محبت پیدا کرنے کا رجحان بڑھائیں کیونکہ آنے والا مستقبل ہمیں کوئی اور ہی نہیں سنا رہا ہے، قدرت کی جانب سے یہی اشارہ مل رہا ہے کہ مصنوعی انداز اب ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں ہمیں واپس پلٹنا ہی ہوگا ، تنزلی کے لیے نہیں بلکہ ترقی کے لیے۔