تین سال تین سوال

عوام خودکشیوں پر مجبور کرنے والے حکمران سے تین سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں۔


MJ Gohar September 03, 2021

مولانا جلال الدین رومیؒ حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بوڑھے شخص نے طبیب سے کہا کہ '' میں ضعف دماغ میں مبتلا ہوں۔'' طبیب نے جواب دیا کہ '' یہ ضعف دماغ بڑھاپے کے سبب سے ہے۔'' پھر مریض نے کہا کہ ''میری آنکھ میں دھندلا پن آگیا ہے۔''

طبیب نے جواباً کہا کہ '' اے مرد بزرگ ! یہ بھی بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔'' مریض گویا ہوا کہ '' میری کمر میں درد رہتا ہے۔'' طبیب نے کہا کہ '' یہ بھی بڑھاپے ہی کی وجہ سے ہے۔'' مریض پھر لب کشا ہوا کہ ''کھانا ہضم نہیں ہوتا۔'' طبیب نے جواب دیا کہ '' ضعف معدہ بھی بڑھاپے کی علامت ہے'' بوڑھا مریض پھر بولا کہ'' اے طبیب ! میرا سانس رک رک کر چلتا ہے۔''

طبیب گویا ہوا کہ '' ہاں! جب بڑھاپا آتا ہے تو سو بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ سانس بھی رک رک کر آتا ہے۔'' بوڑھا مریض پھر گویا ہوا کہ ''میرے پاؤں بے کار ہوگئے ہیں، چلا نہیں جاتا۔'' طبیب نے کہا کہ '' اس بڑھاپے نے تجھے گوشہ نشین کردیا ہے۔'' مریض بولا کہ ''میری کمر دہری ہوگئی ہے۔'' طبیب نے کہا کہ '' یہ بھی ضعیفی کی وجہ سے ہوئی ہے۔'' آخر کار بوڑھا مریض (جھنجھلا ) کر بولا کہ ''اے احمق طبیب ! تو میری ہر بات کے جواب میں ایک ہی بات رٹے جاتا ہے۔

ضعیفی، ضعیفی اور بس ضعیفی۔۔۔۔ کیا طب میں تو نے بس یہی سیکھا ہے۔ ارے بد دماغ طبیب! خدا نے ہر درد کی دوا مقررکی ہے۔ تُو احمق گدھا اپنی نا واقفیت کی وجہ سے زمین پر پڑا لوٹ رہا ہے۔'' پس طبیب نے جواب دیا کہ'' اے پیر فرتوت یہ تیرا غصہ بھی بڑھاپے ہی کے سبب ہے۔ جب تیرے سب اجزا اور اعضا کم زور ہوگئے تو صبروضبط کی قوت بھی کم ہوگئی ہے ، جسے بات کی برداشت نہیں ہوتی وہ گرم آواز نکالتا ہے اور جو ایک گھونٹ بچا نہیں سکتا ، اسے قے ہو جاتی ہے۔ ہاں! مگر وہ بوڑھا جو حق کا متوالا ہے اس کے اندر پاک زندگی ہے۔ ایسا شخص ظاہر میں بوڑھا اور باطن میں بچہ ہوتا ہے۔

کچھ ایسا ہی برا حال حکومت اور عوام کا ہے۔ عام آدمی کے لیے جیون کانٹوں کا بچھونا بن گیا ہے، لوگ غربت، بے روزگاری، بھوک، افلاس، بیماری اور سب سے بڑھ کر تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان اور شکوہ طراز ہیں، ان کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا سوہان روح بن گیا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا آٹا، چاول، چینی، گھی، تیل، سبزی، انڈے، دودھ، گوشت غرض ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

ایک عام دیہاڑی دار مزدور جسے دو دن اجرت نہ ملے شام کو خالی ہاتھ گھر جائے تو وہ اپنے بچوں کی بھوک کیسے مٹائے گا، مکان کا کرایہ، بجلی و گیس کے بل اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کیوں کر پورے کرسکے گا۔ کچھ ایسا ہی حال زار تنخواہ دار طبقے کا ہے جسے اپنی محدود آمدنی ہی میں سے مذکورہ سارے اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں ، جب کہ آجر حضرات اپنے مزدوروں کی تنخواہیں بڑھانے میں اس قدر بخل سے کام لیتے ہیں کہ اجیرکا خون نچوڑ لیتے ہیں اور پورا معاوضہ ادا نہیں کرتے۔ اس پہ مستزاد کورونا وائرس کی کاری ضربات نے معاشی سرگرمیوں کو اس بری طرح پامال کر رکھا ہے کہ الحفیظ الامان۔ بار بار کے لاک ڈاؤن کے باعث کاروباری و تجارتی طبقہ الگ پریشان حال ہے کہ کس طرح اپنا اور اپنے زیر سایہ کام کرنے والے ملازمین کے روزگار کا تحفظ کرے۔ کیسے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائے۔

ادھر حکمران ہیں کہ حال مست ہیں عوام کے دکھ تکلیف اور بڑھتے ہوئے مسائل اور پریشانیوں سے انھیں کوئی سروکار نہیں، عام آدمی جب بھی آواز بلند کرتا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، روزگار نہیں ملتا، بجلی، گیس اور دواؤں کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو رہا ہے، روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہوتی جا رہی ہے، آٹا ، چینی، چاول، گھی، تیل اور دیگر اشیائے ضروریہ خریدنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ تو دوسری طرف حاکم وقت عوام کے مطالبے کے جواب میں بس ایک ہی بات کہتا ہے کہ ''گھبرانا نہیں ہے، گھبرانا نہیں ہے، جلد اچھا وقت آئے گا، حالات بدل جائیں گے، ''تبدیلی'' آکے رہے گی'' وغیرہ وغیرہ۔

اچھی جمہوری حکومت کی نشانی اور پہچان یہ ہے کہ وہ اقتدار میں ہو تو اپنے منشور میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ آج پی ٹی آئی کی حکومت اپنی تین سالہ کارکردگی پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے، ہم نے گزشتہ تین سالوں میں ''حیرت انگیز '' کارنامے انجام دیے ہیں، خود وزیر اعظم عمران نے 26 اگست 2021 کو جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی پیش کرنے کے لیے باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مشکل وقت میں گھبرانا نہیں چاہیے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ عوام میں خوشحالی آ رہی ہے، ہمارے اعداد و شمار اسحاق ڈار والے نہیں ہیں بلکہ اصلی ہیں۔ حکومت اپنی تین سالہ کارکردگی کو گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں بہتر اور تسلی بخش قرار دے رہی ہے۔

سیدھا سا سوال ہے کہ 2018 میں پی ٹی آئی کے منشور میں بدعنوان عناصر کا کڑا احتساب بنیادی نعرہ تھا ، آج تین سال بعد کتنے لوگوں کو احتساب کے ضمن میں سزائیں ہوئیں؟ کیا گھر سے احتساب کا وعدہ پورا ہو گیا؟ کیا لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے وطن لائی گئی؟ کیا عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آگئی ہے؟ کیا بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہو گیا؟ کیا آئی ایم ایف کے چنگل سے جان چھوٹ گئی؟ کیا اشیائے خور و نوش کی جو قیمتیں 2018 میں تھیں آج ان میں ناقابل یقین اضافہ نہیں ہوا؟ جیسے چینی 54 روپے سے 110، گھی 185سے 318، آٹا 20 کلو 900 سے 1600 اور چکن 190 سے 380 روپے غرض روزمرہ استعمال کی ہر شے حد درجہ مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

کیا یہی ''تبدیلی'' ہے؟ جس کا خواب عمران خان نے عوام کو دکھایا تھا۔ عوام خودکشیوں پر مجبور کرنے والے حکمران سے تین سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں۔ اول کیا بقیہ دو سال بھی ''گھبرانا نہیں '' کی گردان کرتے ہوئے گزریں گے؟ دوم کیا حکومت اپنے منشور میں عوام سے کیے گئے تمام وعدے پورے کرے گی؟ سوم کیا ایسی پست کارکردگی کی بنیاد پر پی ٹی آئی اگلا الیکشن جیت سکے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں