افغانستان میں تبدیلی کا محتاط عمل
افغان قیادت ایک دم سے ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو تبدیلیوں کے عمل میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی ناانصافیوں کو روکنے کے لیے اور مستقبل میں دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک ادارہ بنایا گیا جس کا نام اقوام متحدہ رکھا گیا۔
اس ادارے کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے بڑی طاقتوں اور سامراجی ملکوں کے زیر اثر ہے، بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران افغان عوام کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں، وہ تاریخ کا حصہ ہیں بڑی قربانیوں کے بعد افغان عوام نے آزادی حاصل کی ہے اور ایک نئے ملک کی طرح افغانستان کو بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب تک افغانستان میں کوئی ذمے دار جمہوری حکومت قائم نہ ہو سکی ، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کا تاریخی پس منظر غیر سیاسی ہے ، چونکہ افغانستان میں قبائلی نظام ہے اور اس کے رسم و رواج ہیں جو اس کے آگے بڑھنے کے راستے میں مزاحم ہیں۔ اگرچہ امریکا بڑی مشکلوں سے افغانستان سے چلا تو گیا ہے لیکن اس کی کوشش یہی ہے کہ افغانستان کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے،لیکن دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور افغانستان کے حوالے سے بھی دنیا کی رائے عامہ سامراجی امریکا کے مخالف ہے۔
قبائلی معاشروں میں پلنے والوں کے لیے یہ بہت مشکل امتحان ہے کہ وہ جدید جمہوری دور میں داخل ہوں جب کہ سامراجی ملک آج بھی افغانستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ دور افغانستان کی قیادت کے لیے پرآشوب دور ہے۔ افغانستان میں قبائلی نظام ہے قبائلی نظام کو کسی انتظامی آرڈر کے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے بنیادی طور پر علم کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کی قبائلی قیادت اس حقیقت کو سمجھے گی کہ ملک کی ترقی کے لیے عوام میں تعلیم لازمی ہے اور یہ کام بہت احتیاط سے بتدریج کیا جانا چاہیے۔
افغان قیادت ایک دم سے ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو تبدیلیوں کے عمل میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ قبائلی معاشروں میں عورت کی حیثیت بہت کم تر ہوتی ہے ، اسے چولہے چکی تک محدود رکھا جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بتدریج معاشرے میں تبدیلی لائی جائے سب سے پہلے دو اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ پرائمری تعلیم شروع کی جائے، دوسرا یہ کہ تعلیم برائے بالغان شروع کی جائے تاکہ بالغوں میں شعور پیدا ہو، اسی راہ پر چل کر افغان عوام کو باشعور بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں افغان قیادت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے پاکستان سے تعاون حاصل کرے کیونکہ پاکستان اور بھارت دو متحارب ملک ہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان ہمیشہ پاکستان کا مخالف اور بھارت کا حامی رہا ہے۔ بھارت کے مفادات کا یہ تقاضا تھا کہ وہ پاکستان دشمن فکر کو پروان چڑھایا جائے اور یہ کام سابقہ افغانستان نے پوری تن دہی سے کیا ، اگرچہ آج افغانستان میں ایک نئی قیادت پیدا ہوئی ہے لیکن بھارت کے مفادات افغانستان میں اتنے گہرے ہیں کہ وہ یک لخت پاکستان اور ہندوستان کے حوالے سے پالیسیاں تبدیل نہیں کرسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت محتاط طریقے سے اس سمت میں قدم اٹھایا جائے ۔
امید کی جاسکتی ہے کہ افغان طالبان حکومت کی تشکیل میں فراخ دلی سے کام لے کر وسیع البنیاد حکومت بنانے کا اعلان کرے گی۔ افغان قیادت خود کو ترقی پسند ظاہر کرنے کے لیے خواتین کو غیر معمولی آزادی دینے کی باتیں کر رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی خاص طور پر حصول علم کی آزادی خواتین کا حق ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے تعلیم کا تصور مشکل تھا بتدریج ہی اس سمت میں قدم بڑھایا جاسکتا ہے کیونکہ مسئلہ آنے والی نسلوں کا ہے۔
یہ بات طے ہے جب تک افغان عوام تعلیم کی روشنی سے منور نہیں ہوں گے جدید افغانستان کا تصور دھندلا رہے گا۔ داخلی حوالے سے بھی یقیناً موجودہ قیادت کے مخالفین متحرک ہوں گے چونکہ ملک میں قبائلی سوچ کے حامل لوگ بڑی تعداد میں ہو سکتے ہیں جو ترقی پسندانہ اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔
پاکستان افغانستان کا نہ صرف پڑوسی ملک ہے بلکہ مذہب کے حوالے سے بھی افغانستان کا ہم مذہب ہے جس کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت بہت اہم ہے لہٰذا سامراجی ملکوں کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ نئی افغانستان حکومت کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہیں۔ امریکا کی طرف سے افغانستان کو جو امداد ملتی رہی ہے۔
امریکا کو چاہیے کہ اسے بند یا ختم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرے تاکہ افغانستان کی ترقی بلکہ تیز تر ترقی ممکن ہو سکے۔ افغان قیادت افغانستان میں ترقی پسندانہ تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہی ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن یہ عمل محتاط طریقہ سے کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اعتماد میں لینا بہت فائدہ مند ہے اور پاکستانی قیادت بھی افغانستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے جس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔