شرعی پردہ اور طالبان پہلا حصہ
اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔
پردے سے بیزار اور شرعی پردے کے دلدادہ افراد کے درمیان تو عورت مارچ اور اس کے بدنام زمانہ نعرے'' میرا جسم میری مرضی'' نے ایک ایسی خلیج اور تفریق پیدا کی جو ایک مسلم معاشرے میں کسی المیہ سے کم نہیں، جس پر ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں۔
دیسی لبرلز اور ماہرین کے مطابق تو طالبان کے جرائم کی لسٹ بہت طویل اور کافی پرانی ہے مگر فتح کابل اور امارت اسلامی افغانستان کے قیام کے ساتھ حکومتی ذمے داران کے اعلان سے پہلے پھر سے ایک نئی قوت سے شورو غوغا کر رہے ہیں، ان کے خیال میں خواتین کا شرعی پردہ لسٹ میں سر فہرست ہے۔
14 اگست کو مینار پاکستان کے سایہ میں رونما ہونے والے دل دہلانے والے واقعے نے مجھے ایک بار پھر اس موضوع پر لکھنے پرمجبور کیا۔ ایک دیسی لبرل اور باپردہ خاتون کے مکالمے سے بات شروع کرکے کوشش کرونگا کہ یہ سمجھا سکوں کہ اللہ کے اوامر و نواہی پر بحث کی گنجائش ہے اور نہ انسانی عقل اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔
بینکاک سے نیوزی لینڈ جانے والی ایک فلائٹ پر پاس بیٹھی باحجاب لڑکی سے ایک لبرل خیالات کے حامل مسافر نے سوال کیا ''ہم کیوں نہ کچھ بات چیت کر لیں، سنا ہے اس طرح سفر با آسانی کٹ جاتا ہے۔''
کتاب پڑھنے میں مصروف باحجاب لڑکی نے کتاب سے نظر اْٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا: ''ضرور، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟''
اْس شخص نے کہا: '' ہم بات کر سکتے ہیں کہ اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے؟ یا اسلام عورت کو مرد کے جتنا وراثت کا حقدار کیوں نہیں دیتا؟ ''
لڑکی نے پوری دلچسپی کے ساتھ سوال سنا اور نہایت دھیمے انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا: ''ضرور، لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔''
اس شخص نے پوچھا: ''کیا؟''
لڑکی نے کہا: ''گائے، گھوڑا اور بکری ایک سا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں لیکن ان کا فضلاء مختلف ہوتا ہے مثال کے طور پر گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟''
وہ شخص اس سوال سے چکرا گیا اور کھسیا کر بولا:''مجھے اس کا پتا نہیں۔''
اس پر لڑکی بولی: ''کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بنائے قوانین، پردہ، وراثت اور حلال و حرام پر بات کرنے کے اہل ہیں جب کہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں ؟'' جواب سن کر لبرل مسافر کے دماغ میں روشن خیالی کے جتنے بلب تھے سب کے سب فیوز ہوگئے اور اس کے چہرے کی رنگت اس کی پتلی حالت کا پتا دے رہی تھی۔ بیچارے کا نامحرم خاتون سے بات کرنے کا شوق بھی اتر گیا اور اس کے اندر پایا جانے والا لبرل ازم اور روشن خیالی کا کیڑا بھی سکون کی نیند سوگیا۔ نام نہاد لبرلز کا یہی حال ہوتا ہے، لیکن انھیں اس طرح کی '' عزت افزائی'' کی جیسے عادت سی پڑ گئی ہے۔
پردے پر تو قرآن و حدیث سے لے کر ہمارے کلچر اور اقدار کی روشنی میں کتابیں موجود ہیں اور مزید لکھی جاسکتی ہیں مگر جو لوگ پردے کے خلاف ہیں، اسے عورتوں پر ظلم اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں ان کے لیے اگر قرآن و حدیث کی اوامر اور نواہی کافی ہوتی اور وہ اسے دلیل سمجھتے تو کبھی ایسا نہ کرتے۔ اور نہ انکو ہمارے معاشرتی اقدار کی فکر ہے وہ برملا اس کی مخالفت میں "میرا جسم میری مرضی" ٹیم کا حصہ یا ان کے وکیل ہیں۔ قرآن کے واضح حکم کی برملا مخالفت کرتے ہیں تو اس کے پیچھے واحد محرک مغرب کا مادر پدر آزاد اور بے لباس معاشرے کا عشق ہے۔
لہٰذا انکو اگر دلیل اور مثال ان کے پسندیدہ معاشرے اور آئیڈیل لوگوں کی ہی دی جائے تو اصلاح کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اگر نہ بھی مانے تو اپنے موقف میں ضرور نرمی لائیںگے۔ یہاں صرف دو نامی گرامی نو مسلم خواتین کا ذکر کرونگا اور پردے کے متعلق ان کی رائے اور بات کو انورٹییڈ کامہ inverted comasمیں قارئین کے لیے پیش کرونگا انشاء اللہ اس سے بہت سے مسلمانوں کا فائدہ بھی ہوگا اور طالبان کے بارے میں ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کی بیگم کی سگی بہن لارن بوتھ کی وڈیوز قارئین نے دیکھی ہوگی۔ ایک تقریب میں ان کی دونوں معصوم بیٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور وہ حاضرین کو بتارہی ہیں کہ ''جب میں کافی مطالعے کے بعد اسلام کی طرف راغب ہوئی تو میں نے اپنی بیٹیوں کو بتایا کہ اب میں مسلمان ہونے جارہی ہوں، اس پر انھوں نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے، ایک سوال تھا۔ "Mom! will you open your chest to the public?" (ماما کیا آپ مسلمان ہونے کے بعد بھی سینہ نمایاں کرکے لوگوں میں پھریں گی؟) میں نے کہا "Oh! no I will cover my whole body" اس پر انھوں نے بڑے زور سے پْر مسرت نعرہ لگایا''۔
پھر وہ سامعین سے مخاطب ہوئیں۔
''میرا حجاب میرے مسلمان ہونے کاسمبل ہے، یہ میرے لیے شرف اور افتخار کا باعث ہے۔ مجھے حجاب سے اس لیے محبت ہے کہ میرے اللہ سبحانہٰ تعالیٰ کی خوشی اور خوشنودی اِسی میں ہے"۔
محترمہ دوسال پہلے پاکستان تشریف لائیں تو ایک محفل میں وہ پاکستانی خواتین کو بار بار کہتی رہیں کہ"پاکستانی لڑکیوں کو بتائیں کہ عریاں اور ٹرانسپیرنٹ لباس پہننا یا ٹائٹس پہن کر خود کو نمایاں کرنا ماڈرن ازم نہیں، بے حیائی ہے۔ انھیں بتائیں کہ شیطان کا پہلا حملہ عورت کے لباس پر ہوتا ہے۔ مسلم خواتین کو اپنی تہذیب اور اپنے کلچر پر فخر کرنا چاہیے، مغرب، اسلامی معاشروں سے حیاء کا سرمایہ چھین کر مسلمان لڑکیوں کو بے حیا بنانا چاہتاہے، وہ مسلمانوں کی حمیت ختم کرنے کے لیے حیاء کے قلعے کو مسمار کردینا چاہتا ہے''۔
جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''میرا حجاب میرے لیے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کی یاد دہانی ہے۔ حجاب پہن کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اللہ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔ جس طرح پولیس اور فوج کا سپاہی وردی میں اپنے پیشے کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے اسی طرح حجاب بھی مجھ سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔
اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ نیم عریاں یا ہیجان انگیز لباس کا مطلب ہوتا ہے اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو میں تیار ہوں، جب کہ حجاب واضح طور پر بتاتا ہے "میں آپ کے لیے ممنوع ہوں۔''
(جاری ہے)