دنیائے مغرب کی ’’آزاد‘‘ خواتین
افغان عورتوں کے حقوق خطرے میں ہونے کا واویلا مچانے والے مغربی ممالک میں آباد خواتین کس قسم کی زندگی گذار رہی ہیں؟
کیا وہ مطمئن وپُرسکون ہیں؟…چشم کشا حقائق۔ فوٹو : فائل
پچھلے دنوں افغان طالبان نے خلاف توقع مادی و عسکری طور پہ کہیں زیادہ طاقتور مغربی حریفوں کو شکست دی تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کا میڈیا فوراً ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لگا۔
اس پروپیگنڈے کا لب لباب یہ تھا کہ طالبان انسانی حقوق غصب کر لیتے ہیں۔ خاص طور پہ خواتین کو ان کے حقوق نہیں دیتے اور انھیں گھر میں قیدی بنا کو دم لیتے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے۔جو خواتین بیوہ یا طلاق یافتہ ہیں،انھیں بھی کام کرنے سے روکتے ہیں۔طالبان کی حکومت میں گویا عورت ایک طرح سے مردوں کی غلام بن جاتی ہے۔نیز فنون لطیفہ کا بھی گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔پابندیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔وغیرہ۔
اچھائی نمایاں نہیں ہوئی
مغربی میڈیا نے یہ حقیقت کم نمایاں کی کہ طالبان نے پہلے دور حکومت میں افغانستان میں جرائم اور قتل وغارت گری کا خاتمہ کر دیا تھا۔عوام کو ظالم جنگی سرداروں سے نجات دلائی۔عدل و انصاف کا بول بالا کیا۔پوست کی کاشت کا خاتمہ کیا۔اسی پوست سے بنی ہیروئن امریکا و یورپ میں پہنچ کر لاکھوں نوجوانوں کو نشئی بنا رہی تھی۔
گویا طالبان نے تو پوست تباہ کر کے دنیائے مغرب پر احسان کیا کہ ان کی اگلی نسلوں کو تباہی سے بچا لیا۔اسی طرح مغربی میڈیا یہ سچائی بھی سامنے نہیں لایا کہ ماضی میں خصوصاً طالبان کے نظریات اور طرز حکمرانی کسی حد تک '' پختون ولی''سے ماخوذ تھی۔ یہ اصطلاح پختونوں کے معاشرے میں مروج چار پانچ ہزار سالہ قدیم اقدار،روایات اور رسوم و رواج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پختون ولی میں عظیم اخلاقی اقدار ملتی ہیں مگر ہر انسان ساختہ طرز حیات کی طرح یہ نقائض بھی رکھتا ہے۔چونکہ تقریباً سبھی طالبان رہنما پختون تھے لہذا انھوں نے حکمران بنتے ہی پختون ولی کی ایسی روایات بھی اپنے طرز حکمرانی کا حصّہ بنا لیں جو علما کی رو سے ضروری نہیں کہ حقیقی اسلام سے مطابقت رکھتی ہوں۔
مثال کے طور پر آج بھی بعض مرد حیلے بہانے سے بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت میں سے حصّہ نہیں دیتے۔ یہ رواج اسلامی تعلیم سے متصادم ہے ۔کچھ مرد خواتین کے گھر رہنے کے اسلامی حکم میں غلّو کرتے اور ان کی جائز نقل وحرکت پر بھی پابندیاں لگا دیتے ہیں۔اس باعث تیس سال قبل سبھی علما طالبان کے وضع کردہ طرز حکمرانی سے سو فیصدی متفق نہیں تھے۔مگر مغربی میڈیا طالبان کو اسلام کا نمائندہ قرار دے کر ہمارے دین اور اسلامی تعلیمات کو بدنام و مسخ کرنے کی بھرپور سعی کرتا ہے۔یہ اس کا مخصوص طریق واردات ہے۔
اسلام میں غلو نہیں
یہ امر باعث مسّرت ہے کہ پچھلے بیس برس کے دوران طالبان کے نظریات میں اعتدال پسندی در آئی ہے۔یہ معتدل مزاجی دین اسلام کا وصف خاص ہے۔قران پاک میں مسلمانوں کو غلو(انتہا پسندی)اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔(سورہ المائدہ۔77) اسی طرح سورہ البقرہ۔143میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ''امت وسط'' کہا ہے۔
یعنی ایسی امت جو عدل وانصاف کی روش اپناتی اور اعتدال (درمیانی راہ) پہ گامزن ہوتی ہے۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:''اے لوگو!دین میں غلو نہ کرو،تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے سے ہی ہلاک ہوئے۔''(ابن ماجہ) امام دیلمیؒ نے اپنے مجموعہ حدیث(مسند الفردوس)میں حضرت ابن عباسؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے:''خیر الامور اوسطہا''۔یعنی بہترین کام اعتدال کے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے مرد اور عورت برابر ہیں۔صرف جسمانی و ذہنی فطری ساخت کے سبب ان کو ذمے داریاں الگ الگ تفویض کی گئیں۔مرد بیرونی کام کاج کرتا،آمدن کماتا اور بیوی بچے پالتا ہے۔عورت گھریلو کام انجام دیتی اور بچوں کی تربیت کرتی ہے۔مگر دین ِمعتدل ہونے کے ناتے اسلام نے بیواؤں،طلاق یافتہ اور ایسی خواتین کو باہر جا کر کام کرنے کی اجازت دی ہے جنھیں کسی مرد کا سہارا میسّر نہ ہو۔یہ خواتین حجاب میں رہتے ہوئے مختلف کام انجام دے سکتی ہیں۔تاہم انھیں یہ تاکید بھی کی گئی ہے کہ حتی الوسع ایسے کاموں سے پرہیز کریں جن میں مردوں سے بہت زیادہ گھلنا ملنا ہو۔
ایسا ان کی پاکیزگی و عفت برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔لیکن بحالت مجبوری مکمل حجاب کے ساتھ یہ کام بھی کر نا ممکن ہے۔اگر گھرانے کے سربراہ کی آمدن کم ہے تو اس گھر کی خواتین بھی با حجاب طور پہ ملازمت کر سکتی ہیں۔غرض دین اسلام نے زندگی کی مجبوریاں مدنظر رکھ کر اور حالات کے مطابق مسلم خواتین کو کام کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔اسی طرح تعلیم وتربیت پانے کے لحاظ سے بھی قران و سنت کا یہی فرمان ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں،دونوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔وجہ یہ کہ یہ تعلیم ہی ہے جو ایک لڑکی کو اچھی بیٹی،بہن،بیوی اور ماں بننے میں بھرپور مدد دیتی ہے۔
مثبت تبدیلی
درج بالا حقائق کی روشنی میں اب طالبان نے افغان خواتین کو بیرونی کام کاج کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ویسے بھی زمانہ قدیم سے روایت ہے کہ افغان عورتیں مختلف بیرونی کام کرتی رہیں۔مثلاً حضرت دائی حلیمہؓ کے نقش قدم پہ چل کر مویشی چراتی ہیں۔جانوروں کے لیے چارہ اور گھر میں ایندھن کی خاطر لکڑی جمع کرتی ہیں۔
ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی راہ پہ گامزن ہو کے تجارت اور کاروبار میں بھی منہمک رہیں۔پھر افغان خواتین کا یہ طرہّ امتیاز ہے کہ وہ ضرور حجاب یا چادر لیتی ہیں۔کئی کو پردہ کرنا پسند ہے۔اب طالبان خواتین پہ یہ زور نہیں دے رہے کہ وہ مکمل پردہ کریں۔اس فیصلے کا اختیار انھوں نے خواتین پہ چھوڑ دیا ہے۔غرض طالبان کے عملی اقدامات سے عیاں ہے کہ وہ پہلے کی طرح شدت پسند نہیں رہے جو ایک نہایت مثبت تبدیلی ہے۔
مغربی میڈیا کا خاص کردار
طرفہ تماشا یہ کہ سی این این،بی بی سی ،گارڈین اور دیگر مغربی میڈیا کے طالبان مخالف پروپیگنڈے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکا،برطانیہ،آسٹریلیا،یورپی ممالک، بھارت اور اسرائیل میں خواتین بہت خوش وخرم زندگی گذار رہی ہیں۔انھیں کہیں کسی قسم کے مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور انھیں تمام حقوق میّسر ہیں۔
حقائق سے آشکارا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔دنیائے مغرب میں خواتین کئی سنگین مسائل کا شکار ہیں۔یہ سچائی مگر اس لیے نمایاں نہیں ہوتی کہ مغربی میڈیا اسے پوشیدہ رکھتا ہے۔وہ اسے زیادہ سامنے نہیں لاتا۔وہ اپنے معاشروں کا گند چھپا کر عالم اسلام کے مسائل زیادہ سے زیادہ اچھالتا ہے تاکہ مغربی عوام کی توجہ ''دہشت گرد''، ''اجڈ'' اور ''وحشی''مسلمانوںپہ مبذول رہے۔جبکہ مغربی عوام اپنی حکومتوں کی غلط کاریوں اور اپنے معاشروں کی گندگی سے بے خبر رہیں۔دنیائے مغرب کے عوام میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت وعناد بڑھانے میں مغربی میڈیا کا خاص کردار ہے۔
طالبان کی فتح کے فورا بعد مغربی میڈیا افغان خواتین کا سب سے بڑا حامی اور ان کے حقوق کا نمایاں ترین چیمپین بن گیا۔وہ پہاڑ پہ چڑھ کر دہائی دینے لگا کہ افغان خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔وحشی وظالم طالبان انھیں گھر میں قید کر کے باندیاں بنا لیں گے۔انھیں کوئی آزادی میسّر نہیں ہو گی۔
ساتھ ہی طالبان کے خلاف جھوٹی یعنی فیک خبروں کا طومار بندھ گیا۔مثلاً کہا گیا کہ وہ خواتین سے زبردستی شادیاں کر رہے ہیں۔بعض علاقوں میں انھوں نے لڑکیوں کو زبردستی اپنی کنیزیں بنا لیا۔وغیرہ۔سوال مگر یہ ہے کہ ''افغان خواتین کے حقوق خطرے میں ہیں'' کا واویلا مچانے والے مغربی میڈیا کے اپنے ممالک میں آباد عورتیں کس قسم کی زندگی گذار رہی ہیں؟کیا وہ مطمئن وپُرسکون ہیں؟کیا انھیں تمام حقوق میسّر ہیں؟آئیے اس سلسلے میں حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کی تہلکہ خیز رپورٹ
پچھلے اسّی برس سے امریکا دنیا میں مغربی تہذیب،تمدن و ثقافت کا ٹھیکے دار بنا بیٹھا ہے۔اس مملکت کی 50.8فیصد آبادی خواتین پہ مشتمل ہے۔گویا امریکا میں خواتین زیادہ آباد ہیں اور مرد کم!خواتین کی تعداد سولہ کروڑ ستاون لاکھ ہے۔جبکہ مردوں کی تعداد سولہ کروڑ سولہ لاکھ ہے۔پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center)امریکا کی مشہور غیرسرکاری تنظیم ہے۔اس سے منسلک محقق امریکا میں مختلف سماجی،سیاسی اور مذہبی معاملات پہ سروے کر کے حقائق سامنے لاتے ہیں۔
پچھلے سال ماہ جولائی میں تنظیم نے امریکا بھر میں یہ جاننے کی خاطر سروے کرایا تھا کہ امریکی خواتین کی زندگیاں کس عالم میں گذر رہی ہیں۔اس سروے میں ہزارہا امریکی مردوزن نے حصہ لیا۔سروے سے جو نتائج عیاں ہوئے،وہ ایک رپورٹ''A Century After Women Gained the Right To Vote, Majority of Americans See Work To Do on Gender Equality'' میںشائع ہوئے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی درج بالا رپورٹ کا سب سے بڑا انکشاف یہ تھا کہ ''82 فیصد'' خواتین اور ''72 فیصد'' مرد حضرات نے اقرار کیا کہ امریکا کے دفاتر،کارخانوں اور عوامی مقامات پر خواتین کو جنسی طور پہ ہراساں کیا جاتا ہے۔درحقیقت سروے کی رو سے جنسی ہراسانی آج امریکی خواتین کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ بن چکا۔جبکہ ''73فیصد'' خواتین نے یہ بھی بتایا کہ امریکا کی عدالتوں میں انھیں مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں۔
امریکا کے مشہور ترین تحقیقی ادارے کا تازہ سروے یہ تاثر درست ثابت کرتا ہے بے شک امریکی خواتین کو اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کی لامحدود آزادی مل گئی مگر اس عمل کے بطن سے ایک عجوبے نے جنم لیا۔وہ یہ کہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول بڑھنے سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو گیا۔
خاص طور پہ اختیار اور اثررسوخ رکھنے والے امریکی مرد اپنی ماتحت خواتین کا جنسی طور پہ استحصال کرنے لگے۔رفتہ رفتہ خاندان کا ادارہ کمزور ہو گیا اور شادی شدہ جوڑوں کے مابین ناجائز تعلقات نے فروغ پایا۔امریکا میں اب صورت حال یہ ہے کہ خصوصاً جس خاتون مختصر لباس پہن رکھا ہو، اسے راہ چلتے ہوئے کئی بار مردوں کے فحش جملے سننا پڑتے ہیں اور وہ ہوس بھری نگاہوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔