بنگالی اقتصادی سے کہیں زیادہ سیاسی محرومی کا شکار ہوئے ڈاکٹر خواجہ علقمہ

حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں اس لئے سفیر قبول نہ کیا کیونکہ میں خواجہ خیر الدین کا بیٹا تھا


Rana Naseem January 30, 2014
والد کی طرح میرے پاس بھی اپنا گھر اور زمین نہیں۔۔۔ دانشور، سابق سفیر اور وائس چانسلر بی زیڈ یو ڈاکٹرخواجہ علقمہ کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

بلاشبہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہوتا ہے اور اس کے صحیح معانی وہی جان سکتا ہے جس نے اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا ہو۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد جن ممتاز خاندانوں نے پاکستان آکر سکونت اختیار کی، ان میں ڈھاکہ کی نواب فیملی امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس خاندان میں قائداعظمؒ سے محبت کا درس بچپن میں تعلیم کردیا جاتا ۔ اسی خاندان کے ایک چشم و چراغ پروفیسر ڈاکٹر سید خواجہ محمد علقمہ ہیں۔ محب وطن، زمانہ شناس، ذہین، تابندہ پیشانی، دھیمہ لہجہ، ادب آمیز گفتگو، روئیے میں تہذیب وشائستگی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اپنی زندگی کے پنوں کو کھنگالتے ہوئے اپنے بچپن اور خاندانی پس منظر کے بارے میں خواجہ محمد علقمہ نے بتایا: '' ہمارے خاندان کاشمار بنگلہ دیش کے بڑے زمیندار گھرانوں میں ہوتا تھا۔ شائد اسی لیے ہمارے گھر کاماحول بہت سخت تھا، میرے والد کی خواہش پر ہمیں پڑھنے کیلئے ڈھاکہ کے اقامتی سکول میں داخل کرایا گیا۔ عام طور پربچپن میں بچے شرارتی ہوتے ہیں لیکن میں ہمیشہ سے سنجیدہ رہا ہوں۔ ہم تین بھائی اوردوبہنیں ہیں۔ بچپن میں کوئی جیب خرچ نہیں ملتا تھا، ہاسٹل میں رہتے تھے، کبھی ضرورت پڑتی تو والدہ سے لے لیتے، والد سے کبھی پیسے نہیں لیے۔ زمانہ طالب علمی میں ہاکی بہت زیادہ کھیلی،کرکٹ کابھی شوق رہا۔ 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ کی احسن منزل میں ہوا، جس میں میرے خاندان کے لوگ تھے۔ خواجہ ناظم الدین، سر سلیم اللہ اور خواجہ شہاب الدین اقتدار میں رہے لیکن جہاں تک میرے والد خواجہ خیر الدین کا تعلق ہے وہ کبھی بھی اقتدار میں نہیں رہے۔

جب محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن ہوا تو میرے والد کونسل لیگ میں تھے۔ اپنے عزیز نواب حسن عسکری کو ہرا کر میرے والد 1969ء تک ایم این اے رہے۔ ایوب خان نے جو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کرائی، اس میں بھی میرے والد نے اہم کردار ادا کیا۔ کونسل مسلم لیگ کی طرف سے میرے والد کے علاوہ یحییٰ بختیار تھے اور ممتاز دولتانہ مغربی پاکستان سے تھے۔ اس طرح میرا خاندانی پس منظر زیادہ تر مسلم لیگ سے جڑا رہا۔ میرا خاندان سارا کونسل مسلم لیگ میں رہا جنہوں نے ایوب خان کی مخالفت کی۔ 70ء کے الیکشن میں میرے والد نے شیخ مجیب الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ اس وقت جو حالات تھے، اس میں اگر مثبت پہلو دیکھا جائے توسب ہار گئے تھے لیکن میرے والد 50 ہزار ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ 70ء کے بعد مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے وزیراعظم بن گے جبکہ میرے والد جیل چلے گئے جہاں انہوں نے تقریباً 3سال گزارے۔

پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کروائی تو شیخ مجیب الرحمن اس میں شریک ہوئے اور بعدازاں انہوں نے واپس جا کر عام معافی کا اعلان کیا تو میرے والد کو رہائی مل گئی۔ والد پر غداری کا مقدمہ چلا تھا لیکن والد کا موقف تھاکہ وہ اس وقت بنگلہ دیش میں نہیں تھے، تو ان پر یہ مقدمہ نہیں بنتا۔ 1974ء میں وہ بذریعہ لندن پاکستان آ گئے۔ خواجہ خیرالدین نے چوں کہ ہمیشہ اپوزیشن کی سیاست کی تھی تو ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی بنا تو وہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے۔ جب وہ (والد) مغربی پاکستان آئے تو انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ پراپرٹی نہیں بنائیں گے اور جب ان کا انتقال ہوا وہ ایک کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ اور اللہ کا فضل ہے کہ میرے پاس بھی گھر یا کوئی زمین نہیں ہے اور میں اس روایت کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔''

ہم نے سوال پوچھا '' تحریک پاکستان میں بنگالیوں نے اہم کردار ادا کیا اور یہاں تک کہ قرارداد پاکستان بھی ایک بنگالی نے پیش کی لیکن پھر وہ کون سے حالات یا وجوہات تھیں جنہوں نے وطن عزیز کو دو لخت کر دیا؟ وہ کہنے لگے'' دیکھئے اس کے اوپر میں نے باقاعدہ کام کیا ہے، میرا پی ایچ ڈی کا تھیسز بھی اسی موضوع پر ہے لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بنگالی اقتصادی کم سیاسی محرومی کا شکار ہوئے۔ پھر انہوں نے اسے سیاسی رنگ دیا کہ ہمارا استحصال کیا جا رہا ہے، ہمیں ہمارا حق نہیں مل رہا ہے اور میں اس لئے یہ بات کہہ رہا ہوںکہ 1969ء جب یحییٰ خان نے ایوب خان کو ہٹانے کے بعد اقتدار سنبھالا اس نے 12ماہر معاشیات پر مشتمل ایک پینل بنایا، جس میں مشرق اور مغربی پاکستان سے 6،6ماہر معاشیات کو لیا گیا۔ اس پینل کی دستاویزات آج بھی میرے پاس موجود ہیں جس میں تمام ماہرین نے اتفاق کیا کہ ''محرومی ہے'' مشرقی پاکستان کو اس کا اقتصادی حق نہیں ملا۔ لیکن اس محرومی کو دور کرنے کا جو طریقہ کار تھا اس میں تھوڑا فرق آگیا۔ بنگالی فوری طریقہ مانگتے تھے اور مغربی ماہرین نے کہا کہ آہستہ آہستہ اس کو دور کیا جا سکتا ہے۔

اس محرومی کو دورکرنے کے لئے یحییٰ خان نے کچھ اقدامات بھی کئے ان میں سے ایک یہ تھا ون یونٹ توڑ کر صوبے بنا دیئے گئے۔ 4 صوبے یہاں اور ایک صوبہ وہاں بنایا گیا اور آبادی کے لحاظ سے الیکشن کے لئے حلقہ بندیاں کر دی گئیں۔ حلقہ بندیوں کے لئے یحییٰ خان نے جو اصول و ضوابط طے یا شرائط لگائیں ان کی بنیاد پر شیخ مجیب الرحمن نے الیکشن لڑا۔ وہ بہترین وقت تھا جب بنگال کی لیڈر شپ کو گھیر کر اسلام آباد لایا جا سکتا تھا کیوں کہ اگر شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم بنتے تو انہوں نے یہیں آنا تھا۔ لیکن پھر معاملہ ایسا بگڑا کہ اس کے بعد مکمل حقائق ہمارے سامنے نہیں آئے۔ حمود الرحمن کمیشن ہمارے سامنے ہے، لیکن اس کمیشن کا زیادہ زور اس ملٹری آپریشن پر تھا جو الیکشن کے بعد ہوا۔ الیکشن کے نتیجے میں اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو کیوں نہیں دیا گیا، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے اور 71ء کے بعد کی پاکستانی تاریخ اٹھائی جائے تو اس پر بہت کم لوگوں نے تحقیق کی۔ ایسے لگتا ہے ہم نے جان بوجھ کر تاریخ کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ فوج میں بڑے عہدوں پر تعیناتیاں نہ ہونے پر بھی بنگالیوں کے تحفظات تھے۔ آخری دنوں میں جا کر ایک بنگالی کو لیفٹینٹ جنرل بنایا گیا اور ان کا تعلق ہمارے خاندان سے تھا،وہ خواجہ شہاب الدین کے سب سے بڑے صاحبزادے خواجہ فصیح الدین تھے۔ جب سانحہ مشرقی پاکستان ہوا تووہ کورکمانڈر ملتان تھے۔ لیکن یہاں کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔''

بنگلہ دیش کے سیاسی معاملات پران گہری نظر ہے، اس لیے ادھر موجود سیاسی خلفشار کے بارے میں جانکاری کے لیے وہ نہایت موزوں آدمی ہیں،ہم نے جب اس حوالے سے انھیں ٹٹولا تووہ بولے'' بنگلہ دیش کی جو موجودہ صورتحال ہے اس بارے میں آپ کو بتاؤں کہ تین ماہ قبل اسی کمرے میں (وی سی آفس بی زیڈ یو) جہاں ہم بیٹھے ہیں، بنگلہ دیش میں تعینات پاکستانی سفیر میرے پاس آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ "Bangal today is helpless nation" اس کی وجہ تھی کہ بنگال کی معیشت پر بالواسہ اور بلاواسطہ پڑوسیوں کا کنٹرول ہے۔ ابھی میں کینیا میں ہمارے سفیر رفیع الزمان سے بھی ملا تو وہ مجھے ایک خوبصورت واقعہ بتا رہے تھے کہ حسینہ واجد اپوزیشن میں تھیں اور پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت تھی، خورشید قصوری وزیر خارجہ تھے اور وہ بنگال گئے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق وہ حسینہ واجد سے ملے تو حسینہ واجد کہنے لگیں میں ایک بات آپ کو کہنا چاہتی ہوں حالانکہ میری پارٹی نے مجھے منع کیا ہے، کہ آج اگر میں اقتدار میں نہیں ہوں تو مجھے ہرانے میں پی آئی اے کا سب سے بڑا کردار ہے۔

خورشید قصوری نے کہا پی آئی اے کا کردار کیسے؟ حسینہ واجد نے کہا کہ اس سے مراد پاکستان، انڈیا اور امریکاہے تو خورشید قصوری ہنسے اور کہا کہ پاکستان میں تاثر یہ ہے کہ جب عوامی لیگ اقتدار میں ہوتی ہے تو پاکستان سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاک بنگال تعلقات میں بہتری کے لئے مسلسل کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوںکہ حال ہی میں' میں سٹیفن کوہن کی ایک کتاب پڑھ رہا ہوں، جس میں وہ لکھتا ہے کہ اب اگر جنگ ہوتی ہے تووہ کوئی بھی نہیں جیتے گا۔ it is a win win or lose lose situation نہیں ہوگی، نقصان دونوں کو ہو گا۔ بنگلہ دیش میں جو موجودہ ابتر صورت حال ہے میں نہیں سمجھتا کہ اب جو لوگ وہاں اقتدار میں ہیں وہ اس صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔ وہاں شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا کی نگاہ اب بنگال پر ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بعد اب سب سے زیادہ جو شدت پسندی ہوگی وہ بنگال میں ہو گی۔ وہاں دائیں بازوں کے لوگ از سر نو منظم ہو رہے ہیں۔ ویسے پوری دنیا میں مذہبی تحریکیں شروع ہو رہی ہیں تو بنگال بھی دنیا کا ایک حصہ ہے۔ مذہبی تحریکوں کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے دوسرے طریقوں اور نظاموں کو اپنا کر دیکھ لیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا تو لوگ اب دوبارہ مذہب کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ سلوگن لیا جا رہا ہے کہ "go back to the religion"

درس و تدریس سے سے وہ سالہا سال جڑے رہے، بیچ میں گذشتہ دور حکومت میں سفارت کاری کا ذائقہ بھی چکھا۔بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر کے طور پرنام بھیجا گیا، جس کوبنگلہ دیشی حکومت نے مسترد کردیا۔اس بابت ان کا موقف ہے۔ '' زندگی میں کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں آپ نے سوچا ہو تا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے، لیکن وقت کاپہیہ اس طرح سے گھومتا ہے کہ آپ اچانک سے ایک نئی منزل پرپہنچ جاتے ہیں۔میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہوا۔ 2009ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس خواہش کااظہارکیاکہ وہ مجھے سفیر بناکر بنگلہ دیش بھجوانا چاہتے ہیں ۔جس پر میں ہنسا اور کہا کہ کیا آپ سنجیدہ ہیں وہ کہنے لگے بالکل۔ پھر میرا نام جب بطور سفیر بھجوایا گیا تو بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت آچکی تھی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں خواجہ خیر الدین کا بیٹا ہوں تو حسینہ واجد نے کہا We do not want him انہوں نے مجھے بطور سفیرقبول کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعدایک دن وزیراعظم کا فون آیا اور کہنے لگے علقمہ صاحب آپ کا نام میں نے یمن میں بطورسفیر فائنل کردیا ہے اور یوں کچھ عرصہ کے لئے میں سفارتکاری سے منسلک ہوگیا۔''

بطور سفیر یمن کی معاشرت کو آپ نے قریب سے دیکھا، اس حوالے سے اپنے کچھ تاثرات بتائیں؟ ''دیکھیں! تعلیم کے حوالے سے تو پاکستان ان سے بہت آگے ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ حصول علم کے لئے جو کچھ انہیں کرنا چاہئے تھا وہ نہیں ہو سکا لیکن اپنی بقاء کے لئے انہوں نے اپنی زبان کومضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ اپنی زبان اور ثقافت پر انہیں بہت زیادہ اعتماد ہے اور یہی چیز میرے خیال میں انہیں مستقبل میں آگے بھی لے جائے گی، کیوں کہ میرے نزدیک مستقبل کی زبانیں صرف دو ہی ہیں ایک عربی اور دوسری چینی۔ یمن کے لوگ پاکستانیوں کی بارے میںبہت زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور جس طریقے سے وہ پاکستانیوں کی قدر کرتے ہیں میں لفظوں میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔''

جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے بارے میں خصوصاً گزشتہ دور حکومت سے بہت شور مچایا جا رہا ہے، آپ نے اس علاقے میں بڑا عرصہ گزارا ہے، یہ بتائیںکہ کیا واقعی یہاں محرومیاں ہیں اور اگر ہیں تو انہیں دور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ '' میں سمجھتا ہوں یہاں محرومیاں ہیں کیوں کہ یہاں بہت زیادہ ترقی نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا Food Belt ہے اگر یہاں محرومی ہو گی تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بحث و مباحثے سے جان نہیں چھڑانی چاہئے اگر یہاں محرومیاں ہیں تو ان کو بیان کیا جائے۔ محرومیوں کا کوئی علاج تو ہونا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں کہ جنوبی پنجاب کو آپ سکینڈ کیپٹل بنا دیں گورنر کو کہیں کہ وہ یہاں آ کر بیٹھیں۔ سی ایم لاہور اور گورنر کو ملتان میں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر آپ نے ڈھاکہ کو دوسرا کیپٹل کیا تھا تو پھر ملتان کو بھی پنجاب کا کر لیں۔ لوگوں کے لئے اس سے بہتری آئے گی اور بڑا فرق پڑے گا۔ اسی طرح اسمبلی اجلاس کے لئے بھی یہاں عمارت بنوائیں۔ یہ تمام اقدامات علامتی ہیں لیکن کرنا چاہئے اس سے لوگوں کی سوچ میں بہتری آئے گی۔''

سقوط ڈھاکہ کے بعد جن ممتاز خاندانوں نے پاکستان آکر سکونت اختیار کی، ان میں ڈھاکہ کی نواب فیملی امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس خاندان میں قائداعظمؒ سے محبت کا درس بچپن میں تعلیم کردیا جاتا ۔ اسی خاندان کے ایک چشم و چراغ پروفیسر ڈاکٹر سید خواجہ محمد علقمہ ہیں۔ محب وطن، زمانہ شناس، ذہین، تابندہ پیشانی، دھیمہ لہجہ، ادب آمیز گفتگو، روئیے میں تہذیب وشائستگی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اپنی زندگی کے پنوں کو کھنگالتے ہوئے اپنے بچپن اور خاندانی پس منظر کے بارے میں خواجہ محمد علقمہ نے بتایا: '' ہمارے خاندان کاشمار بنگلہ دیش کے بڑے زمیندار گھرانوں میں ہوتا تھا۔ شائد اسی لیے ہمارے گھر کاماحول بہت سخت تھا، میرے والد کی خواہش پر ہمیں پڑھنے کیلئے ڈھاکہ کے اقامتی سکول میں داخل کرایا گیا۔ عام طور پربچپن میں بچے شرارتی ہوتے ہیں لیکن میں ہمیشہ سے سنجیدہ رہا ہوں۔ ہم تین بھائی اوردوبہنیں ہیں۔ بچپن میں کوئی جیب خرچ نہیں ملتا تھا، ہاسٹل میں رہتے تھے، کبھی ضرورت پڑتی تو والدہ سے لے لیتے، والد سے کبھی پیسے نہیں لیے۔ زمانہ طالب علمی میں ہاکی بہت زیادہ کھیلی،کرکٹ کابھی شوق رہا۔ 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ کی احسن منزل میں ہوا، جس میں میرے خاندان کے لوگ تھے۔ خواجہ ناظم الدین، سر سلیم اللہ اور خواجہ شہاب الدین اقتدار میں رہے لیکن جہاں تک میرے والد خواجہ خیر الدین کا تعلق ہے وہ کبھی بھی اقتدار میں نہیں رہے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن ہوا تو میرے والد کونسل لیگ میں تھے۔ اپنے عزیز نواب حسن عسکری کو ہرا کر میرے والد 1969ء تک ایم این اے رہے۔

ایوب خان نے جو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کرائی، اس میں بھی میرے والد نے اہم کردار ادا کیا۔ کونسل مسلم لیگ کی طرف سے میرے والد کے علاوہ یحییٰ بختیار تھے اور ممتاز دولتانہ مغربی پاکستان سے تھے۔ اس طرح میرا خاندانی پس منظر زیادہ تر مسلم لیگ سے جڑا رہا۔ میرا خاندان سارا کونسل مسلم لیگ میں رہا جنہوں نے ایوب خان کی مخالفت کی۔ 70ء کے الیکشن میں میرے والد نے شیخ مجیب الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ اس وقت جو حالات تھے، اس میں اگر مثبت پہلو دیکھا جائے توسب ہار گئے تھے لیکن میرے والد 50 ہزار ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ 70ء کے بعد مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے وزیراعظم بن گے جبکہ میرے والد جیل چلے گئے جہاں انہوں نے تقریباً 3سال گزارے۔ پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کروائی تو شیخ مجیب الرحمن اس میں شریک ہوئے اور بعدازاں انہوں نے واپس جا کر عام معافی کا اعلان کیا تو میرے والد کو رہائی مل گئی۔ والد پر غداری کا مقدمہ چلا تھا لیکن والد کا موقف تھاکہ وہ اس وقت بنگلہ دیش میں نہیں تھے، تو ان پر یہ مقدمہ نہیں بنتا۔ 1974ء میں وہ بذریعہ لندن پاکستان آ گئے۔ خواجہ خیرالدین نے چوں کہ ہمیشہ اپوزیشن کی سیاست کی تھی تو ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی بنا تو وہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے۔ جب وہ (والد) مغربی پاکستان آئے تو انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ پراپرٹی نہیں بنائیں گے اور جب ان کا انتقال ہوا وہ ایک کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ اور اللہ کا فضل ہے کہ میرے پاس بھی گھر یا کوئی زمین نہیں ہے اور میں اس روایت کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔''

ہم نے سوال پوچھا '' تحریک پاکستان میں بنگالیوں نے اہم کردار ادا کیا اور یہاں تک کہ قرارداد پاکستان بھی ایک بنگالی نے پیش کی لیکن پھر وہ کون سے حالات یا وجوہات تھیں جنہوں نے وطن عزیز کو دو لخت کر دیا؟ وہ کہنے لگے'' دیکھئے اس کے اوپر میں نے باقاعدہ کام کیا ہے، میرا پی ایچ ڈی کا تھیسز بھی اسی موضوع پر ہے لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بنگالی اقتصادی کم سیاسی محرومی کا شکار ہوئے۔ پھر انہوں نے اسے سیاسی رنگ دیا کہ ہمارا استحصال کیا جا رہا ہے، ہمیں ہمارا حق نہیں مل رہا ہے اور میں اس لئے یہ بات کہہ رہا ہوںکہ 1969ء جب یحییٰ خان نے ایوب خان کو ہٹانے کے بعد اقتدار سنبھالا اس نے 12ماہر معاشیات پر مشتمل ایک پینل بنایا، جس میں مشرق اور مغربی پاکستان سے 6،6ماہر معاشیات کو لیا گیا۔ اس پینل کی دستاویزات آج بھی میرے پاس موجود ہیں جس میں تمام ماہرین نے اتفاق کیا کہ ''محرومی ہے'' مشرقی پاکستان کو اس کا اقتصادی حق نہیں ملا۔ لیکن اس محرومی کو دور کرنے کا جو طریقہ کار تھا اس میں تھوڑا فرق آگیا۔ بنگالی فوری طریقہ مانگتے تھے اور مغربی ماہرین نے کہا کہ آہستہ آہستہ اس کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اس محرومی کو دورکرنے کے لئے یحییٰ خان نے کچھ اقدامات بھی کئے ان میں سے ایک یہ تھا ون یونٹ توڑ کر صوبے بنا دیئے گئے۔ 4 صوبے یہاں اور ایک صوبہ وہاں بنایا گیا اور آبادی کے لحاظ سے الیکشن کے لئے حلقہ بندیاں کر دی گئیں۔ حلقہ بندیوں کے لئے یحییٰ خان نے جو اصول و ضوابط طے یا شرائط لگائیں ان کی بنیاد پر شیخ مجیب الرحمن نے الیکشن لڑا۔ وہ بہترین وقت تھا جب بنگال کی لیڈر شپ کو گھیر کر اسلام آباد لایا جا سکتا تھا کیوں کہ اگر شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم بنتے تو انہوں نے یہیں آنا تھا۔ لیکن پھر معاملہ ایسا بگڑا کہ اس کے بعد مکمل حقائق ہمارے سامنے نہیں آئے۔ حمود الرحمن کمیشن ہمارے سامنے ہے، لیکن اس کمیشن کا زیادہ زور اس ملٹری آپریشن پر تھا جو الیکشن کے بعد ہوا۔ الیکشن کے نتیجے میں اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو کیوں نہیں دیا گیا، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے اور 71ء کے بعد کی پاکستانی تاریخ اٹھائی جائے تو اس پر بہت کم لوگوں نے تحقیق کی۔ ایسے لگتا ہے ہم نے جان بوجھ کر تاریخ کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ فوج میں بڑے عہدوں پر تعیناتیاں نہ ہونے پر بھی بنگالیوں کے تحفظات تھے۔ آخری دنوں میں جا کر ایک بنگالی کو لیفٹینٹ جنرل بنایا گیا اور ان کا تعلق ہمارے خاندان سے تھا،وہ خواجہ شہاب الدین کے سب سے بڑے صاحبزادے خواجہ فصیح الدین تھے۔ جب سانحہ مشرقی پاکستان ہوا تووہ کورکمانڈر ملتان تھے۔ لیکن یہاں کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔''

بنگلہ دیش کے سیاسی معاملات پران گہری نظر ہے، اس لیے ادھر موجود سیاسی خلفشار کے بارے میں جانکاری کے لیے وہ نہایت موزوں آدمی ہیں،ہم نے جب اس حوالے سے انھیں ٹٹولا تووہ بولے'' بنگلہ دیش کی جو موجودہ صورتحال ہے اس بارے میں آپ کو بتاؤں کہ تین ماہ قبل اسی کمرے میں (وی سی آفس بی زیڈ یو) جہاں ہم بیٹھے ہیں، بنگلہ دیش میں تعینات پاکستانی سفیر میرے پاس آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ "Bangal today is helpless nation" اس کی وجہ تھی کہ بنگال کی معیشت پر بالواسہ اور بلاواسطہ پڑوسیوں کا کنٹرول ہے۔ ابھی میں کینیا میں ہمارے سفیر رفیع الزمان سے بھی ملا تو وہ مجھے ایک خوبصورت واقعہ بتا رہے تھے کہ حسینہ واجد اپوزیشن میں تھیں اور پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت تھی، خورشید قصوری وزیر خارجہ تھے اور وہ بنگال گئے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق وہ حسینہ واجد سے ملے تو حسینہ واجد کہنے لگیں میں ایک بات آپ کو کہنا چاہتی ہوں حالانکہ میری پارٹی نے مجھے منع کیا ہے، کہ آج اگر میں اقتدار میں نہیں ہوں تو مجھے ہرانے میں پی آئی اے کا سب سے بڑا کردار ہے۔ خورشید قصوری نے کہا پی آئی اے کا کردار کیسے؟ حسینہ واجد نے کہا کہ اس سے مراد پاکستان، انڈیا اور امریکاہے تو خورشید قصوری ہنسے اور کہا کہ پاکستان میں تاثر یہ ہے کہ جب عوامی لیگ اقتدار میں ہوتی ہے تو پاکستان سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاک بنگال تعلقات میں بہتری کے لئے مسلسل کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوںکہ حال ہی میں' میں سٹیفن کوہن کی ایک کتاب پڑھ رہا ہوں، جس میں وہ لکھتا ہے کہ اب اگر جنگ ہوتی ہے تووہ کوئی بھی نہیں جیتے گا۔ it is a win win or lose lose situation نہیں ہوگی، نقصان دونوں کو ہو گا۔ بنگلہ دیش میں جو موجودہ ابتر صورت حال ہے میں نہیں سمجھتا کہ اب جو لوگ وہاں اقتدار میں ہیں وہ اس صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔ وہاں شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا کی نگاہ اب بنگال پر ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بعد اب سب سے زیادہ جو شدت پسندی ہوگی وہ بنگال میں ہو گی۔ وہاں دائیں بازوں کے لوگ از سر نو منظم ہو رہے ہیں۔ ویسے پوری دنیا میں مذہبی تحریکیں شروع ہو رہی ہیں تو بنگال بھی دنیا کا ایک حصہ ہے۔ مذہبی تحریکوں کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے دوسرے طریقوں اور نظاموں کو اپنا کر دیکھ لیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا تو لوگ اب دوبارہ مذہب کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ سلوگن لیا جا رہا ہے کہ "go back to the religion"

درس و تدریس سے سے وہ سالہا سال جڑے رہے، بیچ میں گذشتہ دور حکومت میں سفارت کاری کا ذائقہ بھی چکھا۔بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر کے طور پرنام بھیجا گیا، جس کوبنگلہ دیشی حکومت نے مسترد کردیا۔اس بابت ان کا موقف ہے۔ '' زندگی میں کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں آپ نے سوچا ہو تا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے، لیکن وقت کاپہیہ اس طرح سے گھومتا ہے کہ آپ اچانک سے ایک نئی منزل پرپہنچ جاتے ہیں۔میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہوا۔ 2009ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس خواہش کااظہارکیاکہ وہ مجھے سفیر بناکر بنگلہ دیش بھجوانا چاہتے ہیں ۔جس پر میں ہنسا اور کہا کہ کیا آپ سنجیدہ ہیں وہ کہنے لگے بالکل۔ پھر میرا نام جب بطور سفیر بھجوایا گیا تو بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت آچکی تھی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں خواجہ خیر الدین کا بیٹا ہوں تو حسینہ واجد نے کہا We do not want him انہوں نے مجھے بطور سفیرقبول کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعدایک دن وزیراعظم کا فون آیا اور کہنے لگے علقمہ صاحب آپ کا نام میں نے یمن میں بطورسفیر فائنل کردیا ہے اور یوں کچھ عرصہ کے لئے میں سفارتکاری سے منسلک ہوگیا۔''

بطور سفیر یمن کی معاشرت کو آپ نے قریب سے دیکھا، اس حوالے سے اپنے کچھ تاثرات بتائیں؟ ''دیکھیں! تعلیم کے حوالے سے تو پاکستان ان سے بہت آگے ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ حصول علم کے لئے جو کچھ انہیں کرنا چاہئے تھا وہ نہیں ہو سکا لیکن اپنی بقاء کے لئے انہوں نے اپنی زبان کومضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ اپنی زبان اور ثقافت پر انہیں بہت زیادہ اعتماد ہے اور یہی چیز میرے خیال میں انہیں مستقبل میں آگے بھی لے جائے گی، کیوں کہ میرے نزدیک مستقبل کی زبانیں صرف دو ہی ہیں ایک عربی اور دوسری چینی۔ یمن کے لوگ پاکستانیوں کی بارے میںبہت زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور جس طریقے سے وہ پاکستانیوں کی قدر کرتے ہیں میں لفظوں میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔''

جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے بارے میں خصوصاً گزشتہ دور حکومت سے بہت شور مچایا جا رہا ہے، آپ نے اس علاقے میں بڑا عرصہ گزارا ہے، یہ بتائیںکہ کیا واقعی یہاں محرومیاں ہیں اور اگر ہیں تو انہیں دور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ '' میں سمجھتا ہوں یہاں محرومیاں ہیں کیوں کہ یہاں بہت زیادہ ترقی نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا Food Belt ہے اگر یہاں محرومی ہو گی تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بحث و مباحثے سے جان نہیں چھڑانی چاہئے اگر یہاں محرومیاں ہیں تو ان کو بیان کیا جائے۔ محرومیوں کا کوئی علاج تو ہونا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں کہ جنوبی پنجاب کو آپ سکینڈ کیپٹل بنا دیں گورنر کو کہیں کہ وہ یہاں آ کر بیٹھیں۔ سی ایم لاہور اور گورنر کو ملتان میں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر آپ نے ڈھاکہ کو دوسرا کیپٹل کیا تھا تو پھر ملتان کو بھی پنجاب کا کر لیں۔ لوگوں کے لئے اس سے بہتری آئے گی اور بڑا فرق پڑے گا۔ اسی طرح اسمبلی اجلاس کے لئے بھی یہاں عمارت بنوائیں۔ یہ تمام اقدامات علامتی ہیں لیکن کرنا چاہئے اس سے لوگوں کی سوچ میں بہتری آئے گی۔''

سید خواجہ علقمہ کا سفرِ زیست
سید خواجہ علقمہ نے 11ستمبر 1952ء میں بنگال کی نواب فیملی کے اُس گھر (احسن منزل) میں آنکھ کھولی، جہاں 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یوں ان کا تعلق مسلم لیگ کے بانیان کے خاندان سے جڑا ہوا ہے۔ احسن منزل کے تمام ورثاء پاکستان آ گئے تو بنگلہ دیشی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے کر یہاں نیشنل میوزیم بنا دیا۔ خواجہ علقمہ کی والدہ نواب سلیم اللہ خان کی نواسی تھیں اور والد خواجہ خیرالدین کا شمار قائداعظم کے قریبی رفقا میں ہوتا تھا، جب کہ آپ کے چچا خواجہ ناظم الدین پاکستان کے گورنر جنرل اور وزیراعظم رہے۔ میٹرک اور ایف اے ڈھاکہ میں کرنے کے بعد وہ سقوط ڈھاکہ سے چند روز قبل لاہور آگئے، جہاں 27 نومبر 1971ء کوگورنمنٹ کالج لاہور میں ان کا داخلہ ہوا۔

جس کے بعد انہوں نے 1976ء میں قائداعظم یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم ایس سی کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے جہاں 1980ء میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کیا اور 1990ء میں اسی جامعہ سے سکالر شپ پر بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی۔ عملی زندگی کی شروعات 1980ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر کی، 2000ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے وہ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے منسلک ہوگئے، جہاں 2002ء میں پروفیسر ہوئے اور 2011ء کے اواخر میں انہیں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا۔ بی زیڈ یو کا وائس چانسلر بننے سے قبل انہوں نے تقریباً 2 سال یمن میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دیں۔

خواجہ ناظم الدین کی اولاد پاکستانمیں ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں
خواجہ ناظم الدین کے دونوں صاحبزادے پاکستان میں بڑے سکون سے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کوئی محل نہیں ہے، ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہائش پذیر ہیں۔ خواجہ ناظم الدین کی ایک بیٹی تھی جو خاموشی سے 3یا 4 سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ میں نے کچھ مسلم لیگیوں کو بتایا تھا معلوم نہیں انہوں نے تعزیت کی یا نہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ خواجہ ناظم الدین جو پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور وزیراعظم رہے، ان کی اکلوتی بیٹی کا جب انتقال ہوا تو وہ ایک کمرے کے گھر میں رہتی تھیں۔ خواجہ ناظم الدین کی ایک نواسی ہیں جس کی شادی جسٹس محمود الرحمن کے صاحبزادے کے ساتھ ہوئی اور اب وہ دبئی میں رہتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں