علی جاوید…کمیونسٹ حوصلوں کا سرخیل
نرم لہجے اور مٹھاس بھری گفتگو کے نظریاتی استقامت والے علی جاوید کی ادبی اور ترقی پسند فکر کا سفر آگے کی جانب جاری ہے۔
انتہا پسند اور تنگ نظر خطے میں ترقی پسند ادب کی فکر ''زندگی برائے ادب'' کو صیقل کرنے والے شمیم فیضی اور علی جاوید آخر کارعدم میں بھی ساتھ ہو لیے مگر ترقی پسند ادب کو اس مقام تک ضرور پہنچا گئے کہ اب اس خطے میں تمام تر تنگ ذہنی کے باوجود ترقی پسند ادب کی حقانیت مسلمہ حقیقت بن چکی ہے،جس سے صرف نظر رکھنا کم از کم نوجوان ادیبوں کا خاصہ نہیں ہو سکتا۔
رائے کے تمام تر اختلافات کے بعد بھی خطے کی ادبی قدروں کو سر بلند رکھنے اور انسان کی حقانیت و حقوق کو تسلیم کرانے میں ترقی پسند ادب آج بھی سر منبر جرات اور ہمت کی استقامت کے ساتھ عظیم تر انسان کے رتبے کو سر بلند کرنے کے لیے ایستادہ ہے۔ خطے کے ادبا میں دوستی،محبت نظریئے اور تخلیق کی سر بلندی کے لیے خطے میں جوکھم کرنیوالے ترقی پسند تحریک کے راہرو پروفیسر ڈاکٹر علی جاوید کی مستقل مزاجی کا ذکر ایک ایسی داستان ہے جسے بھلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
انیس سو ننانوے کا دور ہے کہ جس میں کمیونسٹ تحریک ایک نئے امتحان سے گذر رہی تھی،اسی دوران خطے کے ادیبوں کو مایوسی اور الجھن سے نکالنے کی سبیل ہوئی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے معروف شاعر کیفی اعظمی کی رہنمائی میں بیڑا اٹھایا کہ خطے کے دونوں ممالک کے ادیبوں کی منڈلی سجائی جائے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی جانب سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں شمیم فیضی،علی جاوید نے کیفی اعظمی اور گوئڈہ صاحب کی رہنمائی میں تمام ادیبوں کو ایک چھتری تلے اکٹھا کیا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانگریس کا دعوت نامہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو روانہ کیا،جو تنظیمی طور سے انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے نگراں کی حیثیت سے مجھ تک پہنچا اور حکم ہوا کہ انجمن کے وفد کی تشکیل کی جائے تاکہ انجمن ترقی پسند مصنفین ہند کی کانگریس میں نوجوان ادیبوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
تنظیمی حکم کی تعمیل میں اہم مسئلہ شرکا کا چنائو اور اس میں نوجوانوں کی شرکت اولین ترجیح رکھا گیا،اس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کی سربراہی معروف افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت صدیقی کے سپرد تھی،سو تنظیمی طور سے شوکت صدیقی کی سربراہی میں اجلاس بلایا گیا اور طے کیا گیا کہ وفد کی تشکیل میں سینئر کے ساتھ نوجوان ادیبوں کو زیادہ مواقع دینے ہیں۔
تنظیمی فیصلے کی روشنی میں شوکت صدیقی،ڈاکٹر محمد علی صدیقی،قمر ساحری، پروفیسر عتیق،چوہدری رفیق،خالد علیگ،حسن عابدی کے ساتھ نوجوان ادیب توقیر چغتائی،رئوف نظامانی، جان خاصخیلی،چندر کیسوانی،ڈاکٹر شہزاد،اسرار شاکی،زیب اذکار،ن۔م دانش،نثار حسین،نوجوان صحافی و ادیب پیرزادہ سلمان،ذوالقرنین شاہد اور دیگر کو اس وفد کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور طے ہوا کہ اس وفد کی سربراہی معروف صحافی اور شاعرحسن عابدی کریں گے جب کہ باقی کے تمام انتظامات میرے حصے میں آئے۔
وفد کی تشکیل کے وقت 20سے 25 افراد کے ویزوں کی فراہمی سب سے دشوار عمل تھا،جس کی تکمیل میں میرے ساتھ ڈاکٹر شہزاد اسلام آباد روانہ ہوئے اور شمیم فیضی و علی جاوید کے تعاون سے انڈین ایمبیسی سے ویزوں کا حصول اس قدر آسان ہوا کہ ہم نے بمشکل بیس منٹ میں تمام ویزے حاصل کرلیے اور انڈین ایمبیسی کے نگراں نے بہت محبت سے ہماری آئو بھگت کرکے ویزے ہمارے ہاتھ میں تھما دیے،ویزے کے حصول بعد ہم دونوں دوست اگلی فلائٹ سے کراچی آگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایک منتخب حکومت نے بزور طاقت غیر آئینی طور سے بندوق کے زور پر عوامی اقتدار سے معزول کیا تھا،اور ملک میں خوف و ہراس اور سکتے کا عالم تھا،ہر شے جنبش سے کترا رہی تھی،اس دوران انڈیا کے ویزے کا محفوظ راستہ سوائے وفود کے کوئی نظر نہ آتا تھا،مجھے یاد ہے کہ ہمارے صحافی دوست مجاہد بریلوی انڈیا جانے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔
سو انھوں نے ویزے کے حصول کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کے وفد میں شمولیت کا محفوظ راستہ تلاش کیااور یوں مجاہد بریلوی انڈیا ہمارے وفد کے ساتھ گئے، مگر اس سے قبل ایک مشکل اس وقت آن پڑی جب تمام خط و کتابت کے بعد وفد کے طے شدہ سربراہ حسن عابدی نے اچانک چند نجی مشکلات کے سبب وفد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور باقاعدہ وفد کی سربراہی کے لیے میرا نام انجمن کی کانگریس کے منتظمین کو بھجوا دیا اور یوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے وفد کے سربراہ کی حیثیت سے وہاں کے تمام دعوت ناموں میں سر فہرست رہا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ علی جاوید اور شمیم فیضی نے امرتسر کی پارٹی کو حکم جاری کروایا کہ پاکستانی وفد کا اٹاری ریلوے اسٹیشن پر شاندار استقبال کیا جائے اور وفد کو اٹاری سے براستہ امرتسر سے چندی گڑھ پہنچایا جائے۔ امرتسر پہنچنے پر وفد کا نہ صرف شاندار روایتی دھنک پھولوں سے استقبال کیا گیا بلکہ ایک جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں وفد کی سربراہ کی حیثیت سے مجھے بھی ان دوستوں کی عقیدتوں کے شکرگذار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا،جس کے بعد انجمن کے وفد کا قافلہ بذریعہ روڈ انڈین پنجاب کی سیکیورٹی میں چندی گڑھ پہنچا اور گورنر پنجاب کے ریسٹ ہائوس میں وفد نے قیام کیا،چندی گڑھ میں اس منڈل کے روح رواں ٹریبون کے ایڈیٹر دلبیر سنگھ اور بھٹی صاحب نے بے انتہا محبتیں دیں جب کہ صبح ہوتے ہی شمیم فیضی ڈاکٹر علی جاوید کے ہمراہ میرے پاس آئے اور کہا کہ''اب آپ کی رہنمائی علی جاوید کریں گے۔''
اس مختصر تعارف اور تین روزہ چندی گڑھ کانگریس کے دوران علی جاوید ہمارے نظریاتی رہبر جب کہ ڈاکٹر دلبیر سنگھ ہمارے انتظامی سربراہ رہے،اس دوران دلبیر سنگھ نے چندی گڑھ یونیورسٹی سے لے کر لدھیانہ اکیڈمی کے کشمیری لال ذاکر تک رسائی کروائی جب کہ چندی گڑھ سے شملہ گھومنے کے انتظامات کے ساتھ ہمارے سرور کی آب دینے میں بھی کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کیا،یہ عجیب اتفاق ہے کہ تینوں دوست ہم سے رخصت لیے بنا عدم کے ہو لیے، مگر شمیم فیضی اور دلبیر سنگھ کے بعد جتنی جانفشانی اور محبت علی جاوید نے دونوں ممالک کے ادیبوں کو دی وہ ناقابل بیان ہے۔
علی جواہر لال یونیورسٹی میں بھی ترقی پسند خیالات کی جوت جگاتے رہے اور طلبہ میں سماجی استحصال کے خلاف شعور دیتے رہے،یہ علی جاوید ایسوں ہی کا کارنامہ ہے کہ جواہر لال یونیورسٹی آج عالمی طور سے ترقی پسند سوچ کی آبیاری کا وہ نشان ہے جس نے استحصالی اور تنگ نظر سوچ کے مودی کے ارادوں کو پسپا کیا اور شعور کے نئے دیپ چلائے،آج بھی علی جاوید کی متحرک کسان تحریک میں طلبہ کی شانہ بشانہ شمولیت ہندوستانی سماج کی وہ روشنی ہے جس سے استحصالی اور متعصب قوتیں لرزہ بر اندام ہیں۔
نرم لہجے اور مٹھاس بھری گفتگو کے نظریاتی استقامت والے علی جاوید کی ادبی اور ترقی پسند فکر کا سفر آگے کی جانب جاری ہے اور جاری رہے گا کہ روشن خیالی کی اس فکر کے پالنہار علی جاوید نے ہزاروں علی جاوید سماج کو دے دیے جو یقینا سرخ سویرا لا کر علی جاوید کو سرخ سلام پیش کرتے رہیں گے۔