لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
میاں نواز شریف کی غیر موجودگی نے مسلم لیگ نون کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں
وطن عزیز میں آج کل جو سیاست ہو رہی ہے وہ صرف اور صرف عوام کو یہ احساس اور یقین دلانے کے لیے ہورہی ہے کہ اُن کا بھی ملکی سیاست میں کوئی رول اورکردار ابھی باقی ہے ، وہ چاہے حکمراں جماعت پی ٹی آئی ہو یا پیپلزپارٹی اور یا پی ڈی ایم ہو ، تمام کی تمام جماعتوں کو یہ پتا ہے کہ جب تک اقتدار و اختیارات کی اصل مالک قوتیں اپنی سوچ اور ارادے نہیں بدلتی ہیں اور حالیہ روش اور حکمت عملی برقرار رکھتی ہیں سیاست میں کوئی بڑا کرشمہ یا معجزہ رونما نہیں ہونے والا۔ گزشتہ برس مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے حکومت مخالف گیارہ جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد بنایا گیا اور جس نے ہمارے سیاسی ماحول میں ہلچل اور ارتعاش بھی ضرور پیدا کیا لیکن وہ ارتعاش زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوا اور کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینے سے پہلے ہی اختلافات کا شکار ہوگیا۔
پی ڈی ایم کے اختلافات کا فائدہ یقینا اسلام آباد کی حکمراں جماعت ہی کو ہوا اور وہ دفاعی پوزیشن سے نکل کر ایک جارحانہ پوزیشن میں آگئی۔ موجودہ حکومت اپنی نااہلیوں کے علاوہ بے تحاشہ مہنگائی کے سبب عوام میں تیزی سے غیرمقبول ہو رہی تھی وہ ایک بار پھر اپوزیشن کی مایوس کن حکمت عملیوں کے بعد کچھ بہتر پوزیشن میں آگئی۔
کئی مہینے خاموشی اختیارکرنے کے بعد پی ڈی ایم ایک بار پھر متحرک ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اُسے اس بار ایک پی ٹی آئی ہی کی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کی بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم کی مجبوری ہے کہ وہ اگر خاموش اور غیر متحرک ہوکر اگلے الیکشن تک مکمل طور پر غیر فعال ہوجائے تو عوام اس سے یقینا مایوس اور نا اُمید ہوکر دوسری فعال سیاسی جماعتوں کی طرف راغب ہونے لگیں گے۔ اس احساس اور سوچ نے پی ڈی ایم کو ایک بار پھر سڑکوں کی سیاست پر مجبورکیا ہے۔ اس کی حالیہ سرگرمی دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔
میاں نواز شریف کی غیر موجودگی نے مسلم لیگ نون کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ دوسرے اُن کا مقتدر قوتوں کے خلاف مسلسل بیانیہ بھی پارٹی کے آگے بڑھنے میں حائل اور مانع ہے۔ شہباز شریف کی انتہائی کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نون ابھی تک اپنی اصل پوزیشن حاصل نہیں کر پائی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اُس کے تمام ارکان ابھی تک بڑی ثابت قدمی سے پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور باوجود کئی کئی مہینے کی جیل کاٹنے کے بعد بھی وہ اپنی قیادت سے منحرف نہیں ہوئے ہیں، لیکن دیکھنا ہے کہ یہ صورتحال کب تک چلتی رہتی ہے۔
آخر کب تک کوئی سیاستداں یوں بلاوجہ کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا اور یوں اپنا سار ا سیاسی کیریئر تباہ کردے گا ،کیونکہ پارٹی کے بیانیے سے جڑے رہنے کی صورت میں انھیں مقدمات اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں اور خاموش ہوکر بیٹھ جانے کی صورت میں عوام کی حمایت سے محرومی کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ دوسری جانب اُن پر نادیدہ قوتوں کی جانب سے وفاداریاں بدل لینے کا بھی مسلسل دباؤ موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بہت ہی بڑا سخت گیر وفادار اور جاں نثار ہی ثابت قدم رہ سکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت بڑی ہشیاری اور چالاکی کے ساتھ اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ وہ ایک طرف سندھ صوبے کی حکمرانی کے مزے بھی لوٹ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے الیکشن کی تیاری بھی کررہی ہے۔ اُسے کامل یقین ہے کہ سندھ صوبے کی حکمرانی اُس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ چاہے کوئی کارکردگی دکھائے یا نہ دکھائے سندھ کے عوام اُسے کبھی بھی مایوس نہیں کریں گے۔
الیکشن جب بھی ہوئے اِس ایک صوبے میں تو وہ یقینا کامیابی حاصل کر لے گی اور یوں اُس کا دانا پانی بھی ہمیشہ چلتا رہے اور سیاست بھی۔ اِسی وجہ سے وہ پی ڈی ایم کی اس تجویز سے ہرگز متفق نہ تھی کہ لانگ مارچ سے پہلے اجتماعی استعفٰی دے دیے جائیں۔ استعفوں کے آپشن کو وہ آخری آپشن کے طور پر اس وقت استعمال کرنا چاہے گی جب الیکشن میں چند مہینے باقی رہ جائیں اور یوں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق وہ ایک کامیاب اور دانشمندانہ سیاست کا سہرا اپنے سر سجا کر سرخرو ہونا چاہتی ہے۔
ووٹ آف نو کانفیڈنس کی اُس کی تجویز کے پیچھے بھی ایک ایسی ہی زبردست سیاسی حکمت عملی چھپی ہوئی ہے ۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہمارے سیاسی ماحول میں عدم اعتماد کی کوئی بھی تحریک ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ ویسے بھی معاملات کو چند مہینوں میں سدھارنا اتنا آسان نہ ہوگا بلکہ الٹا بد نامی کا باعث ہوگا۔ مسلم لیگ نون کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ نئے الیکشن کی تیاری کے ساتھ میدان میں اترے نہ کہ چند مہینوں کی حکمرانی کے لیے اپنا مستقبل داؤ پر لگا دے۔
ادھر حکمراں جماعت بھی اندر ہی اندر نئے انتخابات کی تیاری میں مشغول ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کروانے کا مقصد بھی عوام کی سوچ کا پتا لگانے کی ایک مہم ہے ، تاکہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ عوام اُس کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے جس طرح غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اُس کے بعد شاید ہی یہ ممکن ہوکہ عوام اُسے مزید پانچ سالوں کے لیے حق حکمرانی عطا کریں۔ یہ صرف اُسی طرح ممکن ہے جس طرح 2018 کے انتخابات میں کرشماتی قوتوں نے اُسے جیت سے ہمکنار کروایا تھا۔ اگلا الیکشن بھی اُس کے لیے صرف اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر جیت جانا قطعاً مشکل اور ناممکن ہے ۔ جس RTS سسٹم کو لاگ لگاکرراتوں رات الیکشن کے نتائج تبدیل کردیے گئے تھے اُسی طرح کوئی اورطریقہ کار اس بار بھی وضع کیا جاسکتا ہے۔
الیکٹرانک مشین کے ذریعے الیکشن کروانے کے پیچھے بھی ایسے ہی مقاصد کار فرما ہیں۔ جس ملک میں بجلی کی فراہمی کبھی بھی معطل ہوسکتی ہو وہاں اس الیکٹرانک مشین سے الیکشن کروانا کس کے لیے فائدہ مند ہوگا ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ قوم کے ساٹھ فیصد لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں اُن کو الیکٹرانک مشین کے سامنے کھڑا کردینا کون سی عقلمندی اور دانشمندی ہے۔ جس ملک میں فارم نمبر 45 بھی پولنگ ایجنٹوں کو نہیں دیا جاتا ہو وہاں الیکٹرانک مشین میں ہیرا پھیری کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ صرف ایک صفر بڑھا کر دس ہزار کوایک لاکھ بنانا نتائج ترتیب دینے والوں کے لیے صرف ایک کلک کی مار ہے۔
حکومت مسلسل مصر ہے کہ وہ اگلا الیکشن اسی الیکٹرانک مشین پرکروائے گی جب کہ ساری اپوزیشن جماعتیں اور خود الیکشن کمیشن بھی ابھی تک اس مشین سے الیکشن کروانے پر راضی اور رضامند نہیں ہے۔ دیکھتے ہیں معاملہ کہاں تک جائے گا۔ زور اورزبردستی کامیاب ہوتی ہے یا پھر افہام و تفہیم ۔