غزل
جب تری یاد کبھی اشک فشاں ہوتی ہے
جوئے خوں آنکھ کناروں سے رواں ہوتی ہے
اس کے آتے ہی عطا ہوگا ہمیں عہد ِ وصال
موت ہم ہجر پرستوں کی اماں ہوتی ہے
اشک دیکھے ہیں مگر کاش کوئی تو دیکھے
وہ اذیت جو پس ِ اشک نہاں ہوتی ہے
تم کو معلوم کہاں دیکھتے رہنے کے سبب
آنکھ حیرت کدۂ عمرِ ِ رواں ہوتی ہے
ایک میں ہوں کہ ابھی تک نہ ملا دل کا سراغ
تم تو جس چیز کو رکھتے ہو وہاں ہوتی ہے
اب تو میں جھوم کے لیتی ہوں بلائیں ایماں
اب مجھے ہجر سے تکلیف کہاں ہوتی ہے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
اندھیرا گرچہ ابھی مشعلوں پہ بھاری ہے
مگر لڑائی بڑی تندہی سے جاری ہے
طلب غرور کی ہوگی تو کیا کروں گا میں
کہ میرے پاس تو جتنی ہے انکساری ہے
اک اجنبی ابھی نظریں ملا رہا ہے فقط
ہمارے دل پہ جدائی کا خوف طاری ہے
کچھ اشک سے بھی مٹایا کر اپنی تشنہ لبی
یہ اشک ہی نہیں دریا کی ریزگاری ہے
چل آدمی نہیں دیوار ہی سہی گھر کی
کوئی مشیر تو بستی میں اعتباری ہے
گماں کے آسرے پھرتے ہو جابجا عزمیؔ
تمہارے پاس عجب مفت کی سواری ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے ، گجرات)
۔۔۔
غزل
چمکیں ہیں کچھ اس طرح سے دندان وغیرہ
جیسے ہو ستاروں کی کوئی کان وغیرہ
کل تک تو پڑے رہتے تھے پہلو میں ہمارے
جو آج بنے پھرتے ہیں انجان وغیرہ
پہلے ہی قیامت تھے خدوخال تمہارے
سونے پہ سہاگا ہے یہ مسکان وغیرہ
اس وقت ہزاروں میں کوئی ایک ہی ہوگا
کہتے ہیں جسے حضرتِ انسان وغیرہ
لوگوں کے بتائے ہوئے خدشات صحیح تھے
جھوٹے تھے سبھی عشق کے پیمان وغیرہ
اللہ رے، کیا فائدہ درکار ہے مجھ سے
بیکار ہوئے جاتے ہیں قربان وغیرہ
یہ کون سخی گزرا ہے اس راہ سے محسنؔ
دل تھام کے بیٹھے ہیں قدردان وغیرہ
(محسن اکبر۔حجرہ شاہ مقیم)
۔۔۔
غزل
کیا عجب اس نگر کا منظر ہے
ہر گلی میں بپا جو محشر ہے
چاند روشن ہوا ہے صحرا میں
دیکھ!ہر ذرہ جیسے اختر ہے
ایک پل میں ہوا مکاں خالی
وہ جو آباد دل کے اندر ہے
عمر گزری ہے اس کی گلیوں میں
سارا ہی شہر اب مرا گھر ہے
عاجزی میں ہی سر بلندی ہے
یعنی ہر شخص مجھ سے بہتر ہے
سادہ دل ہوں اسی لیے خالدؔ
اپنے لٹنے کا ہر جگہ ڈر ہے
(پروفیسر خالد کھوکھر۔صادق آباد)
۔۔۔
غزل
وہ ملا رات خواب میں جیسے
تیرتا عکس آب میں جیسے
دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بے چین
وہ بھی تھا اضطراب میں جیسے
یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے
دُھن بجی ہو رُباب میں جیسے
چاند بدلی کی اوٹ میں یوں لگا
کوئی مہ وش نقاب میں جیسے
اِس طرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں
گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے
کھوج میں اُس کی دَربدر بھٹکے
پیاس کوئی سراب میں جیسے
نقش ہے ذہن و دل پہ وہ رَاحِلؔ
حرف کوئی کتاب میں جیسے
( علی رَاحِل۔ؔ پاکستان بورے والا)
۔۔۔
غزل
اب بستیاں نہ کیجیے آباد اس جگہ
بیٹھا ہوا ہے تاک میں صیاد اس جگہ
اب دیکھیں کس طرح کی اگیں گی تسلیاں
بوئی ہوئی ہے ہم نے بھی فریاد اس جگہ
کچھ دیر آؤ بیٹھیں اسی پیڑ کے تلے
کچھ سال میں نے کاٹے تھے کیا شاد اس جگہ
اب کچھ بھی دِکھ نہیں رہا ہے آپ کے سوا
حالانکہ ایک دنیا تھی آباد اس جگہ
کچھ راہبر تھے کھا گئے جن کو یہ راستے
کچھ خواب تھے جو ہو گئے برباد اس جگہ
مانے گا اس مقام کو دربار کی طرح
آئے گا وہ ہمیشہ مرے بعد اس جگہ
تخلیق بانوؔ لے کے کہاں آ گئی ہو تم
کرتے نہیں رعایتیں نقاد اس جگہ
(شازیہ بانو۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
نگاہِ مست کامے نوش ہوں میں
نہ پوچھوکس قدرمدہوش ہوں میں
جوانی ہے ابھی اپنی سہیلی
ابھی نادان ہوں پرجوش ہوں میں
مجھے تم شوق سے ٹھہراؤدوشی
یہ کب کہتاہوں کہ نردوش ہوں میں
تری رسوائیوں کاخوف ہے بس
مراکیاہے کہ ذلت کوش ہوں میں
توکچھ بھی بول دے میٹھایاکڑوا
مرے دلبرہمہ تن گوش ہوں میں
کہیں باہرمجھے کیاڈھونڈتاہے
ترے اندرہی توروپوش ہوں میں
بہت کچھ گونجتاہے دل میں طارقؔ
بظاہرتوبڑاخاموش ہوں میں
(طارق محمود۔غلام محمد آباد، فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
سیکھے ہیں مرے دل نے کئی لہجے بدن سے
خوشبو نے بنائے ہیں کئی رشتے بدن سے
اک بوجھ ہے جو کم نہیں ہوتا میرے دل سے
اک شے ہے جو لپٹی ہوئی رہتی ہے بدن سے
ہیں یاد جوانی کے وہ دن ہم کو ابھی تک
جب دل ہی کی باتوں کو چھپاتے تھے بدن سے
اک نغمہ سا گاتی تھیں ہواؤں کی کنیزیں
ہم شاعری سنتے تھے جب اعضائے بدن سے
لفظوںکی ضرورت بھی اسے اب نہیں پڑتی
باتیں وہ مرے دل کی بھی بتلائے بدن سے
تقدیر سلگتے ہوئے لے آئی یہاں پر
اک آگ برستی ہے شہاب اپنے بدن سے
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا دیر ،خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
افشا یہ ایک راز ہی مجھ پر ہوا نہیں
آیا وہ میرے شہر میں، مجھ سے ملا نہیں
میں چل پڑی ہوں راہِ مقدر کے ساتھ ساتھ
اب وحشتوں سے مجھ کو بھی کوئی گلہ نہیں
اپنا بنا کے مجھ کو دیا ہجر دوستا
تو نے یہ میرے ساتھ کچھ اچھا کیا نہیں
بچھڑی ہوئی میں کونج ہوں تیری ہی ڈار سے
تنہا ہوں ایک عمر سے ڈھونڈا گیا نہیں
ہوں اک عذاب دردِ تمنا کی قید میں
مجھ کو خود اپنے گھر کی بھی حالت پتہ نہیں
اک عمر میرے قدموں میں دنیا پڑی رہی
اب شہر ِ بے وفا میں کوئی پوچھتا نہیں
کہنے لگا کہ پھر میں بتا اور کیا کروں
میں نے کہا کہ دل میں مرے اب جگہ نہیں
محسوس کر رہی ہوں اسی بوئے گل کو میں
جو گل کہ شاخِ دل پہ ابھی تک کھلا نہیں
(اسماہادیہ۔لاہور)
۔۔۔
غزل
یہ مرا بارِ عنایات بڑھانے کے لیے
تُو بھی آ جا کوئی احسان جتانے کے لیے
نیند کرنے کے لیے خواب دیے آنکھوں کو
یعنی اک قرض لیا قرض چکانے کے لیے
بات سادہ ہے پر اے دل تجھے کیسے سمجھائیں
کوئی جاتا ہی نہیں لوٹ کے آنے کے لیے
ہے دیوانوں کے لیے خوب سہولت، کہ انہیں
وجہِ درکار نہیں اشک بہانے کے لیے
آتشِ ہجر میں اب دل ہی جلانا ہو گا
خط ہوا کرتے تھے پہلے تو جلانے کے لیے
شام ڈھلتے ہی کچھ احباب چلے آتے ہیں
شعر سننے کے لیے، شعر سنانے کے لیے
کتنے خدشات سے لڑنا پڑا آزادؔ ہمیں
شمعِ امید سر بام جلانے کے لیے
(اسامہ آزاد۔ تلہ گنگ)
...
غزل
آخری بار جب ملے ہم لوگ
شہر میں ہر جگہ دکھے ہم لوگ
بات ہوتی نہیں تھی آپس میں
پھر بھی اک دوسرے کے تھے ہم لوگ
اس نے محفل میں بیٹھنا تھا جہاں
اس طرف دیکھتے رہے ہم لوگ
ایک نمبر سے کال کیا آئی
رات بھر جاگتے رہے ہم لوگ
رہنما راہ میں فرار ہوا
یونہی اک سمت چل دیے ہم لوگ
(حامد رؤف۔ بنّوں)
...
غزل
اک گزارش، مَیں ہوں بیمار،سنبھالو مجھ کو
اے مِرے یار،مِرے یار! سنبھالو مجھ کو
میں اکیلا ہوں،کوئی ساتھ نہیں ہے میرے
دنیا ہے خوف کا بازار،سنبھالو مجھ کو
اک دکھاوے سے ہی کچھ حرفِ تسلی بھیجو
میں ہوں بوسیدہ و ناکار،سنبھالو مجھ کو
دکھ تو ہر روز سرہانے سے لگے رہتے ہیں
بے وجہ ہم پہ ہے یلغار،سنبھالو مجھ کو
آخرش موت کو منظور ہوئے ہم مانی ؔ
میں نہ کہتا تھا یہ ہر بار،سنبھالو مجھ کو
(محمد نعمان مانی کورائی، مظفر گڑھ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی