صحافت اور وکلا کا محاذ عمل
اب بھی ہمارے عدالتی نظام میں حق سچ کہنے اور حق کا ساتھ دینے والے ججز اور وکلا نمایندے ہیں۔
ISLAMABAD:
انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی پر حکومتی قدغن لگانے کے خلاف کمربستہ سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کی ناگہانی رحلت کی خبر صحافتی جدوجہد کی راہ میں ایک افسوسناک پہلو لیے ہوئے ضرور ہے مگر رحیم اللہ یوسف زئی ان معدودے چند جرات مند صحافیوں میں سے تھے کہ جنھوں نے تمام تر جبر اور نامساعد حالات میں بھی صحافتی آزادی کی تحریک کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کی یکجہتی اور سلامتی کے لیے مقدور بھر کوششوں میں صف اول میں نظر آئے ، گو یہ صحافتی تحریک کے دوران ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، مگر رحیم اللہ کے استقامت بھرے جذبے کو صحافتی تنظیمیں اپنا ایک اثاثہ سمجھتے ہوئے اظہار رائے کی اس جدوجہد کو ضرور پایہ تکمیل تک پہنچائیں گی جو رحیم اللہ یوسف زئی کا خواب تھا۔
ابھی پچھلے دنوں شہر اقتدار کی یاترا کے دوران صحافتی رہنما و قائد ناصر زیدی اور وکلا برادری کے بار کونسل کے نمایندوں سے گفتگو کے دوران صحافت کو کنٹرول کرنے کی غرض سے حکومتی کوشش پر سیر حاصل بحث رہی، جس میں صحافتی تنظیم کے جنرل سیکریٹری ناصر زیدی اور وکلا رہنما کا عزم قابل دید تھا اور نیشنل پریس کلب کا ہر صحافی صحافتی قدغن کے مجوزہ بل کے خلاف نہ صرف سینہ سپر دکھائی دیا بلکہ پارلیمینٹ کے سامنے صدر کے مشترکہ اجلاس کے دوران احتجاج اور دھرنے کے کاموں میں پر عزم جتا ہوا نظر آیا۔
دوسری جانب اسلام آباد میں معروف شاعر اور ہمارے ہر دلعزیز افتخار عارف کی مزاج پرسی کے دوران صحافتی رہنما ناصر زیدی بھی آن پہنچے اور ادب و سماجی صورتحال پر جملہ شرکا فکرمند اور مستقبل کے پاکستان میں ادبی ناقدری ، تہذیبی روایات کی رخصتی اور باہمی رشتوں سے مبرا ملک کی نظر آنے والی تصویر پر نہ صرف رنجیدہ تھے بلکہ ان خانماں خرابیوں کے تدارک کے لیے فکرمند اور پر عزم و پر امید بھی تھے۔
گھنٹوں کی اس گفتگو میں جہاں افتخار عارف روایتوں اور ادبی قدروں کے شکستہ ہونے اور رواداری کے رخصت ہونے پر پریشان تھے وہیں وہ کراچی کے ادبی ماحول میں بے گانگی اور کراچی کی زندہ قدروں پر مسلسل گفتگو کرتے آبدیدہ ہوتے رہے، شکوے شکایت سے پرے ہوکر افتخار عارف توانا قدروں اور رواداری کے بندھنوں کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں بے چین و بے قرار نظر آئے۔ اسی دوران ناصر زیدی کی آمد پر افتخار عارف میں عجیب سی فکر مندی جاگی اور ان کے بیٹھتے ہی انھوں نے سوال کیا کہ '' بھائی ناصر یہ صحافتی آزادی کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں ، کیوں نسل کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟''
افتخار عارف ہی نہیں ملک کے اکثر اہل فکر و دانش اور سیاسی دانشوروں کا سوال ہے کہ ملک میں حکمران آخر کار غیر جمہوری اقدامات اور اس متنازعہ بل سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور خود کو منتخب سمجھنے والی حکومت کیوں عدلیہ کی آزادی کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی اور آزاد صحافت کا گلہ گھونٹنا چاہتی ہے؟
جب کہ آئین کا آرٹیکل 19 واضح طور سے تحریر و تقریر اور ہر فرد کی جمہوری رائے اور آزادی کا ضامن ہے۔حکمرانوں کی جانب سے پسند کے ججز کو لانے کی روایت بنیادی طور سے غیر جمہوری آمرانہ ذہن کی وہ پیداوار ہے جس کے ذریعے ملک کی غیر منتخب و غیر جمہوری ''طاقتور اشرافیہ'' اپنے من پسند ججز کو نواز کر خود کو تحفظ دینے کے لیے غیر آئینی و غیر قانونی فیصلے لینا چاہتی ہے، اور اس طرح وہ عدل و انصاف کے اداروں کو اپنے غیر آئینی و غیر جمہوری فیصلوں کا تسلسل چاہ کر پورے عدالتی نظام کو کمزور و ناتواں کرکے وہاں بھی اپنی پسند کے ججز لانا چاہتی ہے ، تاکہ ان کے غیر آئینی و غیر قانونی کاموں میں کوئی بھی رکاوٹ نہ بن سکے۔اسی سے عدالتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔
مگر دوسری جانب یہ حوصلہ افزا اور سماج کے سیاسی شعور کی علامت بات ہے کہ اب بھی ہمارے عدالتی نظام میں حق سچ کہنے اور حق کا ساتھ دینے والے ججز اور وکلا نمایندے ہیں جو اب تک غیر آئینی اقدامات کے سامنے دیوار بنے کھڑے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے وکلا کا مثالی اتحاد اور سماج کی باشعور سیاسی و سماجی قوتوں کا کردار اب تک آئین و قانون کی بالا دستی خاطر استقامت سے کھڑا ہے۔
وکلا یکجہتی اور جدوجہد کی منزل کی سماجی آزادی حاصل کرنے کا یہ وہ کامیاب پہلا پڑائو ہے جسے جاری و ساری رکھتے ہوئے اظہار رائے کی صحافتی آزادی سے جوڑنا آج کے وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
اظہار رائے اور صحافتی آزادی کی جدوجہد پچھلے 72 برسوں سے جبر ، قید و بند ، بندی خانے کی تاریک راہداریوں اور آمر جنرل ضیا کے کوڑوں کی سزا سے عبارت ہے، صحافتی جدوجہد کی درخشاں تاریخ اس بات کی غماز رہی ہے کہ تمامتر مارشلائوں میں بھی ملک کے باضمیر صحافیوں نے شہری آزادی اور جمہوریت کی بقا میں اپنا خون ڈالا ہے، اور آج بھی ملک کے صحافیوں کی نمایندہ تنظیم آمر ضیا کے کوڑے یافتہ ناصر زیدی کی سرکردگی میں اظہارکی آزادی کے لیے سرفروشانہ انداز سے تمام تر مشکلات میں بھی ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
عنان اقتدار کے طاقتور خدائوں کو خبر ہوکہ اظہار کی آزادی اور جمہوریت کی بقا کی خاطر ملک کے وکلا،طلبہ،انسانی حقوق کی تنظیم،ٹریڈ یونین تحریک اور جمہوری متوالے سانجھے ہوکر ''طاقت کے خدائوں'' کو عوام کی یکجہتی اور حمایت سے شکست دیں گے، وہ مشترکہ احتجاج بھی کریں گے ریلیاں بھی نکالیں گے اور جمہوری آزادی کے لیے دھرنے بھی دیں گے مگر کسی بھی صورت وطن پرستوں کے اظہار کو مجرمانہ طور سے پابند کرنے والے بل '' پی ایم ڈی اے'' کو قبول نہیں کریں گے کہ یہ جمہوریت پسندوں کا وہ کارواں ہے جو پا برہنہ ضرور ہے مگر ان کی استقامت اور حوصلے ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند و طاقتور ہیں، لہٰذا عوام کے اظہار رائے کو روکنے کی بچکانہ کوششوں سے باز رہا جائے اور ملک کو جمہوری قدروں کا وہ نشان بنایا جائے جہاں ہر فرد آزادی سے سانس لے سکے اور اپنے حقوق و انصاف کے لیے اعلیٰ قدروں کا عدالتی نظام پا سکے۔
جبر مٹنے والا ہے
ہم ابھرنے والے ہیں