عطاللہ مینگل…جدوجہد کا ستون

عطاللہ مینگل جیسی عظیم شخصیت کے انتقال پر ان کو پوری کوریج نہیں دی گئی۔


جمیل مرغز September 12, 2021
[email protected]

2ستمبر 2021کو جدوجہد کا ایک ستون گر گیا۔ جمہوریت اور قومی حقوق کے علمبردار 'سردار عطاللہ مینگل کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ اردو میڈیا ان کی سیاسی فکر کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتا۔

''ہم کہتے ہیں کہ وفاق اس وقت مضبوط ہوگا جب وفاقی اکائیاں مطمئن اور مضبوط ہوں'پاکستان جن قوموں کاتاریخی وطن ہے ان کو حقوق دیے جائیں'تو پھر کوئی مسئلہ نہیں'الٹا ہمیں غدار قرار دیا جاتا ہے''۔ اس لیے انھوں نے اردو اخبارات کو اکثر انٹرویو دینے سے معذرت کی 'اردو میڈیا کا یہ تعصب ان کی موت پر ثابت ہوگیا ۔

سید علی گیلانی کی قربانیوں اور جدوجہد کو سلام ' یہاں تو بھٹو شہید کو بھی جنازہ نصیب نہیں ہوا تھا 'انھیں کم از کم باعزت موت تو نصیب ہوئی حالانکہ وہ ہندوستان کے باغی تھے 'دونوں کی موت پر اردو میڈیا کا رویہ بہت غیر منصفانہ رہا بلکہ میڈیا نے ریاستی بیانیے کو زور دیا ۔

عطاللہ مینگل جیسی عظیم شخصیت کے انتقال پر ان کو پوری کوریج نہیں دی گئی'حالانکہ جمہوریت اور قومی حقوق کے لیے ان کی قربانیاں کسی سے کم نہیں'بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کے حاکمانہ رویے اور شہنشاہ ایران کی سازشوں کے خلاف کھڑے رہے 'اور دس مہینے کے بعد ان کی حکومت ختم کردی گئی' اس وقت اکبر بگتی نے مرکز کا ساتھ دیا ' مینگل حکومت کا خاتمہ اور اس کی وجہ سے صوبہ سرحد کی نیپ اور جمیعت کی حکومت کا استعفیٰ حقیقت میں بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی ابتداء ثابت ہوئی۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ بلوچ مسلح جدوجہد شروع ہوئی جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے' ان کے حوالے سے ایک واقعہ ۔

1981میں جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں کی جگہ صرف جیل تھی یا زیر زمین زندگی 'میں بھی اکثر جیل یاترا کرتا تھا۔ مختصر'1981 میںمجھے بھی جیل لمبی ہو گئی تھی اور تقریباً ڈیڑھ سال گزارنا پڑا۔ مرحوم جنرل نصیراللہ بابر اور پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنماء بھی جیل کے ساتھی تھے۔

ایک دن اخبارمیں جنرل صاحب نے بلوچ لیڈروں کے بارے میں کوئی خبر پڑھی توکہنے لگے کہ جنرل ضیاء الحق کی پالیسی دیکھو'بھٹو کو حیدر آباد جیل کے قیدیوں سے ملنے سے منع کیا اور اب ان کے ساتھ نہ صرف ملاقات کی بلکہ ان کو رہا کروا کر افغانستان بھی بھیج دیا 'انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب میں گورنر تھا تو وزیر اعظم بھٹو پشاوردورے پرآئے ہوئے تھے'ان کا قیام گورنرہائوس میں تھا 'ایک دن صبح صبح اچانک آرمی چیف 'جنرل ضیاء الحق کے پشاور آنے کی خبر آئی 'ہم حیران ہوئے کہ کیا مسئلہ ہے؟

خیرجنرل صاحب ہیلی کاپٹرسے اتر کر سیدھے گورنر ہائوس آگئے 'تھوڑی دیر بیٹھ کر انھوں نے وزیر اعظم سے الگ بات کرنے کا کہا'الگ کمرے میں مجھے بھی بلالیا'وہاں جاکر انھوں نے کہا کہ ایک افسوس ناک خبر ہے ' سردارعطاء اللہ مینگل کا بیٹا اسد اللہ مینگل جو کراچی میں طالبعلم تھا 'نامعلوم افراد کے ہاتھوںمارا گیا ہے 'بھٹو صاحب سن کر حیران ہوئے اور پھر غصے سے کہا کہ یہ کیا ہوگیا۔

عطاللہ مینگل کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے دعا کے بعد کہا کہ بلوچ عوام کے حقوق کے لیے میں ساری اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں'یہ تھے بہادر' جمہوریت پسنداور قوم پرست رہنماء عطااللہ مینگل 'ان کی موت سے ہر جمہوریت پسند اور باشعور انسان کی طرح مجھے بھی دکھ ہوا ہے۔ اس دکھ کو قارئین کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔

پاکستان کے سیاستدانوں کی اس نسل کی ایک اور نشانی ہم سے جدا ہوگئی جو ریاکار اور منافق نہیں تھی' جو بھی کہتی اس پر ڈٹے رہتے مشکلات اور تکالیف کی پرواہ نہیں کرتے 'بدقسمتی سے ہماری جعلی ڈگریوں' ریاکاریوں اور کرپشن سے بھرپور سیاستدانوں سے واقف نئی نسل با اصول اور زبان کے پکے سیاستدانوں کی اس قسم سے ناواقف ہے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم ان کے سیاسی اخلاق کو زیادہ اجاگر کرتے تاکہ نوجوان نسل کو اصلی سیاستدان کی پہچان ہو جاتی۔ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے بیٹے اختر مینگل ان کی راستے پر چل رہے ہیں۔

عطاء اللہ مینگل کو میں اس لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ بلوچستان کے مینگل قبیلے کے سردار تھے بلکہ وہ ایک انقلابی 'سیکولراور جمہوری سیاسی قائد تھے 'نہ جھکنے والے اور نہ بکنے والے انسان 'سردار نوروز خان کی موت کے بعد انھوں نے جدوجہد نہیں چھوڑی بلکہ تیز کردی 'ایک سردار ہوتے ہوئے انھوں نے خیر بخش مری کے ساتھ ملکر سرداری نظام کے خاتمے کے لیے قرارداد مرکزی حکومت کو بھیج دی لیکن بھٹو نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔

انھوں نے 1973کے آئین کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ اس آئین کو مکمل وفاقی نہیں مانتے تھے 'مرتے دم تک بلوچ حقوق اور مظلوم قومیتوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے ۔ذاتی کردار ایسا کہ میں غالباً1973/74 میں کراچی کے سینما میں ٹکٹ لینے کے لیے ایک لمبی قطار میں کھڑا تھا'اس وقت کی مشہور انگریزی فلم ''GUNS OF NAVARONE''. کافی رش لے رہی تھی' پیچھے سے بلوچی زبان میں باتوں کی آواز آئی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شکلیں جانی پہچانی تھیں'اچانک یاد آیا کہ یہ تو شیرمحمد مری اور نواب خیر بخش مری کھڑے تھے' دونوں اپنی اپنی ٹکٹ قطار میں لے کر اندر آگئے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے'مرحوم مینگل بھی ان کے ساتھ تھے۔

فلم کے دوران خاموشی رہی اور ہاف ٹائم میں تینوں باتیں کرتے رہے 'مجھے تعارف یا بات کرنی کی ہمت نہیں ہوئی حالانکہ اس وقت میں بھی نیپ کی صوبائی کونسل کا رکن تھا اور وہ نیپ کے ممبر قومی اسمبلی 'بلکہ رعب کی وجہ سے میں حرکت کرنے میں بھی احتیاط سے کام لے رہا تھا'قطار میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لینے سے یہ ثابت ہوا کہ وہ عوامی لیڈر تھے ورنہ نوکروں کی کمی نہ تھی ۔

سیاسی زندگی میں کئی دفعہ کراچی 'لاہور اور بلوچستان جانے کا موقعہ ملا ہے۔ مہمان نوازی میں بلوچستان کے لوگ سب سے آگے ہیں 'سیاسی نظریات سے بالاتر ہر مہمان کی دعوت کرنا اور ان کی سننا اور اپنی سنانا ان کی فطرت میں شامل ہے 'مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم خیبرپختونخوا والے بھی اتنے مہمان نواز نہیں'بلکہ اکثر تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سرداری نظام کے بارے میں ان کی باتیں میں نے سنی ہیں' ایک محفل میں وہ کہہ رہے تھے کہ قبیلے کی زیادہ تر زمین نواب یا سردار کی ملکیت ہوتی ہے' اس کے علاوہ چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے بھی زمینوں کے مالک ہوتے ہیں' قبیلے کے عام لوگ وہاں پر کاشت کاری کرتے ہیں'اکثر کا پیشہ گلہ بانی ہوتا ہے 'اچھی زمینوں کو کاشت کرنے والوں سے ہم فصل کا چھٹا حصہ لیتے ہیںجس کو شیشک کہتے ہیں'خراب یا بنجر زمینوں والوں سے ہم کچھ نہیں لیتے 'ہر قبیلے میں ایک قبائلی جرگہ ہوتا ہے جس میں قبیلے کے مختلف شاخوں کے چھوٹے سردار 'میر اور وڈیرے شامل ہوتے ہیں۔

سردار کا انتخاب یہ جرگہ کرتا ہے 'سردار دیگر امور میں بھی جرگے سے مشورے کا پابند ہوتا ہے 'سردار کوئی آمر مطلق نہیں ہوتا بلکہ ایک جمہوری طریقہ کار کے مطابق قبیلے کے امور کو چلاتا ہے 'سردار قبیلے کے انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا ذمے دار ہوتا ہے 'ان کاخیال رکھتا ہے ہر شخص کے دکھ درد میں خود یا اس کا نمایندہ شریک ہوتا ہے۔

بھٹو صاحب نے جب سرداری نظام کے خاتمے کا بے وقت اعلان کیا تو چند اخبار نویسوں نے مجھ سے اس بارے میں سوال کیا میں نے ان سے کہا کہ سرداری نظام قبائلی طرز معیشت کا لازمی جزو ہوتا ہے 'جس طرح جاگیرداری نظام میں پنجاب کا چوہدری'پختونوں کا خان اور سندھ کا وڈیرہ اس نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔

اسی طرح بلوچستان اور دیگر علاقوں میں رائج قبائلی نظام میں سردار اس نظام کی عکاسی کرتا ہے 'یہ نظام سرکاری اعلانات سے ختم نہیں ہوسکتا اس کے خاتمے کے لیے قبائلی و جاگیرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا'ہم نے جو مسودہ سرداری نظام کے خاتمے کے لیے مرکزی حکومت کو بھیجا تھا 'اگر اس پر عمل ہوجاتا تو نظام کو کافی دھچکا لگتا لیکن بھٹو صاحب نے اس پر عمل کرنے کے بجائے خود غلط اعلان کردیا۔مینگل صاحب کی داستان ابھی جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں