افغان فوج کو شکست کیوں ہوئی
طالبان اور صدر ٹرمپ کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے نے ایک شکل تو واضح کر دی تھی۔
www.facebook.com/shah Naqvi
KARACHI:
پوری دنیا میں اور خاص طور پر فوجی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ افغان فوج طالبان کے مقابلے میں کیوں نہ ٹھہر سکی ۔ اس راز سے پردہ افغان فوج کے تھری اسٹار جنرل جو فرنٹ لائن پر مسلسل افغان طالبان سے جنگ میں مصروف رہے اٹھاتے ہیں۔
افغان فوج کو شکست کیوں ہوئی۔ اْن کے مطابق اس سوال کا جواب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اول۔یہ فروری 2020میں قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تھا جو ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اس معاہدے نے یہ طے کر دیا تھا کہ امریکا کے اس خطے میں مفادات ایک خاص تاریخ تک ہیں۔
دوئم۔ یہ کہ اس معاہدے کے بعد ہمیں کنٹریکٹر کی طرف سے جنگ کے دوران ملنے والی وہ لاجسٹک سپورٹ ملنا بند ہو گئی تھی جو کسی بھی فوجی آپریشن کی بنیادی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ سوئم۔کرپشن صدر اشرف غنی کی حکومت کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی تھی جو بڑھتے بڑھتے سینئر عسکری قیادت تک بھی پہنچ گئی جس نے افغان فوج کو مفلوج کر کے رکھ دیا ۔
طالبان اور صدر ٹرمپ کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے نے ایک شکل تو واضح کر دی تھی کہ اب امریکی اور اتحادی افواج کے پاس طالبان پر حملہ کرنے کی گنجائش بہت محدود ہو گئی ہے۔ افغان سیکیورٹی فورسز کو ملنے والی امریکا کی فضائی سپورٹ کے رولز بھی راتوں رات تبدیل ہو گئے جس کی وجہ سے طالبان بہت دلیر ہو گئے۔
وہ فتح کے جذبات سے سرشار نظر آئے اور سمجھتے تھے کہ اب تو بس امریکی فوج کے جانے کی دیر ہے۔ اس معاہدے سے پہلے طالبان نے افغان آرمی کے خلاف کسی جنگ میں بھی خاص کامیابی حاصل نہیں کی تھی مگر دوحہ معاہدہ ہونے کے بعد کیا ہوا؟ہر روز ہمارے درجنوں فوجی مر رہے تھے مگر ہم نے پھر بھی جنگ جاری رکھی ۔ یہاں تک کہ اس سال اپریل میں صدر بائیڈن نے جیسے ہی یہ اعلان کر دیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرینگے ۔یہی وہ وقت تھا جب ہر چیز ہمارے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گئی۔
افغان فورسز کی ٹریننگ بھی امریکا کے عسکری ماڈل اسپیشل ٹیکنیکل جاسوسی یونٹس ہیلی کوپٹرز اور فضائی حملوں پر مشتمل تھی جس دن فضائی سپورٹ اور ہمارا گولا بارود ختم ہونے لگا اسی روز ہماری طالبان پر برتری بھی ختم ہو گئی ۔ کنٹریکٹرز نے پوری جنگ کے دوران ہمارے بمبار طیاروں اور ٹرانسپورٹ طیاروں کو متحرک رکھا مگر اس سال جولائی تک ہمارے 17ہزار کنٹریکٹرز میں سے ایک بڑی تعداد ہمیں چھوڑ کر جاچکی ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب ہمارے ہوائی جہاز بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز اور سی130 طیارے بھی گراؤنڈ کر دیے جائیں گے اور تو اور سونے پہ سہاگہ یہ کنٹریکٹرز ویپن سسٹم اور سافٹ ویئر وغیرہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے۔ انھوں نے ہمارا ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ناکارہ کر دیا۔ ہماری وہیکلز اسلحے اور فوجیوں کو ٹریک کرنے والا سسٹم بھی غائب کر دیا گیا ۔ ہمارے ٹارگٹ کی ریئل ٹائم انٹیلی جنس بھی بیکار کر دی گئی۔
طالبان صرف نشانے بازوں اور دھماکا خیز مواد کے ذریعے ہی لڑ رہے تھے جب کہ ہمارے پاس جو فضائی اور لیزر گائیڈڈ صلاحیت تھی وہ بھی ختم کر دی گئی۔ چونکہ ہم اپنے اڈوں پر ہیلی کاپٹر سپورٹ کے بغیر سپلائی جار ی نہیں رکھ سکے تھے اس لیے ہمارے فوجیوں کے پاس ضروری جنگی آلات اور ہتھیاروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ۔ طالبان نے ہمارے کئی فوجی اڈے روند ڈالے تھے اس لیے ہمارے یونٹس کے پاس طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے برق رفتار اور مکمل انخلاء کے فیصلے نے صورتحال مزید خراب کر دی تھی چونکہ طالبان کو انخلاء کی ایک حتمی تاریخ دے دی گئی تھی اس لیے انھیں اپنی عسکری کارروائیوں کے حوالے سے اب امریکیوں سے کسی قسم کا خوف یا ڈر نہیں رہا تھا۔ میں اور میرے فوجی جوان صوبہ ہلمند میں جولائی کا پورا مہینہ اور اگست کا پہلا ہفتہ طالبان کی طرف سے روزانہ 7کاربم دھماکے برداشت کرتے رہے، مگر اس کے باوجود ہم نے میدان جنگ سے پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔
افغانی جنرل مزید کہتے ہیں کہ میں یہاں تیسرے فیکٹر کو بالکل نظر انداز نہیں کر سکتا اور وہ تھا کرپشن کا مسئلہ حکومت کے ہر شعبے میں اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی دیدہ دلیری سے کرپشن ہو رہی تھی کہ جس کے ہر جگہ دستاویزی ثبوت موجود تھے اس بْرائی نے ہماری حکومت اور فوجی قیادت سمیت سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میں کرپشن کو اپنا حقیقی قومی المیہ قرار دے سکتا ہوں۔
ہماری قیادت میں شامل رہنماؤں کی اکثریت ، جن میں ہماری عسکری کمان بھی شامل ہے کرپشن کی دلدل میں پھنس گئی تھی ۔ فوج میں تو صورت حال اس خراب ہو چکی تھی کہ اس میں تقرری ، قابلیت یا استعداد کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کی جاتی تھی ۔ ان تقرریوں نے ہماری قومی فوج پر تباہ کن اثرات مرتب کیے فوج کو اشیائے خورو نوش اور تیل کی سپلائی کا سسٹم بگڑ چکا تھا ۔ کرپشن پر مبنی کنٹریکٹس الاٹ کرنے کی وجہ سے ہمارے جوانوں کا مورال اس قدر تباہ ہو گیا کہ وہ طالبان کے خلاف لڑنے سے پہلے ہی حوصلہ ہار گئے۔
طالبان کے خلاف ہماری لڑائی کے آخری دن تو بہت ہی زبردست تھے۔ ہم زمین پر طالبان کے خلاف ایک شدید جنگ میں مصروف تھے جب کہ امریکی جنگی جہاز ہمارے سروں کے اوپر محض ہمارا تماشا دیکھنے کے لیے محو پرواز رہتے تھے جس سے ہمارے اندر دھوکے اور بے یارو مددگار چھوڑے جانے کا احساس پیدا ہوا۔ اس صورتحال میں میرے فوجی جوان مجھ سے سوال کر رہے ہوتے تھے کہ ہم ان امریکی جنگی جہازوں کی گھن گرج تو سن رہے ہیں مگر یہ ہمیں فضائی سپورٹ کیوں نہیں فراہم کر رہے۔
یہ ساری صورتحال دیکھ کر میرے جوانوں کا مورال زمین بوس ہو گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے افغانستان میں برسر پیکار افغان فوجیوں نے طالبان کے خلاف جنگ بند کر دی۔ آخر میں وہ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ ایک فوجی شکست ہی نظر آتی ہے مگر اس شکست نے دراصل امریکی اور افغان قیادت کی سیاسی شکست سے جنم لیا ہے ۔
یہ ہے حقائق پر مبنی افغان جنرل کا جامع تجزیہ جسے پڑھ کر قارئین جان سکیں گے کہ ایک گولی چلائے بغیر کابل کیسے فتح ہوا۔ افغان فوج کی پسپائی در اصل امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان طے شدہ منصوبے دوحہ معاہدے کے تحت تھی۔