غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں

جاپان کو سرمایہ داری کا دیو کہا جاتا ہے جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5 فیصد لوگ بیروزگار ہیں


Zuber Rehman January 31, 2014
[email protected]

پاکستان میں بے خبری، غلط فہمی اور لاعلمی کی وجہ سے بہت سی معلومات درست طور پر ہمارے علم میں نہیں آتیں۔ وہ ساری غلط باتیں اس حد تک ذہنوں میں سرائیت کرجاتی ہیں کہ ہم غلط کو ہی درست سمجھنے لگتے ہیں۔ آج کی دنیا میں الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے معلومات کی دنیا میں زبردست اضافے کے باوجود بورژوا (سرمایہ دار) میڈیا سچائی کو نظرانداز کرتے ہیں، چھپاتے ہیں یا پھر انھیں اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ ہی ادھر نہ جائے۔ ان کی وضاحت اور سچائی کو اجاگر کرنے کے لیے ان معلومات کو عوام کے سامنے لانا بے حد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی بیشتر پارٹیاں امریکا کے خلاف بولتی ہیں لیکن امریکی سامراج اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف دم بخود رہتی ہیں۔

یہ امریکی عوام ہی ہیں جنھوں نے 1886 میں صنعتی شہر شکاگو میں یکم مئی تا 5 مئی تک 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کے لیے تحریک چلائی تھی جو سارے امریکی شہروں تک پھیل گئی تھی، بے شمار مزدور مارے گئے، 6 انارکسسٹ مزدور رہنماؤں کو سات ماہ بعد پھانسی دے دی گئی۔ انھیں پھانسی دینے کے کئی سال بعد شکاگو کے میئر نے بیان دیا کہ ''ان مزدور رہنماؤں کو پھانسی دینا عدالتی ناانصافی اور صریحاً انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی''۔ مگر آج ساری دنیا میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے بیشتر مزدوروں کو آج بھی 12/14 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پسماندہ ملکوں میں بھی سرکاری اداروں میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں ہر جگہ اور ہر ادارے میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ آج امریکا میں 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ بے روزگار اور 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پہ پلتے ہیں۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جو نیویارک سے ''ہم 99 فیصد ہیں'' کے نعرے سے شروع ہوئی اور سارے امریکی شہروں اور دنیا کے تقریباً ایک ہزار شہروں تک پھیل گئی۔ درحقیقت امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کارپوریٹ سرمایہ داری، امریکا اور دنیا بھر کے عوام کا استحصال کر رہے ہیں نہ کہ امریکی عوام۔

جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج کے تسلط کے خلاف وہاں کے عوام نے عظیم قربانیاں دیں، جس کے رہنما نیلسن منڈیلا تھے۔ انھوں نے ساری زندگی عظیم الشان جدوجہد کی۔ 1959 میں منڈیلا نے کہا تھا ''یہ حقیقت ہے کہ بینکوں، سونے کی کانوں اور زمینوں کی نیشنلائزیشن کا چارٹر میں مطالبہ، مالیاتی، سونے کی اجارہ داریوں اور کاشت سے وابستہ مفاد پرستوں کی نیند حرام کر رہا ہے جوکہ صدیوں سے عام انسانوں کو لوٹتے چلے آرہے ہیں اور جس کے باعث لوگ غلاموں سے بدتر زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔ یہ نیشنلائزیشن انتہائی ضروری اقدام ہے، جب تک ان اجارہ داریوں کو ختم نہیں کیا جاتا ہے اور جب تک اس دولت کا اختیار اور انتظام عوام کے ہاتھوں میں نہیں دیا جاتا تب تک اس چارٹر کی اہمیت کوئی معنی نہیں رکھتی''۔ جب وہ جیل سے رہا ہوکر آئے تو ایک بار پھر دہرایا کہ ''سونے کی کانوں، بینکوں اور اجارہ دارانہ صنعتوں کی نیشنلائزیشن، افریقن نیشنل کانگریس کی پالیسی ہے اور اس حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں لچک یا تبدیلی لانا ناقابل مصالحت ہے''۔ بعد ازاں وہی منڈیلا ڈیووس میں ''ورلڈ اکنامک فورم'' کے اجلاس میں شریک ہوئے جس کے بعد وہ عالمی سرمایہ داروں سے قریب ہوگئے۔ حکمران طبقات اور سامراج نے انھیں مائل کرلیا کہ وہ نیشنلائزیشن کو ترک کردیں اور منڈی کو پنپنے کا موقع دیں۔ اس عمل میں ڈی بیٹرز مانز کے ہیری اوپن ہیمر نے مصالحانہ کردار ادا کیا۔

بہت سارے لوگ جرمنی کو انتہائی ترقی یافتہ اور خودکفیل ملک سمجھتے ہیں جب کہ اسی میں 10 لاکھ شہری بے گھر ہیں، سوئٹزر لینڈ کو جنت نظیر سمجھا جاتا ہے جب کہ یہاں کی 50 فیصد دولت کے مالک 1 فیصد ہیں اور 99 فیصد لوگ باقی 50 فیصد دولت کے۔ دنیا کے سارے سرمایہ دار اپنے عوام کا خون نچوڑ کر یہاں کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں۔ اور انھوں نے لوٹی ہوئی دولت کو ظاہر نہ کرنے کا قانون بھی بنا رکھا ہے۔ مصر کی موجودہ فوجی حکومت کو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکا انھیں اقتدار میں لایا ہے جب کہ قصہ اس کے برعکس ہے۔ اخوان المسلمون کو قطری بادشاہوں کی حمایت حاصل تھی۔ امریکا نے مرسی حکومت کو 4 بلین جب کہ قطر نے 5 بلین ڈالر کی امداد دی تھی۔ اب فوجی حکومت کو سعودی عرب 6 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے اور مزید 6 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ قطر اور سعودی حکومت دونوں نے اپنے اپنے ملکوں میں امریکی فوجی اڈوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایرانی حکومت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ ہاں مگر امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں غالب نہیں ہیں۔ اس کی جگہ یہ جاپانی سامراج، جرمنی سامراج، فرانسیسی سامراج، چینی سامراج اور کینیڈین سامراج اپنے سرمایوں سے ایران کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

تین سال قبل کی بات ہے کہ تہران کی تین بجلی پیدا کرنے کی سرکاری کارپوریشنوں کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہاں نجکاری کا عمل مسلسل جاری ہے۔ 38,000 ریال کا ایک ڈالر ہے۔ 2011 میں 8 لاکھ ایرانیوں نے مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف عظیم الشان ہڑتالیں کیں اور مظاہرے کیے، جس میں سابق ایرانی صدر رفسنجانی کا بیٹا بھی ہلاک ہوا۔ چین کو ترقی کا مثالی پیکر کہا جاتا ہے، جب کہ چین میں اس وقت 55 ارب پتی ہیں اور 22 کروڑ عوام بے روزگار۔ کمیونسٹ پارٹی کی 16 رکنی پالیٹ بیٹورو کے اراکین میں سے 12 ارب پتی ہیں۔ یہ تو پارٹی ہے اور نہ کمیونسٹ۔ صرف گزشتہ سال چین میں کسانوں اور مزدوروں نے سوا لاکھ مظاہرے کیے اور کچھ ہڑتالوں میں کامیابی بھی حاصل کی۔ ترکی کو سامراج مخالف اور ترقی یافتہ کہا جاتا ہے جب کہ اسی ترکی میں آئے روز بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں۔ نیٹو میں موجود امریکی فوج کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے اور نیٹو کے ماتحت ترکی میں جرمنی فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔ ہندوستان کو شائننگ انڈیا کہا جاتا ہے جب کہ یہاں 490 ارب پتی ہیں اور 34 کروڑ بے روزگار۔ ہر سال 25 لاکھ لڑکیاں پیدا ہونے سے قبل ہی قتل کردی جاتی ہیں۔ ہندوستان کا بڑا سرمایہ دار مکیش امبانی جوکہ ممبئی میں 28 منزلہ محل میں رہائش پذیر ہے اور اس کے محل میں دو سوئمنگ پولز اور ایک ہیلی پیڈ ہے جب کہ اسی محل کے گرد 40 لاکھ لوگ 40/40 گز کے دڑبوں میں اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ملائیشیا کو سرمایہ داری کی تیز تر ترقی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ دو سال قبل ملائیشیا کی سوشلسٹ پارٹی کی قیادت میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے خلاف 50 ہزار افراد نے کوالالمپور میں ریلی نکالی۔ جاپان کو سرمایہ داری کا دیو کہا جاتا ہے جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5 فیصد لوگ بیروزگار ہیں یعنی 13 کروڑ میں 65 لاکھ۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہاں کی بات ہی نرالی ہے۔ ایشیا میں پاکستان مہنگائی اور غربت میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان میں 90 فیصد مزدور، کھیت مزدور اور کسان 4/5 ہزار روپے سے زیادہ نہیں کما پاتے یا یوں کہہ لیں کہ وہ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 1132 بچے غذائی قلت کی وجہ سے اپنی پہلی سالگرہ نہیں منا سکتے۔ یہ ہیں نام والے ممالک کی معاشی صورت حال۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایسا انقلاب ہے، جو نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے، ملکوں کی سرحدوں کو توڑ دے، اسمبلیوں کی جگہ یہ کمپنیاں تشکیل دے فوج کی جگہ یہ رضاکاروں کی عبوری کمیٹیاں تشکیل دے اور اجتماعی پیداوار کو اجتماعی طور پر بانٹ لے۔

(تصحیح: گزشتہ شمالی کوریا پر چھپنے والے مضمون کے اختتام پر کم ال سنگ کا نعرہ Socialism Will Not Perish یعنی سوشلزم تباہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس جملے میں غلطی سے Perish کی جگہ Persist چھپا تھا۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں