آئینی ادارہ کی سالمیت کو خطرہ
اختیارات کا غلط استعمال ہوسکتا ہے، اسٹیک ہولڈرز مطمئن ہیں نہ عوام کا اعتماد حاصل ہے۔
دھاندلی رک سکتی ہے، ووٹرکی شناخت خفیہ نہیں رہے گی، ووٹنگ مشین ہیک ہوسکتی ہے، با آسانی ٹیمپر اور سوفٹ ویئر تبدیل کیا جاسکتا ہے، مشین کس کی تحویل میں رہے گی؟ کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ اختیارات کا غلط استعمال ہوسکتا ہے، اسٹیک ہولڈرز مطمئن ہیں نہ عوام کا اعتماد حاصل ہے۔
ملک میں انتخابات کے انعقاد کے آئینی ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو 2023 کے انتخابات کے لیے ناقابل استعمال قرار دیدیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی تیار کردہ اس مشین کے استعمال پر 37 اعتراضات کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکریٹری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کمیشن کو ٹیکنالوجی کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر الیکشن کمیشن کے نزدیک اس کی ساکھ زیادہ اہم ہے۔ وفاقی حکومت آئینی ادارہ کو پارلیمنٹ کی اکثریت کی بنیاد پر بلڈوزکرنے جا رہی ہے جس کا نقصان پورے جمہوری نظام کو ہوگا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ انتخابات کرانے میں صرف 2 سال کا عرصہ بچا ہے۔ اس عرصہ میں ملک بھر میں مشین کی آزمائشی مشقیں کرنا ممکن نہیں ہے۔ مشین کی تیاری پر 150 ارب روپے درکار ہونگے مگر الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنی خطیر رقم کے خرچ کے باوجود انتخابات کی شفافیت کا معاملہ ہنوز موجود رہے گا۔
الیکشن میں شفافیت انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کی جانب سے شفاف انتخابات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی ایک تاریخ ہے، جب الیکشن کمیشن قائم ہوا تو یہ حکومت پاکستان کے ماتحت تھا۔ مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے اراکین کا تقررکرتی تھی۔ الیکشن کمیشن مالیاتی امور میں وزارت خزانہ کا محتاج تھا۔ جب 1964میں جنرل ایوب خان کو صدارتی انتخابات میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو اسلام آباد کی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی معاونت سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا۔
فاطمہ جناح بنیادی جمہوریت کے اراکین BD Membersکی حمایت کے باوجود شکست کھا گئیں۔ اخبارات کی فائلوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے جنرل ایوب خان کے حق میں نتائج کے حصول میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ہر شہرکی مقامی پولیس کی سی آئی ڈی برانچ اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار جنرل ایوب خان کی کامیابی کے لیے مسلسل مصروف رہے۔ جنرل ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے پریس ایڈوائزکے فراخدلانہ استعمال سے اخبارات میں انتخابی دھاندلی کی شکایتوں کو اشاعت سے روک دیا۔
1970میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے گی۔ ان رپورٹوں پر مرکزی حکومت نے یقین کیا اور ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد ہوئے مگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے نتائج قبول نہیں کیے جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ سے غائب ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کی وزارت قانون اور پارلیمانی امور کے ماتحت رہا۔ 1977 کے انتخابات کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد PNA نے سخت احتجاجی مہم چلائی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے انتخابات کا معاملہ بیوروکریسی، پولیس اور انٹیلی جنس افسروں کے سپرد کیا۔
وزیر اعظم بھٹو کے قریبی وزراء اور چاروں وزراء اعلیٰ اچانک بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ حکومتی دباؤ کے باوجود اخبارات میں امیدواروں کے اغواء کی خبریں شایع ہوئیں اور یہ تاثر عام ہوا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگئی۔ پی این اے نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ پی این اے کے کئی رہنماؤں نے بعد میں کہا کہ صرف چند نشستوں پر دھاندلی ہوئی مگر پھر 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے تاحیات اقتدار میں رہنے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔ اس ریفرنڈم میں ایک سوال رکھا گیا کہ کیا آپ اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششوں سے متفق ہیں؟ جنرل ضیاء الحق نے اس سوال پر کثرت رائے کا مطلب یہ نکالا کہ عوام جنرل ضیاء الحق کو مزید5سال کے لیے اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں، یہ ریفرنڈم مکمل فراڈ تھا۔ سندھ کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جہانداد خان نے اپنی کتاب میں ریفرنڈم کی غیر شفافیت کا خوب ذکر کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے جنرل حمید گل نے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو آئی جے آئی میں جمع کیا اور مہران بینک اسکینڈل کا انکشاف ہوا ۔ 1988 ، 1991، 1993، اور 1977 میں ہونے والے عام انتخابات میں طالع آزما قوتوں نے مثبت نتائج کے حصول کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو آئینی شکل دینے کے لیے ایک ریفرنڈم منعقد کرایا ۔ اس ریفرنڈم کے لیے سڑکوں پر پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے اور ہر شخص کو خواہ اس کا نام ووٹر لسٹ میں نہ ہو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب In the line of fire میں اس ریفرنڈم کی ساکھ کے بارے میں خود اعتراف کیا ہے۔ 2002 کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی نے کئی اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم کی جو انتخابی دھاندلی کی بدترین شکل تھی۔
بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2005 میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے ہوا۔ دونوں رہنماؤں نے پہلی دفعہ آزادانہ انتخابات کے لیے خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے ہوا۔ 2010 میں آئین میں 18 ویں ترمیم ہوئی اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کے لیے پیش رفت ہوئی۔ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے اراکین کے تقرر کا طریقہ کار وضح ہوا اور الیکشن کمیشن تاریخ میں پہلی دفعہ انتظامی اور مالیاتی طور پر خودمختار ہوگیا۔
الیکشن کمیشن نے 2018 کے انتخابات میں کلوز ڈورکیمروں اور RTS نظام کا تجربہ کیا۔ یہ دونوں تجربات ناکام ہوئے۔ نادرا کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیٹابیس سسٹم مکمل طور پر محفوظ رہا اور مسلسل ووٹروں کو ان کے پولنگ اسٹیشن کی نشاندہی کا فریضہ انجام دیتا ر ہا۔ یہ نظام کن قوتوں نے ناکارہ کیا وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء روزانہ شفاف انتخابات کے انعقاد کا وظیفہ تو پڑھتے ہیں مگر اس بارے میں خاموشی کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء پر انتخابی نتیجہ منسوخ کیا اور دوبارہ انتخابات ہوئے مگر پنجاب کی حکومت ان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کو تیار نہیں جنھوں نے ان افسروں کو اغواء کیا تھا۔
وفاقی حکومت آئینی ادارہ کی سفارشات کو ماننے کو تیار نہیں ہے ، اگر الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو نظرانداز قانون سازی کی گئی تو ایک آزاد اور خودمختار ادارہ کی سالمیت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ آزادانہ انتخاب کا معاملہ اس سے بہت دور چلا جائے گا۔ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کسی مشین کے انتخاب کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہے۔
عجیب سی صورتحال ہے کہ وفاقی وزراء کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو آزاد الیکشن کمیشن کی ضرورت نہیں۔ ایک وزیر کا دعویٰ ہے کہ حکومت خود الیکشن کراسکتی ہے ، اگر حکومت نے قانون میں تبدیلی کی تو الیکشن کمیشن ختم ہوجائے گا جس سے انارکی پیدا ہوگی۔ اس کا فائدہ عمران خان کو نہیں ہوگا۔