غزل
پیاس میں ہی تو کٹا عمر کا رستہ یارا
جیسے صحرا پس ِ صحرا پسِ صحرا ،یارا
کبھی جگنو ،کبھی تتلی، کبھی خوشبو کا سراغ
کبھی خوابوں ،کبھی وعدوں پہ بھروسہ یارا
بعد میرے کبھی آئے تو وفاؤں کا ثبوت
اس کو دینا مرے شعروں کا حوالہ یارا
یہ جو ساحل پہ کھڑے ہیں یہ بھلا کیا جانیں
ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا یارا
میں نے اس عالم ِ اشیا میں یہی دیکھا ہے
روشنی کا تو کوئی روپ کا دھوکہ یارا
بے حسوں میں کسی معذور کا جینا کیا ہے
پا برہنہ کا ہے یہ کانٹوں پہ چلنا یارا
ہم زمانے میں رہے ماورا اس سے جاذبؔ
کوئی جھگڑا ،نہ تمنا ،نہ تقاضا یارا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
اس غم سے ہوا جاتا ہوں دوچار مسلسل
آتی ہے مرے حصے میں کیوں ہار مسلسل
شاید کہ وہ لکھا ہوا مل جائے کہیں پر
پڑھتا ہوں بڑے غور سے اخبار مسلسل
وہ بھی ہے لگاتار محبت سے گریزاں
اور میں بھی کئے جاتا ہوں اظہار مسلسل
جس کے لئے پھولوں کے بناتا ہوں میں گجرے
رستے میں بچھاتا ہے مرے خار مسلسل
بچھڑا ہوا جب بھی کوئی ملتا ہے کسی سے
آتی ہے تری یاد مجھے یار مسلسل
جس کے لئے رکھتا ہوں کھلا دل کا دریچہ
رستے میں اٹھاتا ہے وہ دیوار مسلسل
پھولوں کا خیال آتا ہے جب ذہن میں میرے
چھڑتے ہیں تری یاد کے پھر تار مسلسل
شہزادؔ مجھے دکھ ہے تو اس بات کا دکھ ہے
دیتا ہے مجھے زخم مرا یار مسلسل
(شہزاد مغل عجمی۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
سوزِدل،چشمِ نم اور ہم
زندگانی کے غم اور ہم
جی رہے ہیں اسی آس پر
ان کی نظرِکرم اور ہم
عشق میں اور کچھ بھی نہیں
ہے ستم در ستم اور ہم
دوستی نام کی رہ گئی
جھوٹے وعدے،بھرم اور ہم
تیری دہلیز تک آگئے
لڑکھڑاتے قدم اور ہم
کشمکش میں ہے نبضِ حیات
گھٹ رہا ہے یہ دَم،اور ہم
عمر ساری اسی میں کٹی
زیست کے پیچ و خم اور ہم
عشق کی راہ پر گامزن
تیرے غم کم سے کم اور ہم
ہیں عزادار کب سے امینؔ
رقصِ شامِ الم اور ہم
(محمد امین صادق۔ کوہستان)
۔۔۔
غزل
ستاروں سے بھرا اک آسماں ڈھونڈے گی یہ دنیا
مرا کردار میری داستاں ڈھونڈے گی یہ دنیا
ہمیں حسبِ ضرورت لوگ اب تک یاد کرتے ہیں
نہ ہم ہوں گے تو پھر ہم کو کہاں ڈھونڈے گی یہ دنیا
سہولت کون دیتا ہے کسی کاگھر نہ ہونے پر
کہاں میرے لیے کوئی مکاں ڈھونڈے گی یہ دنیا
گواہی دینے والے بک چکے ہیں سارے کے سارے
کہاں کوئی مرے حق میں بیاں ڈھونڈے گی یہ دنیا
بہت منہگا پڑا ہم کو زمانے سے وفا کرنا
مر ے جیسا کہاں پھر مہرباں ڈھونڈے گی یہ دنیا
بہت انمول ہوتے ہیں ہمارے لفظ اے ساگرؔ
جنھیں وہم و گماں کے درمیاں ڈھونڈے گی یہ دنیا
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
اس محبت کے طلسمات پہ دکھ ہوتا ہے
بات کرتی ہوں تو ہر بات پہ دکھ ہوتا ہے
میں تمناؤں کی تشریح نہیں کر پاتی
اپنے لکھے ہوئے جذبات پہ دکھ ہوتا ہے
متصل ہو گئے اک دوسرے سے ہجر و وصال
مجھ کو اِس صورتِ حالات پہ دکھ ہوتا ہے
بعض اوقات میں مصروف بھی ہو جاتی ہوں
سو مجھے ا س کی شکایات پہ دکھ ہوتا ہے
شہر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتے یہ
اِس لئے مجھ کو مضافات پہ دکھ ہوتا ہے
میری آنکھوں کو پڑھے غور سے وہ تند مزاج
مجھ کو زریابؔ سوالات پہ دکھ ہوتا ہے
(ہاجرہ نور زریاب، اکولہ، مہاراشٹر۔ہندوستان)
۔۔۔
غزل
یہ کون ذات کے پتھر سے دل لگی ہوئی ہے
کہ روح جسم پر اک بوجھ سی بنی ہوئی ہے
عجیب حبس کا موسم ہے میں درختوں سے
یہ پوچھتا ہوں کہ اتنی گھٹن کبھی ہوئی ہے؟
کسی کی آنکھوں کا صدقہ اتارنا ہے مجھے
کہ آج شام کی سرخی بجھی بجھی ہوئی ہے
کہاں تلک میں دریچوں سے سر کو ٹکراتا
غزل کہی ہے تو وحشت میں کچھ کمی ہوئی ہے
درونِ قلب خنک پانیوں کے چشمے ہیں
اور آنکھ ہے کہ جوالا مکھی بنی ہوئی ہے
اک اسم پڑھ کے مجھے تو بچا لیا اس نے
پھر اس کے بعد جو حالت فقیر کی ہوئی ہے
(ذیشان مرتضیٰ۔ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
غم زدہ آنکھ میں حیرانی اٹھا لایا ہوں
دوڑتے بھاگتے ویرانی اٹھا لایا ہوں
تیرے چہرے پہ بڑھاپے کی شکن آنے تک
اپنے حصے کی بھی تابانی اٹھا لایا ہوں
خشک ہو جائے نہ یہ عشق کا پانی مجھ میں
بہتے دریا کی فراوانی اٹھا لایا ہوں
خیر سے دشت کی دنیا سے نکل کر صاحب
اپنے سر بے سروسامانی اٹھا لایاہوں
آج ڈوبا ہوں تو ا حساسِ محبت میں رضاؔ
عمر میں ڈھلتی پشیمانی اٹھا لایا ہوں
(حسن رضا۔ سعودی عرب)
۔۔۔
غزل
آنکھوں میں آنسوؤں کی روانی کی بات ہے
یہ پیار دردِ دل کی کہانی کی بات ہے
جب سانس سانس فرض ہے ورد ایک نام کا
اس میں بھی کوئی یاد دہانی کی بات ہے
ہر رت جواں ہے اس سے تو موسم ہر اک حسین
یہ جھوٹ ہے کہ پیار جوانی کی بات ہے
لوگوں نے سمجھی آپ کے ملبوس کی مہک
آنگن میں کھلتی رات کی رانی کی بات ہے
معلوم کیا ہو سلسلے کیا ہوں گے بعدِ مرگ
یہ زندگی تو قید ِ زمانی کی بات ہے
لفظوں سے پھوٹتی ہے جو خوشبو گلاب کی
یہ عنبرین حسن ِ معانی کی بات ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
رنگ و رعنائی چھین لیتا ہے
عشق زیبائی چھین لیتا ہے
چشمِ یعقوب کرچکی ثابت
ہجربینائی چھین لیتا ہے
گاؤں میں جھوٹ کے نہیں پاؤں
شہرسچائی چھین لیتا ہے
شدتِ درد میں دلاسہ ترا
دکھ کی گہرائی چھین لیتا ہے
سخت گیروں کے نرم ہاتھوں سے
رب مسیحائی چھین لیتا ہے
عجز ہردل پہ حکم راں ہے ربابؔ
زعم دانائی چھین لیتا ہے
(سیدہ ربابؔ عابدی۔ گجر خان)
۔۔۔
غزل
تجھے ملے ہیں ہتھیلی پر اپنی جاں لے کر
کہاں کو جائیں بتا عمرِ رائیگاں لے کر
صلہ وفا کا دیا اب تلک بھی آنکھوں سے
جھڑی برستی رہی بحرِ بیکراں لے کر
ترے ہی وعدوں پہ گھر بار اپنا چھوڑا ہے
رکھے گا ہم کو نیا ایک سائباں لے کر
چلا تھا سوچ کے کیا ناخدا سمندر میں
پرانی کشتی شکستہ وہ بادباں لے کر
اسی کے بل پہ کئے فیصلے غلط تم نے
کہاں پہ جاؤں بتا اب تری زباں لے کر
ملے نہ کچھ بھی سکوں جس سے صوفیہؔ مجھ کو
کروں گی کیا ترا اجڑا یہ گلستاں لے کر
(صوفیہ احمد۔برطانیہ)
۔۔۔
غزل
میں زندگی کی طبیعت سے خوب واقف ہوں
تبھی تو شعر کی ندرت سے خوب واقف ہوں
ترا مزاج محبت بھرا سہی لیکن
میں دوستوں کی حقیقت سے خوب واقف ہوں
میں سرد و گرم سے لا علم ہی سہی پھر بھی
اُس ایک شخص کی عادت سے خوب واقف ہوں
حصولِ عشق میں سر کو جھکا دیا ورنہ
میں اپنی ذات کی رفعت سے خوب واقف ہوں
تری جفا کو مقدر سمجھ کے چپ ہوں میں
وگرنہ حرفِ شکایت سے خوب واقف ہوں
یہ محض وقت گزاری کا شاخسانہ ہے
میں آج کل کی محبت سے خوب واقف ہوں
(منزہ سید۔ ساہیوال)
۔۔۔
غزل
سوزِ دروں، دردِ جگر، یا مرحبا! یا مرحبا!
کس کی نظرکا فیض ہے میں کیا تھا اورکیا ہو گیا
برگ و ثمر، غنچے، کلی، سب بول اُٹھّیں ''لا تَخَف''
اے عندلیبِ خوش گُلو وہ چھیڑ نغمۂ جاں فزا
اُٹھّے ہیں شَرق و غَرب سے پھر فتنہ ہائے نَو بہ نَو
اے کُشتۂ بے گانگی، تُو بھی ہو خود سے آشنا
نازل ہوئی ہیں مجھ پہ بھی روشن سخن کی آیتیں
میرے سرہانے جب سے ہے اقبال کی بانگِ درا
(راشد عباسی۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
یہ بد دعا نہیں کہ تمہیں بے وفا ملے
لیکن تمہیں تمہارے کیے کی سزا ملے
چپ چاپ سہہ رہے ہیں زمانے کے رنج و غم
ایسے میں چاہتے ہیں کہ ہم کو خدا ملے
اپنی تمام عمر یونہی کٹ گئی ہے دوست
اس چاہ کے بغیر کہ کچھ تو نیا ملے
ہر بار تجھ تک آتے ہوئے لوٹنا پڑا
اے کاش تیرے شہر کا رستہ کھلا ملے
ممکن نہیں ہے خود سے مرا رابطہ علی
کوشش یہی ہے جلد ہی کوئی پتہ ملے
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی