افغانوں پر کرم کیجیے
افغانستان کے عوام کی بڑی اکثریت نے نہ صرف طالبان اور ان کے مقاصد کی حمایت کی بلکہ ان کو خوش آمدید کہا۔
امریکا افغانستان میں 20 سالہ طویل جنگ میں شکست کھانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد جس طرح وہاں سے فرار ہوا ہے، اس نے خود امریکا کو بڑی بری پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔
فرار ہوتے وقت امریکی افواج نے وہاں اپنے جنگی سامان، فوجی گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں یہاں تک کہ جہازوں کو توڑ پھوڑکر چھوڑا ہے اس کی تفصیلات اب منظر عام پر آچکی ہیں، یہ بڑی عبرت ناک صورت حال ہے۔ امریکی مانیں یا نہ مانیں لیکن اس شکست نے اور خاص کر انداز شکست نے امریکا کی سپر پاور حیثیت کو متاثر کیا ہے اور اب اس کے تنزل کی ابتدا ہوگئی ہے۔
برطانیہ ایک زمانے میں دنیا کی سپرپاور تھا مگر دوسری جنگ عظیم نے اس کی حیثیت کو بگاڑ کر رکھ دیا مگر برطانوی حکومت اور عوام میں ایسا رکھ رکھاؤ تھا کہ برطانیہ جس کی عمل داری میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب اس میں طلوع نہیں ہوتا مگر انھوں نے اپنی شکست کو بڑے تدبر اور سیاسی بصیرت سے اس طرح تسلیم کیا کہ وہ آج بھی دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے ، مگر امریکا نے افغانستان سے فرار میں جس جلد بازی اور افراتفری کا مظاہرہ کیا اس نے امریکی قوت و اقتدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔
اب امریکن افغانستان سے نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوں گے کہ اس جنجال سے نجات ملی ، مگر اب وہ افغانستان اور مسلم دنیا کو تنگ کرنے سے باز نہیں آئے ہیں چنانچہ انھوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ طالبان افغانستان میں حکومت بنانے، سارے افغان، عناصر کی حمایت حاصل کرنے اور ماضی کے تجربات سے حاصل کردہ بصیرت کے نتیجے میں جس میانہ روی کو اختیار کررہے ہیں، اس میں کسی نہ کسی طور پر رخنہ ڈال دیا جائے چنانچہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے میں وہ خود بھی تاخیر کر رہے ہیں اور دوسرے ممالک پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کون ان کو تسلیم کرتا ہے اور جو تسلیم کرلے اس کو بھی طالبان کا حمایتی قرار دے کر تنگ کیا جائے۔
امریکا ابھی تو سپرپاور ہی گردانا جاتا ہے اس لیے دوسرے ممالک خصوصاً افغانستان کے پڑوسی اس کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود امریکی خوف سے اسے تسلیم کرنے میں قصداً تاخیر کر رہے ہیں۔
امریکا اب کھلم کھلا افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے طالبان کو مشتعل کرنا چاہتا ہے مگر اسے کوئی موقعہ حاصل نہیں ہو رہا۔ البتہ عورتوں کی آزادی اس کے لیے ایک آسان ٹارگٹ ہے۔
طالبان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عورتوں کی مادر پدر آزاد صورت حال کے حامی ہوں گے ممکن نہیں اور اسی صورت حال کو نشانہ بنا کر عورت کے حقوق کے نام پر افغانستان کی طالبان حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ اس معاملے میں بھی طالبان واضح کرچکے ہیں کہ خواتین کو اسلامی اصولوں اور افغان روایات کے مطابق آزادی حاصل ہوگی اس سلسلے کا بین ثبوت خود طالبان نے پیش کردیا ہے۔
افغانستان سے خواتین کی فٹ بال ٹیم پاکستان پہنچی ہے اور وہ یہاں میچ کھیلے گی مگر ''ستر و حجاب کی پابندی'' کے ساتھ اور یہی پابندی امریکا کی پریشانی کا باعث ہے وہ عورت کو جتنی اور جیسی آزادی دلانا چاہتے ہیں وہ یہ نہیں ہے۔ انھیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ جس منزل تک رسائی کے وہ آرزومند ہیں وہ فوراً حاصل نہیں ہوسکتی، اس کے لیے انتظار کرنا ہوگا اور طالبان کے نقطہ نظر سے افغان معاشرہ جب تنزل کی اس منزل پر پہنچ جائے گا تو وہ ثمرات خود بخود حاصل ہوجائیں گے جو امریکا چاہتا ہے۔
اس سلسلے میں انھیں برطانیہ سے سبق سیکھنا چاہیے اور صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔ برطانیہ نے بھی تو آخر برصغیر بلکہ جہاں جہاں وہ قابض تھے ان کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے صدیاں گزاری ہیں اور وہ سارے آزاد کردہ غلام آج بھی برطانیہ کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔
امریکا اب براہ راست مداخلت کے لائق نہیں رہا ہے اس لیے اب وہ اپنے پالتو افراد و عناصر سے جنھیں بڑے مہذب انداز میں سہولت کار کہا جاتا ہے ، کام لے رہا ہے۔ اشرف غنی نے اپنے دور اقتدار میں ناصر احمد اندیشہ کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر جنیوا میں افغانستان کا سفیر مقررکیا تھا۔
اشرف غنی کے فرار کے بعد وہ ہنوز اپنے عہدے پر قائم ہیں اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کی جانب سے انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کریں۔ ان کے عہدے کا تقاضا ہے کہ وہ ''حکومت وقت'' کی مرضی اور منشا کے مطابق اس کی پالیسیوں کا دفاع کریں، مگر وہ جنیوا میں بیٹھ کر اپنی ہی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ امریکا کے لیے سہولت کاری ہے لیکن احمقانہ سہولت کاری۔ اس سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ ہی ہر موقع پر کیوں لگایا جاتا ہے کیا مغرب کے لیے یہ معاشروں کو اپنے مطابق اور اپنی غلامی میں رنگ لینے کا بڑا معتبر راستہ ہے اس لیے وہ طالبان کے لیے مصیبت عورتوں کے حقوق کے مطالبے کے لیے کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔
ناصر احمد اندیشہ امریکی سہولت کاری میں مبتلا ہیں، وہ واحد سہولت کار ہیں۔ پچھلے دنوں جب امریکی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رات کی تاریکی میں فرار اختیار کرگئے تو ان کے سہولت کار جو افغانستان میں امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں مددگار تھے ، بے یار و مددگار ہوگئے۔ کابل کے ہوائی اڈے پر ان لوگوں نے یلغار کردی اور افغانستان سے فرار کے لیے ہوائی جہازوں سے لٹک لٹک کر جان دے دی۔ ایک اندازے کے مطابق ان سہولت کاروں کی تعداد پچاس ہزار سے کم نہیں تھی۔
ذرا اندازہ کیجیے کہ جس قوم میں اس تعداد میں ایک غیر ملکی طاقت کے سہولت کار موجود ہوں اس قوم کو غلامی سے نجات ملنا کتنا دشوار ہوتا مگر ہوا یہ کہ ان سہولت کاروں کی موجودگی کے باوجود طالبان تمام ماہرین کے اندازوں کے برخلاف افغانستان پر قابض ہوگئے اور کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ سبب یہ تھا کہ یہ پچاس ہزار اپنی تمام جدوجہد کے باوجود غیر موثر رہے۔
افغانستان کے مجموعی مزاج نے ان سہولت کاروں کی کوششوں کو بارآور نہیں ہونے دیا اور افغانستان کے عوام کی بڑی اکثریت نے نہ صرف طالبان اور ان کے مقاصد کی حمایت کی بلکہ ان کو خوش آمدید کہا۔
اور یوں ثابت ہو گیا کہ افغان عوام کیا چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی بھی وہی ہے جو طالبان کی ہے۔ اس لیے کسی ملک یا طاقت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ افغانیوں کے مقاصد اور تمناؤں اور آرزوؤں کو ان کے ملک میں بارآور ہونے سے روکنے کی کوشش کرے۔