سندھ میں اساتذہ کا تقرر اور شفافیت کی پامالی
اساتذہ کا تقرر انٹرویو کے بغیر نہیں ہونا چاہیے اور انٹرویو کا معاملہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے سپرد ہونا چاہیے۔
سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی خالی نشستوں پر تقرر کے عمل Process کا آغاز ہوگیا۔ سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کا کہنا ہے کہ 40 ہزار سے زائد اساتذہ کا تقرر کیا جائے گا۔ وزیر تعلیم کا دعویٰ ہے کہ اس دفعہ اساتذہ کی تقرریاں مکمل میرٹ پر ہوں گی۔
انھوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے اپیل کی ہے کہ وہ اساتذہ کے تقرر اور تبادلوں کے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔ بقول سردار صاحب ہر استاد شہر میں خدمات انجام دینا چاہتا ہے۔ حکومت سندھ نے اساتذہ کے تقرر کو شفاف رکھنے کے لیے ایک فارمولا دریافت کیا ہے۔
اس فارمولہ کے تحت سندھ کے ہر ضلع میں ان تقرریوں کے لیے آئی بی اے سکھر نے ایک ٹیسٹ تیار کیا ہے اور گزشتہ ہفتہ امیدواروں نے اپنے اپنے اضلاع میں یہ ٹیسٹ دیا۔ یہ ٹیسٹ کمپیوٹر پر محفوظ ڈیٹا بیس Database کے ذریعہ تیار کیا گیا اور کمپیوٹر میں اس ٹیسٹ کے نمبر مرتب کرے گا۔
روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر صفدر رضوی کی تحقیق کے مطابق آئی بی اے سکھر کی انتظامیہ کی تیار کردہ میرٹ لسٹ کی ترتیب سے تقرر نامے جاری ہونگے اور کوئی انٹرویو نہیں ہوگا۔ تعلیم کے مضمون کی تدریس اور تحقیق میں زندگی گزارنے والے اساتذہ کی متفقہ رائے ہے کہ استاد کے تقرر کا معاملہ خاصا احساس ہوتا ہے۔
اس بناء پر انٹری ٹیسٹ کے بعد انٹرویو لازمی ہوتا ہے ، جو مرد اور عورت مطلوبہ قابلیت رکھتے ہوں اور وہ میرٹ لسٹ میں بھی شامل ہوں ان کا انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہونا اس بناء پر لازمی ہے کہ وہ ابھی زبان طرزِ عمل کی بنیاد پر استاد کے منصب پر فائز ہونے کے لائق ہیں ، اگر وہ کمزور شخصیت کے حامل ہیں اور ابلاغ کی صلاحیت نہیں رکھتے پھر وہ اپنے طرزِ عمل میں شائستہ رویہ کے حامل نہیں ہیں تو ایسا فرد استاد کے عہدے پر فائز ہوگا تو تعلیم کا معیار متاثر ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا چوتھا دور 2008میں شروع ہوا۔ پیر مظہر الحق جو پرانے سیاسی کارکن ہیں اس عہدہ پر فائز ہوئے۔ اس دور میں ہزاروں افراد کو بغیر ٹیسٹ اور بغیر انٹرویو کے استاد کی حیثیت سے بھرتی کیا گیا۔ سندھ کے شعبہ تعلیم کے لیے مالیاتی گرانٹ دینے والے عالمی بینک کے ماہرین نے اساتذہ کے تقرر کے لیے ایک ضابطہ کار تیار کیا تھا۔ یہ بھرتیاں ان ہی ضابطہ کار کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ ورلڈ بینک نے اس قانون شکنی کا سخت نوٹس لیا اور ایک وقت آیا کہ ورلڈ بینک نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ حکومت سندھ کے '' ان داتا '' کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
ان ہزاروں افراد کو جن کی ملازمت کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ برطرفی کے پروانے تھما دیے ۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس تقرر کے لیے 3 سے 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تو وہ تھے جن کے سرپرستوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کرکے اپنے پیاروں کے لیے تقرر نامے خریدے۔
اب پورے سندھ میں دھرنے شروع ہوئے۔ کراچی پریس کلب کے کئی ہزار لوگ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ان افراد نے بھوک ہڑتال کے کیمپ لگائے جب یہ افراد کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی یا وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کرتے تو پولیس والے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پانی کی خوفناک تیز دھار سے ان افراد کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کو اپنے اسکرین پر جگہ بھرنے کے شاندار مواقع ملتے اور بار بار اساتذہ کے احتجاج کو لائیو دکھایا جاتا۔ عورتوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کے شیل اور پانی کی تیز دھار گرنے کے افسوس ناک مناظر ٹی وی چینلز پر نظر آتے اور دنیا بھر کے اخبارات میں شایع ہوتے۔ ان میں سے کچھ افراد قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر بحال ہوئے اور باقی شاید کسی اور محکمہ کے تقررنامے خریدنے کی جستجو میں لگ گئے ۔
سندھ کی تعلیم کی وزارت میں شفافیت کا بحران خاصا شدید ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کا آج کل خوب چرچا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے طلبہ کے لیے ہزاروں ڈیسکیں خریدنے اور فی ڈیسک 29 ہزار روپے ادا کیے گئے جب کہ کراچی کی مارکیٹ میں اس ڈیسک کی قیمت 7 ہزار روپے ہے اور حیدرآباد اور سکھر میں اس کی قیمت اور کم ہوسکتی ہے۔ حکومت سندھ کے اس رپورٹ میں لگائے گئے الزام کی تردید کی زحمت برداشت نہیں کی۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب اس معاملہ کی تحقیقات کررہا ہے۔
سعید غنی نے اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2008 کے بعد پہلی دفعہ اتنی بڑی خریداری کا ٹینڈر دیا گیا تھا۔ اس ٹینڈر کے لیے مروجہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی اور معتبر افراد کو ٹینڈر کی منظوری کے اجلاسوں میں شریک کیا گیا ۔
سندھ کے محکمہ تعلیم میں قانون کی پامالی معمول کا حصہ ہے۔ جونیئر افراد کو اہم اسامیوں پر تعینات کیا جاتا ہے ۔ میرٹ پر عمل نہیں ہوتا اور مسلسل کوٹہ سسٹم کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ سندھ کے محکمہ تعلیم میں ہر کام کے لیے مخصوص رقم کے ریٹ مقرر ہیں۔ جو اساتذہ حج اور عمرہ کے لیے جانا چاہتے ہیں انھیں NOC کے لیے نذرانہ دینا لازمی ہوتا ہے۔ ریٹائر ہونے والے اساتذہ کو ہر کاغذ پر مجاز افسر سے دستخط کرانے کے لیے رقم دینی پڑتی ہے۔ عمومی طور پر ریٹائر ہونے والے اساتذہ کسی فرد سے پیکیج سے ڈیل نہ کریں تو انھیں برسوں سیکریٹریٹ کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
اس دور میں ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوگی۔ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ارکان و نااہل قرار دیا۔ ہر محکمہ میں تقرریوں کا شفاف فورم سندھ پبلک سروس کمیشن ہونا چاہیے۔ حکومت کو کمیشن کو دوبارہ ترتیب دینا چاہیے اور ایسے ماہرین کو کمیشن کا رکن بنانا چاہیے جو اچھی ساکھ کے مالک ہوں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اندرونِ سندھ سے بھی اور شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے با ضمیر افراد موجود ہیں جو میرٹ پر اور قانون کے مطابق فیصلوں کی شہرت رکھتے ہیں۔
پورے ملک میں 2کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ انسانی حقوق کمیشنHRCP سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خضر حبیب ایک عشرہ سے سندھ میں تعلیم کے موضوع پر تحقیق کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں 35 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ اساتذہ کا تقرر انٹرویو کے بغیر نہیں ہونا چاہیے اور انٹرویو کا معاملہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے سپرد ہونا چاہیے، اگر سندھ کا محکمہ تعلیم جدید بنیادوں پر منظم کیا جائے اور دستیاب فنڈز کو شفافیت کے اصولوں کے تحت استعمال کیا جائے، جو سرکاری اسکول ماڈل اسکول بن سکتے ہیں اور اسکول نہ جانے والے بچوں اور ان کے والدین کو ترغیب دینے کی اسکیمیں شروع کی جاسکتی ہیں اور یہ تعداد کم ہوسکتی ہے۔