مساجد اور امور مملکت

حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری سانس مبارک تک مسجد کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔


حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری سانس مبارک تک مسجد کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ فوٹو : فائل

اسلام کو اس لیے مکمل ضابطۂ حیات کہا گیا ہے کہ اس میں ایک انسان کو اپنی زندگی میں پیش آنے والے تمام نشیب و فراز اور مسائل و معاملات کا مکمل حل موجود ہے۔

حقوق اﷲ ہوں یا حقوق العباد، عبادات ہوں یا معاملات زندگی، ذکر خدا و رسول ﷺ ہو یا فکر اہل خانہ، جلوت ہو یا خلوت، تعمیر سیرت کردار ہو یا اصلاح امور خانہ، معاشی و سیاسی معاملات ہوں یا سماجی و معاشرتی طرز عمل، آداب و ضوابط ِ لذتِ کام و دہن ہوں یا معاملات تطہیر و نجاست، ہمسائیوں کے حقوق کا مسئلہ ہو یا رفقائے کار کے ساتھ حُسن سلوک، اقرباء سے لین دین کا معاملہ ہو یا مخالفین کے ساتھ طرز معاشرت، غرض رسول اﷲ ﷺ کا لایا ہوا سنہری ضابطۂ زندگی اپنے اندر ہر فکر کے پیچ و خم کو سُلجھانے کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہے۔

اسلام نے عبادات کا بھی ایک طریقہ کار وضع کر رکھا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ اوقات کار مقرر کر رکھے ہیں۔ خالق و مالک کائنات کی ہر عبادت و ریاضت میں زبردست حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے۔ اصلاح احوال دنیوی اور نجات اخروی کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی حکمتیں موجود ہیں، چشم انسانی جن کا مکمل طور پر مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور بالخصوص نماز باجماعت کے بارے میں سطح بین عوام الناس اسے محض ایک کارِ ثواب ہی سمجھتے ہوں گے، مگر اس کی جامعیت کو فقط اہل دانش ہی محسوس کرسکتے ہیں۔

نماز، گھر میں مجرد بھی ادا کی جاسکتی ہے اور اگر حکیم و خبیر رب کائنات چاہتے تو جو ثواب وارکعو مع الراکعین ( رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ) میں رکھا ہوا ہے اس کا تعین الگ نماز ادا کرنے پر بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر اﷲ رب العزت نے وجود مسجد قائم کرکے اہل اسلام و ایمان میں اجتماعیت کا جو عظیم الشان و بے مثال اہتمام اپنے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے توسل سے کرکے اتحاد و یگانگت کی ایسی مثال قائم کر دی جس کی فیوض و برکات تابانی شمس و قمر سے بھی بڑھ کر ہیں۔ مستشرقین بھی اس حقیقت کو بالٓاخر تسلیم کر چکے ہیں کہ اجتماعی رکوع و سجود کے لیے مسلمانوں کے پاس مسجد ایک ایسی بابرکت جگہ ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔

محسن انسانیت حضور سیّد المرسلین ﷺ اور آپؐ کے محترم رفقائے کار نے جب معرکہ ہائے خیر و شر کے بعد سرزمین حجاز کو زیر نگیں کرلیا تو آپؐ نے مدینہ کی شہری ریاست کے قیام کے اعلان کے وقت سب سے پہلا کام مسجد کی بنیاد رکھنے کا کیا۔ اقلیم فراست و تدبّر کے دائمی تاج دار حضور سرور کائنات ﷺ کی ذات والا صفات نے یہ محسوس کیا کہ مسجد ہی ایک ایسی جگہ ہوسکتی ہے جہاں رکوع و سجود کے ساتھ امور مملکت بھی انجام دیے جاسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں جب خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہونے لگی تو اس کے ساتھ ہی مسجد کی اہمیت و عظمت بھی بہ تدریج کم ہونے لگی۔

مسجد کو صرف پنچ وقتہ نماز اور جمعہ کے اجتماع کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ حکومتی امور کی انجام دہی کے لیے قصر شاہی کا انتخاب کیا گیا، جس سے کئی قباحتوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ دین و سیاست کو یک سر الگ تصور کیا جانے لگا اور وہی چنگیزیت کا بھیانک تصور جنم لینے لگا اور یہ خیال واضح ہونے لگا کہ مسجد محض زہاد و اتقیاء کے لیے بنائی گئی ہے۔

جن کا حکومتی امور سے کیا کام ؟ حالاں کہ رسول اﷲ ﷺ کی ذات گرامی نے مسجد کو مجرد عبادات کے لیے استعمال نہیں فرمایا، بل کہ اسلامی حکومت (جو روم و شام اور فارس تک پھیلی ہوئی تھی) کے گورنرز اور حُکام کو احکامات مسجد میں بیٹھ کر دیے جاتے، مختلف ریاستوں کے وفود حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں تبادلہ خیال کے لیے حاضر ہوتے تو آپؐ مسجد نبوی میں ہی تشریف فرما ہوتے، وہیں اُن کی تواضع ہوتی، وہیں بیٹھ کر صحابہ کرامؓ کے باہمی نزاعات کے فیصلے فرمائے جاتے۔ وہیں بیٹھ کر اہل مدینہ کو شرعی و دینوی احکامات سے باخبر رکھا جاتا۔

حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری سانس مبارک تک مسجد کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ کیوں کہ عدیم المثال فراست نبویؐ دیکھ رہی تھی کہ مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں محمود و ایاز کا فرق مٹ جاتا ہے، مسجد ہی وہ متبرک جگہ ہے جہاں بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہو جاتے ہیں، مسجد ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں بے قرار دلوں کو ذکر الٰہی سے دولت تسکین و طمانیت عطا ہوتی ہے، مسجد ہی وہ مقدس و محترم جگہ ہے جہاں رعونت و خشونت شہنشاہ وقت بھک سے اُڑ جاتی ہے۔

مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں بے مثال اُخوّت کی جہانگیری اور محبّت کی فراوانی کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں اہل ایمان کے قلوب و اذہان عطر محبّت کی شمیم انگیزیوں سے معطر ہوتے ہیں، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں اﷲ رب العزت کے حضور آفات و بلیات سے پناہ مانگنے کے لیے دست دعا بلند کیا جاتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں رات کی تنہائیوں میں ارتفاع روحانیت کی منازل طے کی جاتی ہیں، مسجد ہی وہ جگہ ہے۔

جہاں رات کے پچھلے پہر افلاک سے نالوں کا جواب آتا ہے، اور اﷲ کی رحمت عاصیوں کو ڈھانپ لیتی ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں رحمت رب لایزال مغفرت عاصیاں کا بہانہ تلاش کرتی ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں علاج غم کے لیے دلوں کو درد کی دولت نصیب ہوتی ہے جو حقیقت میں اثاثہ آخرت ہوتی ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں عجز و انکسار کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں غرور و تکبّر اور انانیت کا بُت پاش پاش ہو جاتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں تلاوت قرآن پاک سے دلوں کو گداز اور آنکھوں کو سوز کی نمی عطا ہوتی ہے۔

مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں روح تحریم و تقدیس کو مہمیز عطا ہوتی ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں ذات خدا تعالی مومن کے ساتھ قربت کی انتہاؤں پر ہوتی ہے۔ مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں طاغوتی فکر خیالات کو پا بہ زنجیر کر دیا جاتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں بہار خلد بریں کے دریچے وا کر دیے جاتے ہیں، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں کفر و شرک کی گھنگور گھٹاؤں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے اور اس کی جگہ توحید ربانی کی انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔

مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں خلوص نیّت سے رحمت کے چند پھول طلب کیے جائیں تو اُن کی جگہ گلستان مغفرت ہی عطا کردیا جاتا ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں تفکرات مصائب و آلام کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہے اور اس کی جگہ فکر دو عالم سے آزادی نصیب ہو جاتی ہے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں ختم المرسلین ﷺ اپنی زیارت سے مشرف فرمایا کرتے تھے، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں شاہ کار رسالتؐ سیّدنا عمر فاروقؓ کو جام شہادت نوش کرنا نصیب ہوا، مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں سیّدنا حیدر کرار علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ رتبہ شہادت پر سرفراز ہوئے اور مسجد ہی کا وہ حصہ بھی ہے جہاں وجہ تخلیق کائنات امام الانبیاء ﷺ محو استراحت ہیں۔ اس سے مسجد کی اہمیت و عظمت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں