غزل
ذرا سا ہٹ کر مرا بیاں ہے تو کیا غلط ہے
یقین کا رہنما گماں ہے تو کیا غلط ہے
سدا جو تخلیق کرتا آیا ہے کہکشائیں
اب اُس کے قدموں میں کہکشاں ہے تو کیا غلط ہے
جسے خرد سے نہ جہدِ پیہم سے کچھ شغف ہے
سو اُس کی اُمیّد آسماں ہے تو کیا غلط ہے
جہاں ہمارے خلاف سب جال بُن رہے ہیں
وہاں ہمارا خبر رساں ہے تو کیا غلط ہے
گماں کو سمجھا گیا ہے اکثر یقیں پہ حاوی
زمین بھی زیرِآسماں ہے تو کیا غلط ہے
میں خود ہرے اور گہرے زخموں سے کھیلتا ہوں
سو ہجر پر عشق نغمہ خواں ہے تو کیا غلط ہے
وہاں فلک نیلگوں ہے اور لوگ خوبرو ہیں
یہاں اگر، سُرخ، آسماں ہے! تو کیا غلط ہے؟
یہ عشق تو روز اک نیا زخم دے رہا ہے
یہ شاعری مجھ پہ مہرباں ہے تو کیا غلط ہے
(راغب تحسین۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
عہدِ سفّاک ترے ڈوبتے کردار پہ خاک
تیری کشتی، ترے دریا، ترے پتوار پہ خاک
بنتِ حوّا کو نہ دے پایا تو عزّت کی ردا
ابنِ آدم، تیرے شملہ و دستار پہ خاک
آسماں چیرتی مظلوم کی آہوں کی قسم
عظمتِ خلق پہ لکھے ہوئے اشعار پہ خاک
کوئی مانگے میں خیرات میں دے دوں اس کو
میرے قدموں میں پڑی دنیائے بیکار پہ خاک
آنکھ خاموش مگر روح رہے گریہ کناں
ظلم سہتے ہوئے خاموش عزا دار پہ خاک
حق پرستی کے لیے کٹتے ہوئے سر کو سلام
سر جھکاتے ہوئے دنیا کے طرف دار پہ خاک
بھر کے کاسہ وہ اگر چھین لے عزّت تیری
پھر تو اس بھیک پہ تف، اور کفِ زردار پہ خاک
کون صحرا سے چلا جاتا ہے طوفاں کی طرح
ڈال جاتا ہے اٹھا کر درودیوار پہ خاک
جانے کیا کیا یہاں کس مول بکا ہے فوزیؔ
جنسِ بے مایہ پہ تف، گرمیٔ بازار پہ خاک
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست
اپنی جگہ پہ دونوں تھے ہم انتہا پرست
اُس کے ستم کے سامنے جیسے مہر بہ لب
کیسے عجب طریقے کا میں ہوں جفا پرست
ساحل پہ جا کے اُترے ہیں دونوں ہی ایک ساتھ
اِک جو خدا پرست تھا اِک ناخدا پرست
سوچوں گا میری زندگی کچھ کام آگئی
کہہ دے وہ میرے بارے میں اتنا ، وفا پرست
رنج و الم یہ باعثِ تسکین کیوں نہ ہوں
شاید مرا مزاج بھی ہے ابتلا پرست
میں چاہتا ہوں یک بہ یک سب مرحلے ہوں طے
لیکن مرا نگار ہے کچھ ارتقا پرست
ساجدؔ فقیری پیشے کو اب اختیار کر
کہتے ہیں لوگ یار ہے تیرا گدا پرست
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)
۔۔۔
غزل
جانا اتنا نہیں آسان ،کہاں جاتا ہے
دوستا باندھ کے پیمان کہاں جاتا ہے
میں نے اے خوابِ جنوں تجھ کو پکارا ہے ابھی
ادھ کھلی آنکھ کے مہمان کہاں جاتا ہے
دشت زادوں نے نئے نقش بنا ڈالے ہیں
ورنہ مجھ سا تہی دامان کہاں جاتا ہے
مجھ کو اس شہرِ ستم گر میں اکیلا کرکے
اے مرے دل کے نگہبان کہاں جاتا ہے
روٹھے بچے سے کہا ماں نے یہ روتے روتے
اس اندھیرے میں مری جان کہاں جاتا ہے
کس سے انعام کا لالچ ہے تجھے اردو فروش
حرف کو بیچنے نادان کہاں جاتا ہے
تجھ کو احمد ؔکسی اپنے کی ضرورت ہے ابھی
درد سے ہو کے پریشان کہاں جاتا ہے
(احمد حجازی ۔لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
داستاں میری زندگانی کی
ہے یہ تفسیر رائیگانی کی
میں بنا دشت ایک دریا سے
مجھ سے بنتی نہیں تھی پانی کی
ایک انسان ہو گیا ملبہ
داد بنتی ہے بے دھیانی کی
وہ ہَوا پر برس رہی ہے کہ، کیوں؟
اُس کی زلفوں سے چھیڑخانی کی
مجھ کو ایسے تری ضرورت ہے
ایک مچھلی کو جیسے پانی کی
زندگی کاٹنے میں کٹتی ہے
فصل بوئی ہوئی جوانی کی
ہجر کی رُت میں اپنے سینے پر
ہم نے زخموں کی باغبانی کی
اتنی جلدی نہ راکھ ہوتے ہم
تیری پھونکوں نے مہربانی کی
یہ محبت ہے وہ صفت جو اویسؔ
جاوادانی ہے عمرِ فانی کی
(اویس احمد ویسی۔ زیارت معصوم، ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
چڑھتے ہوئے سورج کا پرستار ہوا ہے
مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے
مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ
کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے
جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر
دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے
کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا
ہر بندہ ہی پھولوں کا طرفدار ہوا ہے
حق دار رعایت کا کسی طور نہیں وہ
جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے
سینچا ہے اسے خون ِجگر سے میں نے راحِلؔ
یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے
(علی راحِل ۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
دیکھ کتنے ثبات سے گزرے
غم بھری کائنات سے گزرے
وصل اپنا نصیب جب نہ ہوا
ہجر میں انبساط سے گزرے
ہر قدم دکھ ہی دکھ تھے رستے پر
ایسی راہِ حیات سے گزرے
دوست تب سارے ساتھ چھوڑ گئے
جب کہیں مشکلات سے گزرے
جو صداقت کو چھوڑ بیٹھے تھے
شہر وہ انحطاط سے گزرے
ہم رقیبوں کی مہربانی سے
بچ کے یاروں کی گھات سے گزرے
ہجر کی شب تو یوں لگا فرخؔ
ہم قیامت کی رات سے گزرے
(سید فرخ رضا ترمذی۔کبیروالا)
۔۔۔
غزل
کھرچ کر دل سے یادوں کو تری آخر مٹادوں گا
متاعِ جاں کو پل بھر میں تری خاطر لٹا دوں گا
تری خواہش کوسر آنکھوں پہ رکھوں گامرے ہمدم
لہو کا آخری قطرہ بھی اشکوں میں بہا دوں گا
محبت کی ہزیمت پر لبوں کو اپنے سی لوں گا
سبب رنج و الم کا میں زمانے سے چھپادوں گا
یہی بہترسمجھتاہوں کہ بس چپ سادھ کے بیٹھوں
وگرنہ بزمِ دنیا میں نیا طوفاں اٹھا دوں گا
سکوتِ شب سے بیزاری عیاں ہونے نہ دوں گا میں
بجھی شمع امیدوں کی تو دل اپنا جلادوں گا
مری نغمہ سرائی سے فضا بوجھل نہ ہو گر تو
تری محفل میں آکر میں غزل اپنی سنا دوں گا
گیا وہ بھول مجھ کو تو یہ اس کا ظرف تھا دائمؔ
تصور میں نہیں میرے کہ میں اس کوبھلادوں گا
(ندیم دائم ۔ہری پور)
۔۔۔
غزل
چھین لی سانس تلک مجھ سے، دیا کچھ بھی نہیں
کیا صنم میری وفاؤں کا صلہ کچھ بھی نہیں
کاش ہو جاتی خبر ملنے سے پہلے تجھ سے
عشق میں درد کے، آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں
تو محبت کے فقط دعوے ہی کر سکتا ہے
تیرے نزدیک مگر عشق وفا کچھ بھی نہیں
ہم نے اک سانحہ کہہ کر اسے بس ٹال دیا
سوچا اک دل ہی تو ٹوٹا ہے، ہوا کچھ بھی نہیں
دھڑکنیں آخری سانسوں میں مگن تھیں اپنی
جب خبر ہم کو ہوئی یہ کہ بچا کچھ بھی
دستِ محبوب کی اس دل کو ضرورت ہے حمیدؔ
اب سنبھلنے کے لیے دل کو، دعا کچھ بھی نہیں
(حمید اللہ خان حمید۔ ضلع سرگودھا، تحصیل کوٹ مومن)
۔۔۔
غزل
میری باتیں سن کے پر سب پنچھیوں کے جھڑ گئے
غم کی ارزانی سے پتے ٹہنیوں کے سڑ گئے
اس کی منزل اتنی مشکل تھی بتاؤں کیا تجھے
یاد آئی جب کبھی، پاؤں پہ چھالے پڑ گئے
میں ذرا سا ہی رکا تھا اک شجر کے سائے میں
دردکو محسوس کرکے برگ سارے جھڑ گئے
علم جن کے پاس تھا سو وہ سراپا عجز تھے
دور تھے منطق سے جو وہ اپنی ضد پر اڑ گئے
زہر میں کچھ اس قدر ڈوبے ہوئے الفاظ تھے
آئینہ دیکھا تو میرے ہونٹ نیلے پڑ گئے
اپنی ہی تہذیب کو یوںدفن ہوتا دیکھ کر
شرم کے مارے جہاں تھے ہم وہیں پر گڑ گئے
وہ گلے لگ کر ملا تو میں نے یہ دیکھا شہابؔ
خالی آنکھوں میں محبت کے نگینے جڑ گئے
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
یقیں کی بستی اجڑ گئی ہے
گماں کی ایسی ہوا چلی ہے
ہنسی میں تیری جو تازگی ہے
یہی حقیقت میں زندگی ہے
تمام خوشیاں ہیں جب میسر
تو کیوں اداسی گلے پڑی ہے
سنائی دے شور دھڑکنوں کا
چہار سو اتنی خامشی ہے
جوان بیٹے کی راہ تکتے
ضعیف بڑھیا بھی چل بسی ہے
شدید الجھن میں مبتلا ہوں
امید دامن چھڑا گئی ہے
بہار نازک سی انگلیوں سے
بدن چمن کا سجا رہی ہے
(زویا کنول۔ سیالکوٹ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی