دبیز اور ملائم پردہ
محض استثنائی صورتوں کو زیر بحث لا کر مشرق پر لعن طعن کے رویے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے 2018 میں مسلمان خواتین کو برقع پہننے کے سبب بینک میں ڈاکے ڈالنے والے ڈاکو اور لیٹر باکس سے تشبیہ دی تھی۔
یعنی ان کے خیال میں مکمل برقع پوش خواتین بینک میں ڈاکا ڈالنے والے ڈاکوؤں سے مشابہت رکھتی ہیں یا پھر ان کی ہیئت لیٹر باکس کی سی ہوتی ہے جو لب سڑک لگا ہوتا ہے۔ حالانکہ برطانیہ میں رہائش پذیر خواتین ایسا برقع مطلقاً استعمال نہیں کرتیں جیسا ہمارے یہاں بعض علاقوں میں اب بھی سر تا پا پردہ کی شکل میں پہنا، اوڑھا جاتا ہے۔
بورس جانسن نے ایسا ہی برقع ایشیائی ممالک میں دیکھا ہوگا کیونکہ برطانیہ میں تو اس کا چلن ممکن نہیں اور جو لوگ ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران اور دیگر مسلم ممالک سے وہاں گئے ہیں انھوں نے کٹر عقائد کے باوجود ایسا برقع استعمال کرنا ترک کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بورس جانسن وزیر اعظم بنے تو انھوں نے اپنے ان ریمارکس سے رجوع کرلیا اور اس استہزا آمیز رویے پر معذرت بھی کی۔
مگر اب برطانیہ کابینہ میں جو حالیہ تبدیلیاں کی گئی ہیں، ان میں کابینہ کی ایک رکن ناڈین ڈوریس کو بعض اہم قلم دان سپردکیے گئے ہیں جن میں وزارت ثقافت بھی شامل ہے۔ یہ وہی خاتون ہیں کہ جب بورس جانسن نے برقع کے بارے میں منفی ریمارکس دیے تھے تو ان خاتون نے بڑی شدو مد سے برقع ، نقاب اور حجاب کی ہر شکل پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس وقت تو ان کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرا تھا مگر اب وہ وزارت ثقافت کے منصب پر فائز ہیں اور اس لیے ثقافتی امور پر ان کا اظہار خیال بالکل متعلقہ بات ہے، اس پر کان ہی نہیں دھرا جائے گا پوری طرح اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ ناڈین ڈوریس اب خیر سے 64 سال کی جہاں دیدہ خاتون ہیں اور متعلقہ وزارت کے عہدے پر فائز ہیں انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران فرمایا کہ نقاب گھریلو تشدد کے باعث لگنے والے زخموں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مسلم معاشروں میں خواتین کو لباس کے انتخاب کی بھی اجازت نہیں بلکہ انھیں تو شادی کے سلسلے میں اپنے لیے بَر کے انتخاب کی بھی اجازت نہیں۔ اس برقع کی آج کے لبرل معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ کوئی بھی ترقی پسند ملک اسے برداشت نہیں کرے گا۔ انھوں نے جو کچھ کہا، ان کا منشا ہے اسے بے کم و کاست بیان کردیا ہے اور وہ اس پر عمل بھی چاہیں گی۔
لیکن ان کے مشاہدات ان کی ذہنی عصبیت پر مشتمل ہیں انھیں پتا ہی نہیں کہ مسلم معاشروں میں اب حجاب کے سلسلے میں عورت پرکوئی دباؤ نہیں آیا ، جو خواتین حجاب کرتی ہیں وہ ان کا اپنا انتخاب ہے۔ یہ بھی انھیں نہیں معلوم کہ مسلم معاشروں میں نکاح لڑکی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں، اگر گاؤں گوٹھوں میں اسلامی تعلیمات سے ناآشنا چند لوگ لڑکیوں کو شادی کے لیے پسند کے جوڑے کی تلاش سے محروم رکھتے ہوں تو خود برطانوی معاشرے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو برطانوی روشن خیالی پر عمل سے محروم ہیں۔
اس لیے محض استثنائی صورتوں کو زیر بحث لا کر مشرق پر لعن طعن کے رویے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ ناڈین ڈوریس صاحبہ برطانیہ کی وزیر ثقافت ہیں مگر وہ اپنے یہاں آباد مختلف گروہوں کے طریقہ حیات سے بے خبر ہیں ، جو برطانوی مزاج کے بالکل برخلاف ہے۔ برطانیہ کا مسلم معاشرہ جو اسلامی ممالک کے مسلم معاشرے سے بڑی حد تک مختلف ہے اس لیے وہ بلاوجہ خوف کھا رہی اور پریشان ہو رہی ہیں۔
مغربی معاشرے اور اس کی روشن خیالی کو نقاب و حجاب سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہاں لیٹر باکس والا حجاب سرے سے موجود نہیں۔ البتہ اس سے یہ ضرور اندازہ ہو جاتا ہے کہ اہل برطانیہ ہر تہذیبی اکائی کی انفرادیت کو تسلیم کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں اسے دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ ان اصولی باتوں سے قطع نظر اب اخباری اطلاعات کی روشنی میں یورپ کی روشن خیالی کا نظارہ بھی کرلیجیے۔
یورپی پارلیمان میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ بھر میں ہر ہفتہ پچاس خواتین گھریلو تشدد سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہ تعداد ہلاک ہونے والی خواتین کی ہے جو مرتی نہیں مگر مرنے کے قریب پہنچا دی جاتی ہیں ، ان کی تعداد الگ ہے۔ اب یہ یورپ کی یقینا خوبصورتی ہے کہ یورپی عورت اپنے اوپر کیے جانے والے تشدد کو چھپاتی نہیں اور اس نہ چھپانے کا نتیجہ ہے۔ یہ ہیں مشرق کے پسماندہ ممالک۔ اس سے کہیں زیادہ گھریلو تشدد کا شکار یورپ کے روشن خیال معاشرے کی عورت ہے۔
جہاں ہر ماہ دو سو عورتیں گھریلو تشدد کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں جب کہ وہاں قوانین کے تحت اس قسم کے تشدد پر شدید قدغن پہلے سے لاگو ہے۔ کیا فرمائیں گی ناڈین ڈوریس کہ یہ برقع پہننے والی عورتیں جب تشدد کو نہ چھپا پائیں تو یورپ کا لبرل معاشرہ انھیں اس تشدد کا شکار ہونے سے کیوں نہیں بچا پاتا۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔ یورپ کی عورت مکمل آزاد ہے وہ سالوں سے مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہے اور ہر اس سرگرمی میں حصہ لیتی ہے جس میں مرد حصہ لیتے ہیں مگر اسی رپورٹ میں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے بتایا گیا ہے کام کرنے والی خواتین میں سے 75 فیصد عورتوں کو ان کے کام کی جگہ پر یا آتے جاتے ہراساں ضرور کیا جاتا ہے۔
لیجیے اب یہ لبرل معاشرہ جہاں مادر پدر نوعیت کی آزادی میسر ہے جہاں مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد کا مہیا ہونا انتہائی آسان ہے بوائے اور گرل فرینڈ کے نام پر روشن خیالی کی برکات میسر ہیں تو پھر یہ کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اس کا خیال ہی کیوں آتا ہے۔ جب پیٹ بھرا ہوا ہو تو دو چار لقموں کی طرف توجہ دینا بدنیتی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔اس رپورٹ کی مصنفہ ڈیانا ریبا نے بتایا کہ یورپی یونین میں ہر تین میں سے ایک عورت کو ذہنی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں بسنے والی عورتوں میں سے نصف خواتین کو ضرور ہراساں کیا جاتا ہے۔
یہ ہے یورپ کی روشن خیالی کی اصل تصویر جسے ناڈین ڈوریس صاحبہ نہیں دیکھ پاتیں یا دیکھنے کے باوجود نظریں چرا لیتی ہیں کہ ان کے پاس اس بد چلنی کا کوئی جواز موجود نہیں۔ اگر مشرق کی عورت حجاب کے ذریعے اپنے آپ کو اس صورتحال سے بچا لیتی ہے یا بچا سکتی ہے تو یہ بات لبرل معاشرے کو کیوں ہضم نہیں ہو پا رہی؟
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یورپ میں اسمگل ہوکر آنے والی خواتین کی تعداد 95 فیصد ہے۔ یہ بھیڑ بکریاں اپنے اپنے معاشروں سے بہتر معیار زندگی کی تلاش کے لیے یورپ میں دھکیل دی جاتی ہیں اور یورپ ان کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ فخریہ کہتا ہے کہ ہم انھیں اپنے رنگ میں رنگ لیں گے۔ اس کے بعد یہ اسمگل شدہ عورتیں ہراسانی کا شکار بھی ہوتی ہیں اور جنسی ہوسناکی کا بھی۔ مگر اس پر حجاب نہیں آزاد خیالی اور لبرل ازم کا دبیز مگر ملائم پردہ پڑا ہوا ہے جو دیکھنے میں بڑا بھلا لگتا ہے۔