نیوزی لینڈ اورانگلینڈ کی بے وفائی ایک سبق

پاکستان کو اپنے وقار کیلئے مشکل جنگ لڑنا ہوگی۔


Abbas Raza September 26, 2021
پاکستان کو اپنے وقار کیلئے مشکل جنگ لڑنا ہوگی۔ فوٹو: فائل

مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملہ کے بعد پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں طویل اور صبر آزما مراحل طے کئے،امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیاں دیں،2015 میں زمبابوین ٹیم کی آمد بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔

ورلڈ الیون اور پی ایس ایل میچز کی میزبانی نے غیر ملکی ٹیموں کا اعتماد بحال کیا،ویسٹ انڈیز نے پاکستان میں سیریز کھیلی، سری لنکا نے 10سال بعد اپنی ٹیم بھجوائی، بنگلہ دیشی کرکٹرز نے بھی پاکستان کے میدانوں کی رونق بڑھائیں، رواں سال جنوبی افریقہ کی صورت میں ایک بڑی ٹیم نے دورہ کیا تو دیگر ملکوں کا اعتماد بھی بحال ہوا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے ٹورز طے پائے تو امید جاگ اٹھی کہ طویل جدوجہد کے بعد مشن مکمل ہونے کا وقت آگیا ہے،پی سی بی اور عوام بجا طور پر آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کا خواب دیکھنے لگے تھے۔

کیویز نے 18 سال پاک پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو شائقین کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا، نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے ''بی'' ٹیم بھجوانے کا فیصلہ بھی خوشدلی سے تسلیم کر لیا گیا کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر جاری رہنا زیادہ اہم تھا،مہمان ٹیم کو سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی فراہم کی گئی، میزبانوں نے کیویز کو آنکھ کا تارا بنا کر رکھا، کیوی کرکٹرز نے پنڈی اسٹیڈیم میں پریکٹس سیشن بھی کئے۔

اس دوران کھلاڑی پاکستان میں سکیورٹی اور دیگر انتظامات کی بھرپور ستائش بھی کرتے نظر آئے، پہلا ون ڈے شروع ہونے سے قبل نیوزی لینڈ نے ایک ایسا ڈرامہ کیا جس پر دنیا کرکٹ حیران و پریشان رہ گئی،جعلی سیکیورٹی خدشات کو جواز بناتے ہوئے نہ صرف کہ میچ بلکہ سیریز کھیلنے سے انکار کردیا گیا،تھریٹ کا ڈھنڈورا تو پیٹا گیا مگر اس کی کوئی تفصیل بتانے سے گریز کیا گیا،نیوزی لینڈ کرکٹ کی ہٹ دھرمی تو ایک طرف وزیراعظم جیسینڈا آرڈیرن نے اپنے پاکستانی ہم منصب عمران خان کے بات کرنے پر بھی مثبت جواب نہیں دیا،کیویز تو چارٹرڈ طیارے میں سوار ہوکر روانہ ہوگئے،پاکستان کے لیے کئی سوال چھوڑ گئے۔

انگلینڈ کی ٹیم نے اکتوبر کے وسط میں مختصر سیریز کے لیے دورہ کرنا تھا، ایک ماہ کا وقت موجود ہونے کے باوجود انگلش کرکٹ بورڈ میں فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی، ہنگامی اجلاس بلا کر سیریز نہ کھیلنے سے انکار کر دیا، جواز یہ پیش کیا کہ موجودہ صورتحال میں کرکٹرز جسمانی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے،ای سی بی نے فیصلہ خود کیا ملبہ پلیئرز یونین پر ڈال دیا۔

بورڈ کا یہ موقف تھا کہ اگر پاکستان جانے کا فیصلہ کرتے تو کھلاڑی ناراض ہو جاتے دوسری جانب کرکٹرز کی یونین نے اس چال بازی کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان ختم ہونے کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور سیریز نہ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا گیا، ناپسندیدہ قدم ای سی بی نے اٹھایا، دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ کرکٹرز بنے، انگلش کھلاڑیوں کے اس انکشاف کے بعد مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے فیصلوں کی وجہ سکیورٹی خدشات یا کرکٹرز کے مسائل نہیں، ایک بہت بڑی سیاسی چال ہے جس کے حقائق بھی منظرعام پر آنے لگے ہیں۔

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلنا شروع کیا تو گزشتہ کئی چند سیریز میں پیش آنے والے واقعات ذہن میں گردش کرتے رہے،کورونا کی وجہ سے کرکٹ کی دنیا پر جمود طاری تھا،انگلش کرکٹ بورڈ کے بھی لاکھوں پاؤنڈز ڈوب جاتے اگر پاکستانی کرکٹر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بائیو ببل کے اولین تجربوں تو حصہ بننے سے انکار کر دیتے،پی سی بی نے مشکل وقت میں انگلینڈ کا ساتھ دینے کی حامی بھرلی تو کرکٹرز نے قید تنہائی گوارا کر لی، سیریز بھی ہوئی اور انگلش بورڈ نے نشریاتی حقوق کی مد میں لاکھوں پاؤنڈ بھی اپنی تجوری میں بھر لیے۔

کیویز کے دیس میں قرنطینہ کی سختیوں کے دوران چند قومی کرکٹرز کے ساتھ میری فون پر ہونے والی گفتگو بھی ذہن میں تازہ ہو گئی ہے، احساس برتری کا شکار گوروں نے اپنے میدانوں کو آباد کرنے کے لیے پاکستانی کرکٹرز کو بلایا مگر سلوک قیدیوں جیسا کیا،اپنی قیمتی جانوں کے تحفظ کو عزیز رکھا،مہمان کھلاڑیوں اپنے واش روم بھی خود صاف کرتے رہے،کیویز پاکستان آئے تو یہاں ان کو سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول ملا، مہمانوں کی حفاظت کے لیے پاکستان نے راستے بند کر کے اپنے شہریوں کی اذیت بھی برداشت کر لی،ان ساری قربانیوں کا صلہ یہ ہے کہ گورے نام نہاد خدشات کو جواز بنا کر اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

دنیا کا کونسا ملک ہے جو 100 فیصد محفوظ ہونے کا دعویٰ کر سکے، کیا نیوزی لینڈ میں دہشت گردی نہیں ہوئی؟کیا انگلینڈ میں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں رہیں؟ کیا فٹبال میچز میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں افراد ہلاک نہیں ہوتے رہے؟ انگلینڈ کی شاندار سیکیورٹی کا تو یہ حال ہے کہ ایک بھارتی شائق 3 بار ناصرف کے میدان میں داخل ہوا بلکہ پچ پر بیٹنگ اور بولنگ کے لیے بھی آ گیا، پاکستان میں تو اس طرح کے واقعات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہاں تو ٹیموں کے روٹ پر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ خاصی پرجوش نظر آتے ہیں، گوری ٹیموں کا دوہرا معیار آشکار کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں،پاکستان کرکٹ کو مالی طور پر مضبوط اور پرکشش بنانے بات بھی کر رہے ہیں،قوم بھی یہی چاہتی ہے مگر انٹرنیشنل سطح پر لابیز کی موجودگی میں رمیز راجہ پاکستان کی ساکھ بنانے میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی بیوفائی سے نہ صرف کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے بحالی کے عمل پر کاری ضرب لگی بلکہ گرین شرٹس کی ورلڈکپ کیلئے تیاریاں بھی متاثر ہوئیں،3ون ڈے اور 7ٹی ٹوئنٹی میچز سے میزبان ٹیم کو یواے ای جیسی کنڈیشنز میں اپنی صلاحیتیں نکھارنے اور درست کمبی نیشن بنانے کا موقع مل سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔

اس صورتحال میں منی پی ایس ایل یا کسی غیر ملکی ٹیم کو بلاکر سیکیورٹی کے بارے میں غلط تاثر کو ختم کرنے کے ساتھ کرکٹرز کو تیاری کا موقع بھی مل سکتا تھا مگر لاجسٹک مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا، راولپنڈی میں نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں شریک قومی کرکٹرز کیلئے اپنی صلاحیتوں پر لگا زنگ اتارنے کا اچھا موقع ہے،نیٹ پریکٹس کی بانسبت مسابقتی کرکٹ ہمیشہ ہی زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے، امید ہے کہ کھلاڑی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں